لاہور (خصوصی رپورٹ) ماہ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی ایشیائی اور افریقی ممالک میں انسانی سمگلنگ کا مکروہ دھندہ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ انسانی سمگلنگ کے خلاف سرگرم انٹرنیشنل امیگریشن آرگنائزیشن نے حالیہ رمضان میں جاری اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ انسانی سمگلنگ اسلحہ اور منشیات کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا غیرقانونی منافع بخش دھندہ بن گیا ہے جس میں ملوث مافیا کی سالانہ آمدنی 3.5 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔ ایشیائی ممالک‘ مشرق وسطیٰ اور افریقی خطے میں امن و امان کی کشیدہ صورتحال اور روزافزوں بڑھتی ہوئی بے روزگاری‘ غربت اور بھوک سے تنگ افراد انتہائی آسانی کے ساتھ انسانی سمگلروں کے جال میں پھنس رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ پہنچا کر نئی زندگی کے سنہری خواب دکھانے والے انسانی سمگلروں کے رحم و کرم پر رہنے والوں کی اکثریت سمندروں کے غیرمحفوظ سفر کے دوران غرق ہوکر زندگی سے محروم ہوجاتی ہے جبکہ زندہ بچ جانے والوں میں بھی بہت کم منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود بھی یہ دھندہ عروج پر ہے اور آئے دن اس میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ انٹرنیشنل امیگریشن آرگنائزیشن کے سربراہ ولیم لاسی نے حال میں جاری کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اسلحہ اور منشیات کے بعد عالمی سمگلروں نے انسانی سمگلنگ پر توجہ مرکوز کرنی شروع کردی ہے جس کے لئے عالمی سمگلروں نے اپنے کارندے لیبیا پہنچا دیئے ہیں جو افریقی براعظم سے یورپ جانے کا سب سے قریب اور آسان راستہ سمجھا جاتا ہے۔ 2011ءمیں لیبیا کے حکمران معمر قذافی کے مارے جانے اور اقتدار کے خاتمے کے بعد لاقانونیت کا راج ہے۔ لیبیا کے ساحلوں پر نگرانی نہیں ہے جس کے نتیجے میں اٹلی‘ مالٹا اور دیگر یورپی ممالک جانے کے لئے بحیرہ روم انسانی سمگلروں کی کمائی کا اہم ترین ذریعہ بن چکا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق بحیرہ روم میں رواں سال غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے والے 700 افراد غرق ہوکر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 2016ءمیں پانچ ہزار جبکہ 2015ءمیں 3700 تارکین وطن بحیرہ روم کے پانی میں غرق ہوچکے ہیں۔ انٹرنیشنل امیگریشن آرگنائزیشن کے مطابق تنظیم کے سربراہ نے لیبیا کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد وہاں اپنی ٹیمیں تعینات کرکے موت کے اس سفر کو لگام دینے کا عزم ظاہر کیا تھا تاہم اقوام متحدہ نے اجازت دینے سے انکار کرکے اس دھندے کو جاری رکھنے دیا۔ مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک میں انسانی سمگلنگ کے مکروہ دھندے سے متعلق رپورٹس شائع کرنے والے عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق انسانی سمگلنگ کا دھندہ جن ممالک میں بڑھ رہا ہے ان میں لیبیا کے بعد پاکستان بھی شامل ہے۔ ویسے تو انسانی سمگلر کافی عرصے سے پاکستان کو انسانی تجارت کے لئے استعمال کرتے رہے تاہم گزشتہ چھ سالوں سے پاکستان بین الاقوامی سمگلروں کے لئے پرکشش گزرگاہ بن چکا ہے۔ 2011ءمیں عرب ملکوں بغاوتی تحریک کے بعد بین الاقوامی سمگلروں کی جانب سے پاکستانی سرزمین کو انسانی سمگلنگ کے لئے بطور گزرگاہ استعمال کرنے میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس دھندے میں مزید اضافہ 2012 ءمیں اس وقت ہوا جب میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مقامی حکومتی فورسز اور انتہاپسند یودھ تنظیموں نے نسل کشی مہم شروع کی اور ان پر زمین تنگ کردی گئی۔ بودھوں کے مظالم سے تنگ برمیوں نے مختلف ممالک جانے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کی۔ میانمار کی بدامنی سے فائدہ اٹھا کر انسانی سمگلروں نے ابتدا میں ملائشیا کا رخ کیا لیکن وہاں امیگریشن کے سخت قوانین اور کڑی سرحدی نگرانی کے باعث سمگلروں کو زیادہ کامیابی نہ ملی جس کے بعد سمگلروں نے ملائیشیا کے بعد پاکستان کو گزرگاہ کے طور پر منتخب کیا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت انسانی سمگلنگ میں ملوث بین الاقوامی گروہ فلپائن اور برما سمیت ایشیا کے دیگر پسماندہ ممالک سے مرد و خواتین اور بچوں کو پاکستان لاتے ہیں اور کچھ عرصے بعد انہیں مختلف راستوں سے یورپی منڈیوں تک پہنچاتے ہیں۔ برما اور فلپائن کی طرح ہمسایہ ملک افغانستان سے تعلق رکھنے والے یورپ جانے کے خواہمشند افراد کو بھی انسانی سمگلر پاکستان کے راستے سے منتقل کرتے ہیں۔ رمضان کے آغاز کے ساتھ پاکستان میں بین لاقوامی سمگلروں کی سرگرمیاں تیز ہوجاتی ہیں۔ روزے کی وجہ سے سرحدی راستوں کی نگرانی کم ہوجاتی ہے۔ چیکنگ اور تلاشی میں نرمی ہوتی ہے جس کا فائدہ اٹھا کر سمگلروں کے لئے اپنے شکار کو گداگروں کی شکل میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں سرگرم ملکی و غیرملکی سمگلر مشرق وسطیٰ میں امن و امان کی کشیدہ صورتحال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایران اور پاکستان کے درمیان 900 کلو میٹر پر پھیلی ہوئی سرحد انسانی سگلروں کا اہم راستہ ہے جہاں سے ایران اور عراق کے راستے ترکی تک مغوی افراد کو پہنچا کر سمندر کے ذریعے یونان روانہ کردیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برس سے اس مکروہ دھندے میں جن ممالک میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے ان میں پاکستان اور لیبیا سرفہرست ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق پاکستان سے بلوچستان کے راستہ سالانہ 25 سے 30 ہزار افراد مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں غیرقانونی طریقے سے داخل ہوتے ہیں جن میں سے بعض وہیں ٹھہر جاتے ہیں جبکہ کچھ یورپی ممالک کی طرف نکلنے کے بعد ترکی اور لیبیا جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک سفر ہے جس میں جانے والے افراد نہ صرف اپنی جمع پونجی سمگلروں کے حوالے کردیتے ہیں بلکہ ان کی زندگیاں بھی بے رحم سمگلروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ سمگل ہونے والے بچے اور خواتین کو ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر اوقات درندہ صفت سمگلروں کی درندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مختلف جگہوں پر کئی کئی دن تک بھوکے پیاسے رکھنا احتجاج کرنے پر مارپیٹ اور بلیک میلنگ اس سفر کا حصہ ہے۔