لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ این اے 120 میں پرامن الیکشن کے انعقاد کا سہرا پاک فوج اور سول انتظامیہ دونوں کے سر ہے۔ اس میں کلثوم نواز کامیاب ہو گئی ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ انہیں نااہل قرار نہیں دیا گیا تھا۔ اگر دیا جاتا اور وہ کامیاب ہو جاتی تو پھر اس پر تبصرے شروع ہو جاتے۔ اسی حلقے سے میاں نوازشریف صاحب نے 91 ہزار ووٹ لئے تھے۔ اب ووٹوں کی تعداد کم ہو کر 61 ہزار پر آ گئی۔ تقریباً 30 ہزار ووٹ (ن) لیگ کا گم ہوا ہے یہ (ن) لیگ کیلئے لمہ فکریہ ہے، وزیراعظم کی اہلیہ کا الیکشن تھا۔ ان کی بیٹی نے بھرپور مہم چلائی۔ پھر بھی ووٹ بینک میں کمی ہے۔ دونوں جانب خواتین امیدوار تھیں۔ اچھی روایت ہے کہ دونوں جانب سے شائستگی کا خیال رکھا گیا۔ یاسمین راشد کے ووٹ بڑھے ہیں۔ ٹرن آﺅٹ ان کے لئے قابل فکر ہے۔ مریم نواز نے خود الیکشن مہم چلائی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں لاپتہ ہونے والے اپنے کارکنوں کا تذکرہ کیا۔ مسلم لیگ کے سرکل میں 18 افراد کی تعداد بتائی جا رہی ہے میں نے لاہور پولیس سے پوچھا۔ وہ کون لوگ تھے جو غائب ہوئے۔ اس کے علاوہ سی ٹی ڈی، رینجرز، ایم آئی اور آئی ایس آئی سے سورس کے ذریعے پوچھا میری تحقیق کے مطابق 2 افراد ریکارڈ کے مطابق غائب ہیں۔ ایک قسمت خان وہ پٹھان ہے معلوم نہیں وہ کس سلسلے میں غائب ہے۔ دوسرے صاحب امجد بٹ ہیں۔ یہ بلدیاتی ادارے کے چیئرمین ہیں۔ پولیس کہتی ہے یہ بندے ہمارے پاس نہیں۔ مریم بی بی نے کہا ہمارا مقابلہ ان لوگوں سے ہے جو نظر نہیں آتے غائب ہیں۔ احسن اقبال بھی اشارہ کر چکے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے کون سی فورسز کام کر رہی ہیں۔ منہ پر کپڑا ڈال کر اٹھانا پولاس کا پرانا طریقہ ہے۔ بھٹو دور میں پولیس نے گاڑی سے اترتے ہی میرے اوپر دو کمبل ڈالے اور سیدھا شاہی قلعے لے گئے۔ جہاں 14 دن رہا۔ میڈیا دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک وہ جو حکومت کے حق میں تھے اور دوسرا وہ جو ان کے خلاف تھے۔ خلاف چلنے والے کہہ رہے ہیں کہ ان بندوں کو حمزہ شہباز نے اٹھوایا۔ دوسرے کے مطابق وہ جو نظر نہیں آتے۔ ہمارے ایک دوست نے پروگرام میں کہا کہ پاکستان کو ججوں اور جرنیلوں سے بچایا گیا ہے جو ہر وزیراعظم کو کھا جاتے ہیں۔ ڈان لیکس کا مسئلہ ہو۔ احسن اقبال کی تقریر کا معاملہ ہو یا وزیراعظم کے اشارے ہوں۔ خواجہ سعد رفیق کے بیان ہوں یا مریم نواز کے ارشادات ہوں سب کے سب ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ فوج کو الزام دیتے ہیں۔ سچ یہی ہے کہ فوج کے خلاف ڈنڈا کھڑا کیا جا رہا ہے۔ دو بندوں کے غائب ہونے سے ووٹنگ پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ لندن سے اطلاعات آئیں کہ نوازشریف صاحب کی ندیم نصرت سے ملاقات ہوئی۔ جو الطاف حسین کے رائٹ ہینڈ ہیں۔ خود بھی میں ان سے مل چکا ہوں۔ الطاف حسین صاحب کے گھر کے اندر عشرت العباد کی موجودگی میں ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے ساتھ محمد انور تھے۔ وہ کمیونیکیشن کے انچارج تھے۔ نوازشریف صاحب نے 4 سال کے تعطل کے بعد میڈیا سے بات کی اس میں میں اور امتنان شامل تھے اور دیگر 37 لوگ بھی موجود تھے۔ ان لوگوں نے نعرے لگائے کہ ان لوگوں کو ننگا کریں۔ اور سازش بے نقاب کریں۔ نوازشریف صاحب کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ ثبوت لائیں اور انہیں ننگا کریں۔ کہا جا رہا ہے کہ نوازشریف کے پاس فوج کے خلاف ثبوت موجود تھے۔ لیکن انہیں کسی بات نے روکا ہے۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ لندن میں پریس کانفرنس کر کے سب کچھ کھول دیں۔ وہی بات جو جی ٹی روڈ پر بار بار کہی گئی۔ ان کے پاس ثبوت یہ ہیں کہ پاکستانی فوج کے کچھ لوگ ان کے خلاف کس طرح کام کر رہے ہیں۔ ایک ثبوت یہ ہے کہ خفیہ ادارے نے جو براہ راست کام کرتا ہے۔ آئی ایس آئی فوج کے انڈر ہی کام کرنا ہے جبکہ آئی بی سو فیصد سول ادارہ ہے۔ انہیں ثبوت کہاںسے ملا یہ نہیں بتایا گیا۔ لندن ایک محفوظ جگہ ہے پریس کانفرنس کے ذریعے سب کچھ بیان کر دیئے گئے۔ جس کا شور آسمان تک جانا تھا۔ میں نے اسلام آباد کانفرنس میں کہا تھا۔ لوگوں کے اس طرح اکسانے سے ملک کو نقصان ہو گا۔ ملک کی بہتری کی خاطر خدا کے لئے یہ جنگ نہ چھیڑیں۔ فوج نے بتایا کہ این اے 120 میں صرف لاءاینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کے لئے کام کیا ہے کسی کو نہیں اٹھایا۔ اس کے علاوہ ہماری کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ عمران نذیر صاحب شہبازشریف کے معتمد ساتھی ہیں۔ فوجی کبھی بھی عمران نذیر کو روک نہیں سکتا کہ تم ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ کوئی غلط فہمی ہوئی۔ کور کمانڈر کا فرض بنتا ہے کہ اس کی تحقیق کروائیں۔ مسلم لیگ (ن) سیدھا سیدھا فوج پر الزام لگا رہی ہے کہ پہلے وہ عدلیہ کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ اب وہ ہمارے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔ قمر جاوید باجوہ صاحب کو بھی نوٹس لینا چاہئے۔ یا تو تردید کریں یا تصدیق کریں۔ ہمارا موقف ثابت ہو گی کہ بھارت نے وہاں بلوچستان کی آزادی کے لئے قرارداد جمع کروا دی ہے۔ پوری دنیا میں تیاری ہو رہی ہے حربیہار مری جہاں ہے۔ وہ بلوچستان کو علیحدہ کر کے حکومت بنانا چاہتا ہے۔ ہم پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ وہ ایک انچ بھی فوج سے چھین نہیں سکتا۔ اس کی خواہش تھی کہ بھارت اور ایران اس کی مدد کرے اور وہ بلوچستان کو علیحدہ ملک ڈکلیئر کرے۔ ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ 1965ءکی جنگ میں شاہ ایران نے پاکستان کا بہت ساتھ دیا۔ 1965ءمیں ہمارے طیاروں کا نقصان اس لئے کم ہوا کہ بھارت کے حملے کے وقت ہمارے طیارے تیل لینے ایران ہوتے تھے۔ وہ یہاں موجود ہی نہیں ہوتے تھے۔ رن آف کچھ پر جھگڑا تھا۔ اس پر ایران کو ثالث بنایا گیا۔ شاہ ایران کے دور میں ایران نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا۔ ایران ہمارا دوست، مسلمان ملک ہے۔ بدقسمتی سے اب ہر تیسری بات ایران سے منسوب ہوتی ہے۔ ہالینڈ اور سوئیزرلینڈ میں حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی ہورڈنگ لگایا ہی نہیں جا سکتا ان ممالک میں جگہ جگہ ہورڈنگ لگائے گئے ہیں ”فری بلوچستان“ اس سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔ بلوچوں کے ان مظاہروں پر نیویارک اور واشنگٹن میں ڈالرز کی بارش ہو رہی ہے۔ خبر یہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی نیویارک میں تقریر کے دوران ایم کیو ایم اور بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر مظاہرے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اے آر وائی نے خبر دی ہے اس نے تصویریں دکھائی ہیں پاکستان نے آج آفیشلی سوئیزرلینڈ سے شکایت کی ہے کہ آپ کی بسوں پر فری بلوچستان کیوں لکھا ہوا ہے اور ہورڈنگ کیوں لگے ہوئے ہیں۔ ان عناصر کو واشنگٹن اور عسائیوں کی طرف سے ڈالروں کی بھرپور امداد دی جا رہی ہے بلکہ بارش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ یہ مہنگے ترین ممالک ہیں وہاں ایک اوورکوٹ کی پاکستانی قیمت ساڑھے تین لاکھ روپے ہے۔ سوئیزرلینڈ میں موجود ہمارے سفیر نے کچھ نہیں کیا۔ سب سے پہلے تو ان کے پاس معلومات آتی ہیں۔ ان کا فرض بنتا تھا کہ انہیں رکواتے۔ بیورو چیف امریکہ محسن ظہیر نے کہا ہے کہ جو لوگ پاکستان مخالف احتجاج اور ریلیاں نکالنے جا رہے ہیں وہ بہت عرصہ سے یورپ اور ان ممالک میں موجود تھے۔ گزشتہ کچھ سال سے یہ امریکہ میں بھی پہنچ چکے ہیں۔ بالخصوص واشنگٹن میں یہ لوگ بہت متحرک ہیں۔ ان کے فرنٹ مین ایک منظم طریقے سے اس وقت احتجاج اور ریلیاں نکالتے ہیں جب ہمارے وزیرخارجہ یا کوئی اور اہم شخص جب یہاں آتے ہیں۔ ان فرنٹ مینوں کے پیچھے پوری ایک لابی کام کر رہی ہے۔ یہ وہ لابی ہے جو پاکستان غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ آج جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا ہے۔ یہ پاکستان کے لئے بہت بڑا فورم ہے۔ ہمیں دنیا کی توجہ اسی طرح مبذول کروانی چاہئے۔ اور انہیں روکناچ اہئے۔ سوئیزرلینڈ میں حکومت کی مرضی کے بغیر اس قسم کے بینر یا ہورڈنگز نہیں لگائے جا سکتے اسی قسم کا امریکہ میں بھی حال ہے۔ وہاں بھی امریکہ کی مرضی کے خلاف کوئی احتجاج یا ریلی نہیں نکالی جا سکتی۔ نیویارک اور جنیوا میں موجود ہماری سفارتی ٹیم کو اس پر کام کرنا چاہئے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہر سال مختلف ممالک کے لوگ مظاہرے کرتے ہیں نیویارک حکومت کے جاری کردہ پرمٹ کے ساتھ یہ لوگ مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایک مظاہرہ ایم کیو ایم (نیویارک) کی جانب سے کیا جا رہا ہے، دوسرا کشمیر اور بلوچ علیحدگی پسند عناصر کر رہے ہیں۔ ان کے پیچھے انڈین لابی موجود ہے۔ وہی انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔
