لاہور (وقائع نگار) قیام پاکستان کے وقت کمرشل صحافت کی بجائے نظریاتی صحافت کا دور تھا اور ہر اخبار کسی نہ کسی نکتہ¿ نظر کا حامی ہوتا تھا، اُس وقت لاہورکا سب سے بڑا اخبار مولانا ظفر علی خان کا”زمیندار “ تھا۔ روزنامہ ”کوہستان“ نے پہلی بار رنگین طباعت کا آغاز کیا۔ آزادی¿ صحافت کے حوالے سے بدترین اور تاریک ترین دور ذوالفقار علی بھٹو کا تھا جنرل ضیاءالحق کے زمانہ میں بھی بہت پابندیاں لگیں، وزیراعظم محمد خان جونیجو نے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس میں تبدیلیاں کیں۔ آج پروفیشنل ایڈیٹرز کی کمی ہے اور چیک پر دستخط کرنیوالا مالک ایڈیٹر بن گیا ہے۔ میں موجودہ صحافت سے بالکل مطمئن نہیں ہوں۔ آج آئیڈیل ازم ختم اور ہر چیز کمرشلائز ہو رہی ہے ۔ اگر کسی خبر سے اشتہاری پارٹی کا بزنس متاثر ہوتا ہو تو وہ خبر کوئی اخبار شائع نہیں کرتا ہے۔ ان خیالات کااظہارکونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز(CPNE) کے صدر وچیف ایڈیٹر خبریں گروپ آف نیوز پیپرز ضیاشاہد نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان ،لاہور میں 70ویں سال آزادی کی تقریبات کے سلسلے میں منعقدہ مکالماتی نشست بعنوان” صحافت کے 70 سال“ کے دوران کیا۔ اس موقع پر سینئر صحافی میاں حبیب اللہ، عدنان ملک، حامد ولید، سلمان عابد ، ڈاکٹر انصر یوسف، خواجہ خالد آفتاب، پروفیسر یوسف عرفان، شیخ ثناءاللہ، سید تنویر شاہ، حسنین اخلاق ،آمنہ تبسم، سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ نشست کی نظامت کے فرائض سیکرٹری نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے انجام دیے۔ ضیاشاہد نے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت نظریاتی صحافت کا دور تھا پرانے وقتوں میں اخبار نکالنے والوں کی منشا اشتہار چھاپنا بالکل نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ کسی نکتہ¿ نظر کو فروغ دیا کرتے تھے۔ اخبار کی آمدن کا بڑا ذریعہ اس کی فروخت ہی تھا کیونکہ اشتہارات نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس شعبہ میں کاروباری افراد اور صنعتکار بعد میں آئے۔ قیام پاکستان کے وقت لاہور سے ایک بڑا انگریزی اخبار ”سول اینڈ ملٹری گزٹ “ شائع ہوتا تھا جبکہ اردو اخبارات میں ”احسان“، ”نوائے وقت“،”شہباز“اور ”آفاق“ نمایاں تھے۔ تحریک پاکستان میں نوائے وقت نے اہم کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد میاں افتخار الدین نے ایک بڑا میڈیا گروپ بنایا جس کے تحت انگلش اخبار”پاکستان ٹائمز“ اردو اخبار”امروز“ ویکلی ”سپورٹس ٹائمز“ اور ہفت روزہ ”لیل و نہار“شائع ہوتے تھے۔ یہ بڑا مضبوط ادارہ تھا جو بائیں بازو کا بڑا اخباری گروپ شمار ہوتا تھا،اس گروپ سے نامور افراد وابستہ رہے۔ ضیاشاہد نے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت کمرشل صحافت کا دور نہیں تھا۔ غلام رسول مہراور عبدالمجید سالک بڑے پائے کے ایڈیٹرز تھے ۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی سے ”جنگ“ اور ”انجام“ نکلتے تھے۔ یہ اخبار دہلی سے کراچی منتقل ہوئے تھے۔تاہم ”انجام“ اخبار بعدازاں بند ہو گیا۔قیام پاکستان سے قبل قائداعظمؒ کی ہدایت پر ایک بڑے انگریزی اخبار ”DAWN“نے اشاعت کا آغاز کیا۔ اس اخبار نے پاکستان کے مختلف ادوار میں سیاست سمیت مختلف شعبوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔یہ ایلیٹ کلاس کا اخبار سمجھا جاتا تھا۔ یہ اخبار آج بھی پاکستان کی انگریزی صحافت میں صف اول میں ہے۔ایک اور انگریزی اخبار ”مارننگ نیوز“کلکتہ سے شائع ہوتا تھا جو بعدازاں ڈھاکہ منتقل ہو گیا۔ ڈھاکہ سے ”آزاد“ اور ”اتفاق“ جیسے معروف اخبار بھی نکلتے تھے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں جماعت اسلامی کا ترجمان اخبار ”تسنیم“ بھی شائع ہوا۔ ”مشرق“ والے عنایت اللہ نے نسیم حجازی سے ملکر روزنامہ ”کوہستان“ شروع کیا۔ یہ پہلا اخبار تھا جس نے دیدہ زیب رنگین طباعت کا آغاز کیا۔ جسٹس کیانی کے سرمایہ سے ”حالات“ کا اجراءہوا لیکن ان کی وفات کے بعد یہ اخبار بھی بند ہو گیا۔ روزنامہ ”مشرق“ بہت بڑا اخبار تھا۔اس نے لاہور کے علاوہ پشاور،کوئٹہ اور کراچی سے بھی اشاعت کا آغاز کیا۔یہ اخبار ریاض بٹالوی کے فیچرز ، ”اسے بھی پڑھیے“ جیسے کالم اور عوامی موضوعات کو موضوع بحث بنانے کی وجہ سے بہت مشہور ہوا۔ راولپنڈی سے روزنامہ ”جنگ“ کے بعد ”تعمیل“ کا آغاز ہو،ااسی اخبار میں منو بھائی نے بھی کالم لکھنے کا آغاز کیا۔پیپلز پارٹی کے رہنما حنیف رامے نے ”مساوات“ اخبار شروع کیا، ایک وقت میں اس اخبار کی سرکولیشن بہت زیادہ تھی۔ ضیاشاہد نے کہا کہ سندھی اخبارات کی بات کریں تو یہاں سے قاضی عبدالمجید نے ”عبرت“ کا آغاز کیا۔آغا اسلم نے ”کاوش“ نکالا ۔ میں نے ”خبرون“ کا اجراءکیا۔ سندھ میں سندھی زبان ذریعہ¿ تعلیم ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں سندھی اخبارات بہت پڑھے جاتے ہیں ۔روزنامہ ”ہلال پاکستان“ ، ”سندھ نیوز“ نے بھی وہاں سے اپنی اشاعت کا آغاز کیا۔ بلوچستان میں پہلا انگریزی اخبار سید فصیح اقبال نے ”بلوچستان ٹائمز “ نکالا ۔ ”جنگ“ ، ”مشرق“ ، ”پبلک“ بھی بلوچستان سے شائع ہوتے۔ DAWN گروپ نے کراچی سے اردو اخبار ”حریت“ نکالا جو چل نہ سکا۔ ایک زمانے میں ”امن“ کراچی کا بہت بڑا اخبار تھا۔ کراچی میں ”امت “ اخبار کو بھی بڑی پذیرائی ملی۔ اس کے ایڈیٹر ہفت روزہ ”تکبیر“ کے صلاح الدین کے داماد رفیق افغان ہیں۔ ”امت“اخبار ایم کیو ایم مخالف اخبار سمجھا جاتا ہے اور دیگر اخبارات کی نسبت اس کی قیمت زیادہ اور صفحات کم ہیں مگر اس کے باوجود لوگ اسے پڑھتے ہیں۔کراچی سے ہی ”ڈیلی نیوز“ ، ”ایوننگ سپیشل“ ، ”قومی اخبار“ ، ”عوام“ بھی نکلتے ہیں۔ لاہور سے دوپہر کے اخبارات میں ”نیا اخبار“، ”انقلاب“، ”تازہ اخبار“ اور ”دوپہر“ نکلتے ہیں۔ ضیاشاہد نے کہا پاکستان کی 70سالہ صحافتی تاریخ میں آزاد ، صداقت، شیخ افتخار عادل کا اخبار اساس، پاکستان، خبریں، ایکسپریس، نئی بات، جہان پاکستان، دنیا، جناح، اوصاف، 92نیوز، وقت، جمیل اطہر کا اخبار تجارت، جرا¿ت، رحمت علی رازی کا اخبار طاقت، لاہور میں محسن نقوی کا اخبار سٹی42، سعادت، سرزمین، صدائے وطن و دیگر چھوٹے اخبارات نکل رہے ہیں۔ پشاور سے نکلنے والا ”آج“ وہاں کا مقبول ترین اخبار ہے۔ انگریزی اخبارات میں رحمت شاہ آفریدی نے ”فرنٹیئر پوسٹ“ نکالا ،”دی نیوز“، ”دی نیشن“، عدنان شاہد کا ”THE POST“ ایکسپریس ٹربیون“ سلمان تاثیر مرحوم کا ”ڈیلی ٹائمز“ ایم اے زبیری کا ” بزنس ریکارڈر“، زاہد ملک کا ”پاکستان ٹائمز“ ”ایکسپریس ٹربیون“، ”سندھ نیوز“ ودیگر اخبارات نکلتے رہے ہیں۔ ضیاشاہد نے کہا کہ میرے خیال میں نظریاتی صحافت کا دور ”مشرق“ تک رہا اور اس کے بعد یہ دور ختم ہو گیا۔کراچی میں شروع سے ہی کمرشل اخبارات زیادہ چلتے ہیں ۔مختلف علاقوں میںتمام اخبارات کی سرکولیشن میں فرق ہے ۔ ایک علاقہ میں اگر کوئی اخبار بے حد مقبول ہے تو وہ کسی دوسرے علاقہ میں بالکل نہیں پڑھا جاتا ، یہ ایک مکمل سٹڈی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب والے بالکل متعصب نہیں ہیں لیکن پنجاب کا کوئی اخبار کراچی میں زیادہ نہیں بکتا۔ جبکہ پنجاب میں کراچی سے آنے والے اخبارات بھی بڑے شوق سے پڑھے جاتے ہیںکیونکہ یہاں تو تعصب نہیں ہے۔ بڑی ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں کراچی میں ہےں اور وہاں سے بہت زیادہ اشتہارات ملتے ہیں اس لیے سب اخباروں کو وہاں سے پرچے نکالنا پڑتے ہیں۔ وہاں لاہور کے اخبارات کی سرکولیشن بہت کم ہے۔ ضیاشاہد نے کہا کہ اشتہارات اپنے ساتھ اشتہار دینے والوں کا اثرورسوخ بھی لاتے ہیں، اگر کسی خبر سے کسی اشتہاری پارٹی کا بزنس متاثر ہوتا ہو تو وہ خبر کوئی نہیں شائع کرے گا۔ آج کے اخبارات میں اشتہار زیادہ اور خبریں کم ہوتی ہیں۔ ضیاشاہد نے کہا کہ ملک میں آزادی¿ صحافت کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ”زمیندار“ اخبار متعدد بار بند ہوا۔ ”نوائے وقت“ کو بھی بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ بھٹو دور میں اخبار نویسوں اور ایڈیٹرز کو مارا پیٹا گیا، متعدد اخبارات بند کیے گئے۔ بھٹو کے دور اقتدار کے آخری تین برسوں میں بڑی پابندیاں لگائی گئیں۔میں نے بھی اس دور میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں بھی بہت پابندیاں لگائی گئیں۔ اس دور میں جیے بھٹو کا نعرہ لگانے والوں کو کوڑے مارے جاتے تھے۔پاکستان کے صحافی محمد خان جونیجو کے مشکور ہیں جنہوں نے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس میں تبدیلیاں کیں اور عائد پابندیوں میں نرمی کی۔ بعدازاں حکومتوں کی طرف سے visibleنہیں لیکن unvisible بہت پابندیاں عائد رہی ہیں۔ہم آزاد لوگ نہیں ہیں بلکہ بہت سے پریشر میں جکڑے ہوتے ہیں۔ ضیاشاہد نے کہا کہ صحافت میں کاروباری افراد اور صنعتکاروں کی آمد کو کوئی نہیں روک سکتا ہے کیونکہ یہ فری اکانومی کا دور ہے۔ ان افراد کا اصل کاروبار کچھ اور ہے لیکن پبلک ریلیشنز یا دیگر وجوہات کی وجہ سے وہ اخبارات نکال رہے ہیں۔ آج دائیں اور بائیں بازو کا کوئی وجود نہیں ہے۔ آج آئیڈیل ازم ختم اور ہر چیز کمرشلائز ہو رہی ہے۔ میں قیام پاکستان کے کئی برسوں بعد تک رہنے والی صحافت سے بہت مطمئن تھا لیکن آج کی صحافت سے میں خوش نہیں ہوں اور میں نے کتابیں لکھنی شروع کر دی ہیں۔ ضیاشاہد نے کہا آج ورکنگ جرنلسٹ بھی خوشحال ہو رہا ہے، اسے اگر ایک ادارے سے کم تنخواہ مل رہی ہے تو وہ دوسرے ادارے سے دگنی تنخواہ کی آفر پر وہاں چلا جاتا ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی وجہ سے اخبارات کی سرکولیشن میں بہت کمی آئی ہے۔اخبارات کو اپنا مقام برقرار رکھنے کیلئے نت نئے آئیڈیاز تلاش کرنا ہوں گے ۔ شاہد رشید نے کہا کہ پاکستان کو آزاد ہوئے 70سال ہو گئے ہیں۔ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ یہ سال 70ویں سال آزادی کے طور پر منا رہا ہے اور اسی تناظر میں یہ مکالماتی نشستیں بھی منعقد کی جارہی ہیں۔ ان مکالماتی نشستوں کا مقصد پوری قوم کو مختلف شعبوں میں 70برسوں کے دوران رونما ہونیوالے واقعات سے آگاہ کرنا ہے تاکہ قوم تاریخ سے آگاہ رہ سکے۔
