ملتان (مانیٹرنگ ڈیسک) پاک فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اور سابق سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف جنہیں اسلامی امہ اتحاد کی مشترکہ فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور جو ریٹائرمنٹ کے بعد مروجہ طریقہ کار کے مطابق حکومت پاکستان سے این او سی لے کر سعودی عرب گئے تھے کو ابھی تک نہ تو کسی فوج کی کمان سونپی گئی ہے اور نہ ہی اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا وہ مجوزہ اجلاس ہو سکا ہے جس میں امن فوج کا ڈھانچہ فائنل کیا جائے اور امریکی صدر ٹرمپ نے ریاض کے دورے میں یہ کہا تھا کہ یہ اتحاد دہشتگردی کے خلاف ہونا چاہئے اور سب سے پہلے ایران کو تنہا کیا جائے اور کیونکہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے بھی یہی الفاظ استعمال کئے تھے لہٰذا جنرل راحیل شریف کو فوراً یہ ذمہ داری چھوڑ کر پاکستان واپس آنا چاہئے بدھ کی رات ایک نجی ٹی وی سے باتیں کرتے ہوئے جنرل (ر) لودھی نے کہا کہ جنرل راحیل شریف اگرچہ ذاتی حیثیت سے سعودی عرب کئے تھے لیکن ایک سابق آرمی چیف کو حکومت پاکستان کا این او سی جاری کر کے ریاض جانے کی اجازت دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ شاید کچھ لوگ یہ چاہتے تھے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف مہم میں عوامی سطح پر بہت مقبول ہو چکے ہیں اس لئے انہیں ملک سے باہر بھیجنا ہی بہتر ہو گا۔ جنرل لودھی نے کہا کہ اگر راحیل شریف صاحب کو پاکستان آنے کے بعد اس ملک کے عوام کی خدمت کرنی چاہئے انہیں وزیراعظم کا دہشتگردی کے سلسلے میں خصوصی معاون مقرر کیا جا سکتا ہے آج جبکہ پاکستان ایک طرف کوشش کر رہا ہے کہ سعودی عرب، ایران اور یمن وغیرہ کے جھگڑے میں غیر جانبدار رہے تو راحیل شریف کی سعودی عرب میں موجودگی ہماری غیر جانبداری پر سوال کھڑے کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود نہ تو دہشتگردی کے خلاف اس عالمی فورس کی شکل واضع ہوئی ہے اور نہ ہی راحیل شریف کو باقاعدہ طور پر کسی لشکر کی قیادت سونپی گئی ہے جس کا دنیا بھر میں ایک متعین طریقہ کار ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ دنیا میں 2 ہی فوجی اتحاد کامیاب ہوئے اول وارسا دوسرا نیٹو اور کسی بھی فوجی اتحاد کی کامیابی تب ہی ممکن ہے جب اُس فوج کے محتلف اجزاءجو مختلف ملکوں کے لئے جاتے ہیں کو مربوط تربیت دی جائے تا کہ وہ ایک منظم سپہ کی شکل میں دشمن کے خلاف نبرد آزما ہو سکیں یہاں دشمن سے مراد دہشتگرد لی جاتی ہے لیکن دہشت گرد کی تعریف یوں ہوتی ہے کہ یمن اور ایران نشانے پر ااتے ہیں۔ جنرل (ر) لودھی نے کہا کہ پاکستان کو اس بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہئے اور ہماری حکومت کا یہ اعلان کافی نہیں کہ وہ ذاتی حیثیت میں سعودی عرب میں گئے ہیں کیونکہ اارمی چیف معمولی افسر نہیں ہوتا جو ریٹائرمنٹ کے بعد اسے حکومت این او سی جاری کر دے اور وہ باہر چلا جائے اور کسی دوسری فوج کی قیادت شروع کر دے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر بغیر منصوبہ بندی تیاری اور واضح نشاندہی کے بغیر کہ کون اس فوج کی سیاسی قیادت کرے گا اور کون حتمی فیصلے دے گا ”حوج پوج‘’ قسم کا اتحاد اور فوج جمع کر لی جائے تو بھی اُن میں ربط، مناسب تیاری، یکساں ہتھیار اور دیگر لوازمات پورے نہ ہوں تو اس بات کا خدشہ رہے گا کہ یہ امن فوج کسی بھی ٹارگٹ کے خلاف کوئی کامیابی حاصل کر سکے اور خدانخواستہ اسے ناکامی ہوتی ہے تو اسے اتنے بے شمار اسلامی ممالک کی ناکامی قرار دیا جائے گا لہٰذا اس گورکھ دھندے سے بچ نکلنے میں راحیل شریف ہی نہیں پاکستان کا بھی فائدہ ہے۔
