اسلام آباد (این این آئی) قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان پر سخت مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان امریکی صدر کے الزامات کے باوجود جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔ پاکستان کو افغانستان میں مشترکہ ناکامی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اتحادیوں پر الزام لگا کر افغانستان میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ افغانستان میں سیاسی محاذ آرائی، کرپشن اور منشیات بڑے چیلنجز ہیں، افغانستان میں حکومتی عملداری کے باہر علاقے بین الاقوامی دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے بھرے پڑے ہیں، ان پناہ گاہوں سے ہمسائیہ ممالک سمیت پورے خطے کو خطرات ہیں تاہم پاکستان افغان قیادت میں امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے، پاکستانی قوم اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھنا اور اپنے وطن کی حفاظت کرنا جانتی ہے، باہمی اعتماد کے ساتھ ہی آگے بڑھنے سے افغانستان میں پائیدار ومستحکم امن قائم ہوسکتا ہے، پورے خطے کے امن واستحکام کیلئے کام کرتے رہیں گے۔ منگل کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدرات میں اعلیٰ سیاسی اور عسکری حکام کی موجودگی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا جس میں وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر خارجہ خواجہ آصف، وزیر دفاع خرم دستگیر ، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان اور پاکستان نیوی کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی سمیت مشیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری شریک ہوئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کے بعد امریکہ میں پاکستانی سفیر کو اجلاس میں شرکت کےلئے خصوصی طورپر بلایا گیا۔اجلاس کے بعد جاری کئے گئے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کی جنوبی ایشیاءپالیسی کے اعلان کے بعد امریکی حکام سے ملاقاتیں ہوئیں ان ملاقاتوں میں کہا گیا کہ باہمی اعتماد سازی کے ساتھ آگے بڑھنا ہی بہترین راستہ ہے۔ اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں مشترکہ ناکامی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا اور اتحادیوں پر الزام لگا کر افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے کہا کہ افغانستان میں سیاسی محاذ آرائی، کرپشن اور منشیات بڑے چیلنجز ہیں۔ اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں حکومتی عملداری کے باہر علاقے بین الاقوامی دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کی ان پناہ گاہوں سے افغانستان کو براہ راست خطرات کا سامنا ہے۔ دہشت گردوں کی ان پناہ گاہوں سے ہمسایہ ممالک اور پورے خطے کو خطرات ہیں۔ اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغان قیادت میں امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ افغان قیادت میں امن عمل نا صرف خطے بلکہ امن وسلامتی کیلئے ضروری ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی قوم اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھنا اور اپنے وطن کی حفاظت کرنا جانتی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف غیر متزلزل جنگ لڑی ہے۔ تمام دہشت گرد گروپوں کیخلاف بلاامتیاز کارروائی کی۔ بیان میں واضح کیا گیا کہ قیام امن کیلئے پاکستان کا عزم غیر متزلزل ہے۔ اعلامئے میں کہا گیا کہ عالمی اتحاد افغانستان میں دہشت گردی کیخلاف آج بھی بھرپور مدد کررہے ہیں، امریکی قیادت میں اتحاد کو افغانستان میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے ہر ممکن سہولیات دیں۔ اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ خطے کے امن واستحکام کیلئے کام کرتے رہیں گے۔ پاکستان کے انسداد دہشت گردی آپریشن سے خطے میں القاعدہ کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ دہشت گردی کیخلاف تعاون کا نتیجہ ہے کہ پاکستان آج بھی نتائج بھگت رہا ہے ۔ اعلامئے میں کہا گیا کہ باہمی اعتماد کےساتھ ہی آگے بڑھنے سے افغانستان میں پائیدار و مستحکم امن قائم ہوسکتا ہے۔ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ اپنے وسائل اور معیشت کی قیمت پر لڑی ہے ۔ ہزاروں قربانیوں اور شہداءکے خاندانوں کے درد کا کوئی اندازہ تک نہیں کر سکتا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ قربانیوں اور شہداءکے درد کا مالی قدر سے موازنہ کرنا ممکن نہیں۔ پاکستان نے اس جنگ میں 123 ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ امریکی قیادت کے حالیہ بیانات حقائق کی نفی کرتے ہیں، امریکی قیادت کے بیانات پاکستانی قوم دہائیوں سے دی جانیوالی قربانیوں کی نفی ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ امریکی قیادت کے بیانات دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کیلئے دھچکا ہیں۔ وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان مخالف بیان پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تعاون اور مل کر کام کرنا ہوگا کیونکہ منفی بیان بازی سے اہداف کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ چند ماہ سے صدر ٹرمپ سمیت کئی امریکی عمائدین کی جانب سے سامنے آنے والے منفی بیانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ خرم دستگیر نے بتایا کہ قومی سلامتی کے اس اجلاس میں طے پایا ہے کہ اکھٹے مل کر اور تعاون سے افغانستان میں امن کی جدوجہد کریں گے اور دہشت گردی کے خلاف لڑیں گے تو ہمیں بہتر کامیابی ہوگی، بجائے یہ کہ ہم اپنی منفی بیان بازی سے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ خرم دستگیر نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ تہذیب کے دائرے میں رہ کر مگر بے لاگ گفتگو ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ صرف ڈالرز کی زبان سمجھتے ہیں تو ہم نے بھی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف اپنی سہولیات فراہم کیں بلکہ اس کے عوض ہم نے کوئی معاوضہ بھی نہیں مانگا کیونکہ ہم دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں۔کیا پاکستان صدر ٹرمپ اور دیگر امریکی عمائدین کے حالیہ بیانات پر امریکہ سے معافی کا مطالبہ کرے گا کے سوال پر خرم دستگیر نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے منتخب صدر ہیں اس لیے ہم ان کے ٹویٹس کو سنجیدہ لیتے ہیں لیکن ابھی معاملہ اس تک نہیں پہنچا ہے۔