ڈاکٹر نوشین عمران
گردے میں پتھری بننے کی شرح عورتوں کی نسبت مردوں میں تقریباً 3 فیصد زیادہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر دس میں سے ایک مرد کو گردے میں پتھری بن جاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ پتھری اتنی بڑی ہو کہ گردے کو تکلیف پہنچائے یا درد اور دوسری علامات پیدا کرے بلکہ بعض اوقات تو پتھری اتنی چھوٹی اور بے ضرر ہوتی ہے کہ اس کا علم ہی نہیں ہوتا صرف اتفاقی طور پر الٹراساﺅنڈ یا ایکسرے ہونے پر اس کی تشخیص ہوتی ہے۔ پتھری بننے کا زیادہ خطرہ 20 سے 50 سال کی عمر کے دوران ہوتا ہے بلکہ 30 سال کی عمر کے قریب اس کی شرح زیادہ ہے۔ ایسے مرد وخواتین جن کے خاندان میں (خونی رشتوں) میں گردے میں پتھری بننے کا امراض ہو ان میں پتھری بننے کا رسک زیادہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسی پتھری میں موروثی عمل دخل بھی موجود ہے۔ کم پانی پینے والے، نمک زیادہ استعمال کرنے والے، مرغن غذائیں زیادہ لینے والے گوشت خور دوا کی صورت کیلشیم زیادہ لینے والوں میں رسک زیادہ ہے۔ پیشاب میں بار بار انفیکشن، ذیابیطس، امراض دل خاص کر شریانوں کی تکلیف، موٹاپا، گھنٹیا، یورک ایسڈ کی زیادتی، آنتوں میں سوزش کے باعث بھی گردے میں پتھری بن جاتی ہے۔ پینے کے پانی میں نمکیات کی زیادتی سے بھی پتھری بن سکتی ہے۔
گردے میں پتھری بننے کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب پیشاب میں کمی ہونے لگے یا پتھری کی وجہ بننے والے کیمیکل یا مادے گردے میں جمع ہونے لگیں۔ پانی کی کمی کا شکار رہنے والے یا کم پانی پینے والے افراد میں گردے کی پتھری بننے کی شکایت زیادہ ہوتی ہیں۔ کئی پتھریاں اتنی چھوٹی یا بے ضرر ہوتی ہیں کہ ان کی گردے میں موجودگی کسی علامت کا باعث نہیں بنتی اس لیے سالہا سال تک ان کی تشخیص بھی نہیں ہوتی۔ پتھری کے باعث درد کا اعضاءاس بات پر ہے کہ پتھری گردے یا پیشاب کی نالی میں کس مقام پر ہے اور آیا اس جگہ بندش پیدا کر رہی ہے یا نہیں۔ بعض دفعہ بہت چھوٹی پتھری پیشاب کے ساتھ خود ہی خارج ہو جاتی ہے۔
گردے میں بننے والی پتھری میں عام کیلشیم کی پتھری ہے۔ یہ بیس سے چالیس سال کی عمر کے افراد میں زیادہ بن سکتی ہے۔ اس میں کیلشیم آکزیلیٹ پتھری بہت عام ہے ایسے افراد جو مسلسل کیلشیم اور وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ لگاتار لیتے رہیں ان میں پتھری بننے کا عمل زیادہ ہوتا ہے جبکہ قدرتی غذاﺅں سے لی جانے والی کیلشیم اور وٹامن ڈی یا دوسرے منرل پتھری کی وجہ نہیں بنتے۔ خوراک میں بے تحاشہ پروٹین خاص کر گوشت کی پروٹیشن کھانے سے بھی ”سٹیسن پروٹین“ گردوں میں جمع ہو جاتی ہے۔ گوشت کی زیادتی کے باعث ہی یورک ایسڈ بھی گردے میں اکٹھا ہو جاتا ہے۔ اگر ایسے افراد پانی کی مقدار کم لیں یا انہیں پیشاب کم آئے تو یہ مادے گردے میں جمع ہو کر پتھری کی شکل بنا دیتے ہیں۔ وٹامن سی کی زیادتی کے باعث بھی گردے میں پتھری بنتی ہے۔
پتھری کے انفکشن پیدا کرنے یا گردے پیشاب کی نالی میں کسی جگہ پھنس کر بندش پیدا کرنے کے باعث گردے کا درد شروع ہو جاتا ہے۔ اس درد کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ درد کمر کے پچھلے حصے سے شروع ہو کر آگے اور نیچے کی طرف پھیلتا ہے۔ بعض اوقات مریض محسوس کر سکتا ہے جیسے پیشاب بہت جل کر یا تکلیف سے آ رہا ہے یا پھر کوئی چیز کمر سے نیچے کی طرف جا رہی ہے۔ مریض کو پیشاب میں پیپ یا خون آ سکتا ہے۔ پیشاب کی بار بار حاجت ہوتی ہے۔ بخار، قے، متلی بے چینی اور زیادہ پسینہ بھی آ سکتا ہے۔
پتھری پیدا کرنے والے اکثر مادے چونکہ روز مرہ خوراک میں شامل ہوتے ہیں اس لیے انہیں چھوڑنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ البتہ روزانہ سادہ پانی کم از کم دو لیٹر یعنی آٹھ گلاس لیتے رہنے سے پیشاب اور گردوں میں صفائی کا عمل بآسانی چلتا رہتا ہے اور پیشاب میں تیزابیت بھی نہیں ہوتی اس طرح گردوں سے فاضل مادوں کی صفائی جارتی رہتی ہے۔
٭٭٭