لاہور (خصوصی رپورٹ)جرمنی میں مقیم ہزاروں مسلمانوں نے برلن میں ایک عیسائی چرچ کی جانب سے کھولی گئی ایک ایسی مسجد پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جسے عبادت کے نام پر مرد و خواتین کے مخلوط ماحول کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ چرچ کی عمارت کی تیسری منزل پر کھولی جانے والی مسجد میں مردوں کی طرح خواتین کو بھی امامت اورخطبہ دینے کی اجازت ہوگی۔ اس مسجد کے استعمال کرنے والوں میں اکثریت ہم جنس پرستی جیسی لعنت میں ملوث افراد کی ہوگی جو مسجد میں عبادت کے بہانے ناجائز سرگرمیوں کے جمع ہوں گے۔ انتظامیہ نے اس مسجد کا نام لبرل مسجد مشہور کررکھا ہے جس سے جرمنی میں رہنے والے مسلمانوں کو شدید ذہنی کوفت اور اضطراب کا سامنا ہے۔ شرانگیز اقدام کی مرکزی ذمہ دار ترکی سے تعلق رکھنے والی خاتون ماہر قانون سیران آتش ہے جو قانونی ماہر کے ساتھ دیگر سرگرمیوں میں بھی سرگرم ہے مشہور مسلمان فلسفی ابن رشد کے نام سے موسوم مسجد کا افتتاح 16جون بروز جمعہ کیا گیا، افتتاحی تقریب میں شرانگیز خاتون نے اپنی کتاب اسلام میں عورت کی امامت کے متنازع موضوع پر لکھی ہوئی اپنی کتاب کی رونمائی بھی کی۔ برلن کے موابیت محلے میں واقع چرج عیسائیوں کے فرقے پروٹسٹنٹ کا ہے جنہوں نے منزل لبرل مسلمانوں کو کرایہ پر دے رکھی ہے۔ آتش نے بتایا کہ وہ اس مہم کی کامیابی کے بعد برلن میں اراضی خرید کر وہاں ایسی مخلوط مسجد تعمیر کرے گی سیران آتش جرمنی میں اسلامی تعلیمات کے نام پرمشکوک سرگرمیوں میں ملوث رہنے کی وجہ سے شہرت حاصل کرچکی ہے۔وہ ماضی میں جرمنی میں اسلامک کانگریس کی ممبر شب حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئی تھی تاہم اس کی شرکت کی وجہ سے مسلمانوں نے اس کا نگریس کابائیکاٹ کیا جس کے بعد وہ مایوس ہوکر کنارہ کش ہوگئی۔ 2006ءمیں بعض انتہا پسند تنظیموں ن آتش کو قتل کی دھمکی دی جس سے خوفزد ہوکر اس نے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سمیت ہر قسم کی سرگرمیاں ترک کیں اور گھر بیٹھ گئی تاہم 2012ءکواس نے دوبارہ وکالت کی ذمہ داریاں شروع کیں۔ رواں برس ترکی اور جرمنی کے درمیان سفارتی سطح پر اختلافات بڑھانے کے ساتھ اچانک سیران آتش ایک مرتبہ پھر سے سرگرم ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں کھولی جانے والی اس مخلوط مسجد میں ہم جنس پرستوں کی غیراخلاقی سرگرمیوں سے پہلے ہی دن آنے والے مسلمانوںنے شدید کراہیت کااظہارکیا۔ مسلمانوں کا کہنا تھا کہ انہیں قریب میں مسجد رکھولے جانے سے نہایت خوشی ہوئی تاہم مسجد آکر یہاں نامناسب سرگرمیاں دیکھ ان کے دل ڈوب گئے۔ مسجد میں زیادہ تر شام ،عراق اورایران سے جانے والے ایسے افراد کی آﺅ بھگت کی جاتی ہے جو اسلام چھوڑ کر عیسائیت قبول کرچکے ہیں۔ اس لئے اس مسجد ک کردار پر مسلمان غیرمعمولی تشویش ظاہر کررہے ہیں۔