اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) حکومتی سطح پر پاکستان مےں رقوم کی لےن دےن کا موثر مانےٹرنگ نظام نہ ہونے کی وجہ سے اسٹاک اےکسچےنج منی لانڈرنگ کا سب سے بڑا ذرائع بن چکا ہے جہاں سے اربوں روپوں کی بے نامی ٹرانزےکشنزہورہی ہےں ۔ حکومت کی طرف سے بنائے گئے اےنٹی منی لانڈرنگ اےکٹ 2010 مےں کوئی اےسی شق موجود نہےں جس کے تحت اسٹاک اےکسچےنج مےں ہونے والی ٹرانزےکشنزکی نگرانی کی جاسکے ۔ذرائع کے مطابق اےف بی آر کے ڈائرےکٹورےٹ انٹےلی جنس و انوےسٹی گےشن نے بے نامی ٹرانزےکشنز کی تحقےقات کا آغاز کردےا ہے ۔ سٹےٹ بےنک کے فائنےنشل مانےٹرنگ ےونٹ نے 200 سے زائد مشکوک ٹرانزےکشنز کا رےکارڈ ڈائرےکٹورےٹ انٹےلی جنس و انوےسٹی گےشن کو بجھواےا ہے ۔ پاکستان مےں اس وقت منی لانڈرنگ کے سب سے بڑے ماخز رئےل اسٹےٹ ، قےمتی پتھروں کی تجارت اور فنانشےل سےکٹر کو جانا جاتا ہے کےونکہ اس شعبے سے وابستہ کاروبار مےں منی ٹرانزےکشنز کا کوئی معقول طرےقہ کار نہےں اور اس شعبے سے وابستہ کاروباری شخصےات پر منی لانڈرنگ کے شک و شبہات موجود رہتے ہےں ۔ اےنٹی منی لانڈرنگ اےکٹ کے قانون کے مطابق کاروباری اداروںاو ر شخصےات کو پاپند بناےا جاتا ہے کہ پراپرٹی ےا مصنوعات کا سےلز حقوق کنفرم کرانے کے بعد وےلڈ ملکی ےا غےر ملکی شخصےت کو فروخت کرےں اور تمام رےکارڈ متعلقہ سرکاری محکمہ مےں جمع کرائےں جبکہ اسٹاک اےکسچےنج مےں اس طرح کو کوئی مےکنزم موجو نہےں جس سے رقوم کی لےن دےن کو کنفرم کےا جاسکے ۔ ڈائرےکٹورےٹ انٹےلی جنس و انوےسٹی گےشن کی موصول کردہ مشکوک ٹرانزےکشنز کے رےکارڈ کی تحقےقات کے بعد اسٹاک اےکسچےنج کے ذرےعے منی لانڈرنگ کا بڑا سکےنڈل سامنے آسکتا ہے۔
