قاہرہ ، بیروت ،غزہ ، ریاض،واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) عرب لیگ نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ بیت المقدس کو اسرائیلی دا ر ا لحکو مت تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لے اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ سعودی عرب نے امریکی صدر ٹرمپ کے مقبوضہ القدس کو اسرائیلی دا ر ا لحکو مت تسلیم کرنے کیخلاف عالمی اتفاق رائے کو سراہا ہے، مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق متنازع امریکی اعلان پر فلسطین بھر میں احتجاج کا سلسلہ چوتھے روز بھی جاری رہا ، اسرائیلی فوج کی بمباری اور فائرنگ سے شہید 4 فلسطینیوں کی نماز جنازہ غزہ میں ادا کر د ی گئی ،تازہ جھڑ پو ں میں متعدد فلسطینی شہید جبکہ 50سے زائد فلسطینی مظاہرین زخمی ہو گئے جبکہ لبنان میں بھی واشنگٹن کے فیصلے کیخلاف امریکی سفارتخانے کے نزدیک ہز ا ر و ں افراد نے احتجاج کیا ،لبنانی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس اور تیز دھار پانی کا ا ستعما ل کیا،اس دوران سکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں ہونیوالی جھڑپ میں متعدد افراد زخمی ہو گئے۔تفصیلات کے مطابق امریکہ کے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دا ر ا لحکو مت تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد فلسطین اور اردن کی درخواست پر طلب کیا گیا عرب لیگ وزرائے خا رجہ کا ہنگامی اجلاس گزشتہ روز مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہوا، اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کا فیصلہ عالمی قوانین کی بھیانک خلا ف ورزی ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں جبکہ اس فیصلے سے خطے میں تشدد میں اضافہ ہوگا۔اجلاس سے خطاب میں سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط نے امریکی فیصلے کو یکطرفہ اور باطل قرار دیتے ہوئے کہا ایسی غلطی پر چپ نہیں رہ سکتے، امریکی فیصلے سے عرب دنیا میں امریکی ا عتبار ختم ہوگیا ہے۔فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی کا کہنا تھا امریکی فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے ، امریکی نائب صدر اور فلسطینی صدر محمود عباس کی طے شدہ ملاقات منسوخ کردی گئی ہے جبکہ مصر کے قطبی عیسائی چرچ کے پوپ نے بھی امریکی نائب صدر پینس سے ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے ،جبکہ اردن کے وزیر خار جہ ایمن الصفدی کا کہنا تھا فلسطینیوں کو مطمئن کیے بغیر خطے میں قیام امن ممکن نہیں۔مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری نے کہا موجودہ صور تحا ل سے شدت پسندوں کو فائدہ ہوگا، عالمی برادری دو ریاستی حل یقینی بنائے۔لبنان کے وزیر خا رجہ نے کہا صدر ٹرمپ کے متنازعہ فیصلے پر امریکہ کیخلاف اقتصادی پابندیوں پر غور ہونا چاہیے۔امریکی فیصلے سے خطے میں تشدد میں اضافہ ہو گا۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے امریکہ کے مقبوضہ القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر نے کیخلاف عالمی اتفاق رائے کو سراہا اورامریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس کے بارے میں اپنا فیصلہ واپس لے اور فلسطینیوں کو ان کا جائزہ حق خود ارادیت دلانے کیلئے عالمی سطح پر اقدامات کرے،عادل الجبیر نے کہا سعودی عرب کی جانب سے بیروت میں 2002 میں منعقدہ عرب سربراہ اجلاس میں پیش کردہ عرب امن اقدام تمام بحرانوں کے حل کیلئے ایک نقشہ راہ ( روڈ میپ) فر ا ہم کرتا ہے،عالمی برادری مشرق وسطی کے اس دیرینہ تنازع کے جامع و منصفانہ حل کیلئے کوششوں کو مزیدتیز کرے ،ادھر امریکی فیصلے کیخلاف فلسطین بھر میں شدید احتجاج کیا جارہا ہے اور غم و غصے کی لہر برقرار ہے، اسرائیلی فوج کی فضائی کارروائی اور فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہونیوالے 4 افراد کی نماز جنازہ غزہ میں ادا کردی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی تازہ بمباری کے نتیجے میں 50افراد زخمی ہوئے جن میں 6 بچے بھی شامل ہیں۔مقبوضہ بیت المقدس کے مختلف علاقوں میں لوگ ٹولیوں کی شکل میں احتجاج کر رہے ہیں جن پر قابض اسرائیلی فورسز کی جانب سے طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے۔مقبوضہ بیت المقدس کے مشرقی علاقے صلاح الدین میں احتجاج کے دوران اسرائیلی فورسز نے ‘اسٹن گرینیڈ’ اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے جبکہ قابض فورسز نے فلسطین کی رکن اسمبلی جہاد ابو زونید سمیت 13 مظاہرین کو گرفتار کرلیا،اسرائیلی فورسز نے علاقے کی تمام دکانیں زبردستی بند کرادیں اور فلسطینی پرچم اور پوسٹرز بھی قبضے میں لے لیے۔ انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں بھی امریکی سفارت خانے کے باہر ایک مرتبہ پھر مظاہرہ کیا گیا ،ہز ا ر و ں افراد سفارتخانے کے باہر فلسطینی پرچموں کیساتھ جمع ہوئے اور امریکی فیصلے کی مخالفت میں نعرے بازی کی، مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں بھی شہری امریکی فیصلے کیخلاف سڑکوں پر نکل آئے اور مقبوضہ بیت المقدس کوفلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔دوسری طرف لبنان میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے کے واشنگٹن کے فیصلے کیخلاف امریکی سفارتخانے کے نزدیک ہز ا ر و ں افراد نے احتجاج کیا ،لبنانی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس اور تیز دھار پانی کا ا ستعما ل کیا،اس دوران سکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں ہونیوالی جھڑپ میں متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ دارالحکومت بیروت کے نواحی علاقے آوکار میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطین نواز مظا ہر ین علاقے میں و ا قع امریکی سفا رتخانے کے نزدیک جمع ہوئے ،انہیں سفارتخانے کی طرف جانیوالی شاہراہ پر خاردار تاریں لگا کر کمپلیکس تک پہنچنے سے روک دیا گیا جبکہ سکیو رٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس اور تیز دھار پانی کا استعمال کیا ۔ پتھرا اور آنسو گیس سے متعدد افراد زخمی ہوگئے ، فلسطین اور لبنان کے قومی پرچم اٹھا ئے مظاہرین نے صدرٹرمپ کیخلاف شدید نعرے بازی کی امریکی صدر کا پتلا نذر آتش کیا ۔ مظا ہرین میں فلسطینی جماعتوں کیساتھ ساتھ لبنانی اسلام پسند اور بائیں بازو کے ارکان شامل تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے متوقع دورہ فرانس کیخلاف پیرس میں سیکڑوں افراد نے احتجا جی مظاہرہ کیا، مظاہرین نے دوہری پالیسی اپنانے پر صدر میکرون کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ کویت کے دارالحکومت کویت سٹی میں بھی امریکی فیصلے کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔یروشلم کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازعہ اعلان کے بعد اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو قتل عام بھی جاری ہے ،صیہونی فوج کے ہاتھوں مزید 4فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہو گئے جبکہ فضائی حملوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے ۔عرب میڈیا کے مطابق فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی فضائی بمباری سے 2 بچوں سمیت 4 افراد شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے ہیں جب کہ گزشتہ دو دن کے دوران جام شہادت نوش کرنے والے فلسطینیوں کی تعداد 10سے تجاوز کر گئی ہے۔