اسلام آباد (نیٹ نیوز) پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت جمعرات کو چوتھے روز بھی جاری رہی اور جوں جوں ان درخواستوں پر سماعت اپنے حتمی انجام کی طرف رواں دواں ہے توں توں حزب مخالف کی جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماو¿ں کی سپریم کورٹ میں آمد اور حکمراں جماعت کے رہنماو¿ں کے لہجے میں تلخی بڑھتی جارہی ہے۔ جمعرات کو بھی ان درخواستوں کی سماعت سے پہلے کمرہ عدالت لوگوں سے بھر چکا تھا لیکن جمعرات کو سیاسی کارکنوں کی تعداد وکلا سے زیادہ تھی۔ ابھی ان درخواستوں کی سماعت شروع ہی ہوئی تھی کہ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ پر اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ ا±نھوں نے دستاویزات عدالت میں پیش کرنے کی بجائے میڈیا کو فراہم کردیے اور الیکٹرانک میڈیا پوری رات ان دستاویزات کا پوسٹ مارٹم کرتا رہا۔ سلمان اکرم راجہ کو تو یہاں تک کہہ دیا گیا کہ اگر ا±نھوں نے دستاویزات میڈیا کو دی ہیں تو پھر دلائل بھی ا±نہی کو دیں کیونکہ سپریم کورٹ کے باہر روسٹم بھی موجود ہے۔ عدالت نے وزیر اعظم کے بچوں کی طرف سے پیش کی گئی دستاویزات پر سلمان اکرم راجہ سے پے درپے اتنے سخت سوالات کیے کہ کچھ دیر کے لیے تو وہ ہکا بکا روسٹم پر کھڑے رہے اور پھر ا±نھوں نے عدالت کو اپنے تئیں مطمعئن کرنے کی کوشش کی۔ لیکن سماعت ختم ہونے تک ججز کے رویے سے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل کے جوابات سے مطمعئن نہیں ہیں۔ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران جب وقفہ ہوا تو سلمان اکرم راجہ سوچ میں ڈوبے ہوئے ایک کونے میں کھڑے تھے۔ پھر کچھ دیر کے بعد اطلاعات ونشریات کی وزیر مملکت مریم اورنگزیب ا±ن کے پاس آئیں اور کچھ معاملات پر ا±ن سے گفتگو کی۔