امریکا کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے اور اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کے اعلان کے بعد مقبوضہ فلسطین میں صورت حال مزید بگڑ گئی ہے، گزشتہ چار روز سے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے خلاف احتجاج کا سلسلہ مزید تیز ہوگیا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں سے راکٹ داغنے کا الزام لگا کر بے گناہ فلسطینیوں پر بمباری کردی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز مغربی کنارے میں بیت اللحم، رملہ اور الخلیل سمیت مختلف شہروں میں ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیا، اسرائیلی پولیس نے نہتے فلسطینیوں پر آنسوں گیس کی شیلنگ،لاٹھی چارج اور ربڑ کی گولیاں برسانے کے علاوہ براہ راست فائرنگ بھی کی، جس کے نتیجے میں 2 فلسطینی شہید جب کہ 300 سے زائد زخمی ہوئے، اس کے علاوہ درجنوں فلسطینیوں کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے الزام عائد کیا کہ نئی مزاحمتی تحریک کے اعلان کے بعد حماس نے غزہ سے تین راکٹ داغے جو اسرائیل کے علاقوں میں گرے، جس کے جواب میں اسرائیلی فوج نے کارروائی کرتے ہوئے غزہ کے مختلف علاقوں میں فضائی حملے کئے، حملوں میں ہتھیار تیار کرنے والے ایک مرکز اور اسلحے کے گودام کو نشانہ بنایا گیا حملوں میں جنگی طیاروں اور ٹینکوں کا بھی استعمال کیا گیا۔ عرب لیگ نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو منسوخ کر دے کیونکہ اس سے خطے میں تشدد میں اضافہ ہو گا۔قاہرہ میں عرب ممالک کے 22 وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بدھ کو کیا گیا اعلان ’عالمی قوانین کی خطرناک خلاف ورزی ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‘عرب لیگ کی جانب سے یہ اعلامیہ مصر کے مقامی وقت صبح تین بجے جاری کیا گیا۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ کا اسرائیل کے پورے یروشلم پر دعوے کو تسلیم کیے جانے سے امریکہ کی اس پالیسی کے منافی ہے جس کے تحت یروشلم کا فیصلہ مذاکرات کے ذریعے ہونے چاہیے۔عرب لیگ کا مزید کہنا ہے کہ ’امریکہ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اس سے کشیدگی میں اضافہ ہو گا، غصہ اور بھڑکے گا اور خطرہ ہے کہ خطے میں مزید تشدد اور افراتفری پھیلے گی۔ 22 عرب ممالک کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ امریکی فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں قرارداد منظور کرائی جائے گی۔ فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے بعد اسرائیل دوسرے ملکوں پر القدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرانے کے لیے دباﺅ ڈال رہا ہے۔ سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقبوضہ القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے خلاف عالمی اتفاق رائے کو سراہا ہے۔ امریکا کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کئے جانے پر دنیا بھر میں احتجاج جاری ہے ،فلسطین میں بچے، بوڑھے اور خواتین ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے،لبنان کے دارالحکومت بیروت میں امریکی سفارت خانے کے قریب سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کئے جانے پر دنیا بھر میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ فلسطین میں بچے، بوڑھے اور خواتین ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ اسرائیلی فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے غزہ سے اپنی حدود میں آنے والی ایک سرنگ کو تباہ کردیا ہے، ان کے مطابق حماس کی جانب سے تعمیر کی جانے والی یہ سرنگ سینکڑوں میٹر لمبی تھی، اسرائیلی فوج کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ اسرائیل نے اس سرنگ کو تباہ کرنے کے لیے نئے آلات کا استعمال کیا، ان کا کہنا تھا کہ فورسز نے کئی ماہ قبل اس سرنگ کا پتہ لگایا تھا اور وہ حماس کی جانب سے اس کی تعمیر کی مانٹیرنگ کررہے تھے اور بالآخر اسے تباہ کرد یا گیا،یہ سرنگ مکمل طور پر تیار نہیں تھی، تاہم انتہائی جدید تھی جہاں بجلی کی سہولت بھی موجود تھی۔ ٹرمپ نے اگرچہ یروشلم (المقدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا رسمی اعلان کر دیا ہے۔ اس فیصلے پر عملدرآمد کرانے کے ذمہ دار امریکی وزارت خارجہ کے محکمے نے اپنے سابقہ موقف میں تبدیلی پیداکرنے سے انکار کر دیا ہے۔ واشنگٹن فری بیکن نے سب سے پہلے یہ معلوماتی اشارہ دیا جس کی کچھ جدوجہد کے بعد اس نمائندے نے وزارت خارجہ کے ذرائع لیے تصدق حاصل کر لی اور ان سے رابطے میں مزید وضاحت حاصل ہوگئی ان ذرائع کا کہنا تھا یقیناصدر ٹرمپ نے پروشلم (بیت المقدس یا المقدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا ہے لیکن یہ ایک عبوری قافلہ ہے اور پروشلم کی متنازعہ حیثیت کا حتمی فیصلہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرئیل حکا م کے درمیان امن مذاکرات میں ہوگا جس میں جوطے ہوگا امریکہ بھی اس پر عمل کرے گا۔امریکی وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق صدرٹرمپ کا اعلان فی الحال رسمی ہے جس کوموثربنانے کیلئے کانگریس میں قانون سازی ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیرونی ممالک کے سفارتی تعلقات کی ذمہ دار امریکی وزارت خارجہ ہے جو فی الحال اپنا سابقہ ریکارڈ تبدیل نہیں کر رہی جس میں پاسپورٹ ،پید ا ئش سرٹیفکیٹ اور نقشے وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام دستاویزات میں یروشلم کو اسرائیل کا حصہ شمار نہیں کیا جائے گا اور اس کی آزادحیثیت برقرار رہے گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے اگر کوئی امریکی بچہ پروشلم میں پیدا ہوتا ہے تو اسرائیل کو اس کی پیدائش کا ملک قرار نہیں دیاجائے گا ۔ ا مر یکی وزارت خارجہ اپنایہ موقف پہلے ہی کانگریس تک پہنچا چکی ہے دیگر قانون دانوں کے علاوہ فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے ایک ریپبلکن کا نگریس مین ران ڈی سینٹس نے بھی تنقید کی ہے۔ سرکاری پارٹی سے تعلق رکھنے والے یہ قانون دان کہتے ہیں یہ اقدام صدر کے اعلان کی حیثیت کم کرنے کے مترادف ہے۔کیونکہ بیوروکریٹس منتخب صدر کی ہدایت پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا کہ ان تک قانون سازوں کے اعتراضات پہنچے ہیں جس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ محکمہ فی الحال ایک سرکاری ریکارڈ میں تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں ہے۔یادرہے اسرائیل نے14 مئی 1948 ءکو اپنی آزاد ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ سابق صدر ٹرومین کے دور میں اسی روز امریکہ نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا ۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی حکومت نے1995 ءمیں ایک بل منظور کروایا تھا جس کے تحت امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کی اصولی منظوری دی گئی لیکن اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو ا اور شاہد آئندہ کئی برس ایسا نہ ہو سکے۔تاہم بل منظور ہونے کے بعد قانونی تقاضا پورا کرنے کیلئے ہر صدر ہر چھ ماہ بعد اسے التوا میں ڈالنے کی دستاویزپر دستخط کرتا رہا ہے ۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد دوسری مرتبہ بدھ کے روز ایسی دستاویز پر دستخط کئے تھے ۔ تاہم اضافی کام یہ کیا کہ اس کیسا تھ ہی وزارت خارجہ کو ہدایت جاری کی کہ اس پر عملدرآمد کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ یہ حکم ملنے کے بعد وزارت خارجہ جگہ کے انتخاب یا عما ر ت کی تعمیر اور سفارتخانے کے انتقال کا کام شروع کر رہاہے جس کے بارے میں وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے واضح کیا ہے کہ اس پر کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اس دوران اتوار کے روز اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے صدرٹرمپ کے اعلان سے مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرات کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی ۔ ان کا موقف یہ تھا کہ پروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت تسلیم کر نے کے باوجود مسلمانوں ،مسیحیوں اور یہودیوں کے اس مشترکہ مذہبی مرکز کی حتمی حیثیت کا فیصلہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذ ا کرات میں ہوگا۔ اس کے بعد امریکہ اس کے مطابق اپنی پالیسی میں کھلے دل سے تبدیلی لے کر آئے گا۔