اسلام ٓاباد (آن لائن ) سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپرملز کیس دوبارہ کھولنے سے متعلق نیب کی اپیل مسترد کیے جانے کے حوالے سے تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے چھتیس صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری تحریر ی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سماعت کے دوران میڈیا کی جانب سے سنجیدہ رپورٹنگ کی گئی ،کچھ میڈیا گروپس نے کیس میں دلچسپی رکھنے والے افراد کی رائے کوبھی شائع کیا،فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ لاہو رہائی کورٹ کے جج نے دوبارہ تحقیقات کی وجوہات اپنے فیصلے میں بیان نہیں کیں ہائی کورٹ کے دوبارہ تحقیقات نہ کرنے کے فیصلے سے مطمئن ہیں ،عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریفرنس کو غیر معینہ مدت تک زیرالتواء رکھ کر قانونی عمل کی نفی کی گئی ،ملزمان کو دفاع کاموقع نہیں دیاگیا ،ریفرنس کامقصد ملزمان کو دباو¿ میں لانے کے سوا کچھ نہیں تھا ،ریفرنس کے وقت نیب پرعزم نظر نہیں آیا ،نیب نے ٹرائل کورٹ میں ملزمان کے خلاف ایک بھی گواہ یا ثبوت پیش نہیں کیا،ٹرائل کورٹ میں نیب نے کیس کی بار ملتوی کرنے کی استدعا کی ، ٹرائل کورٹ میں التواء کی درخواستوں کے ہمراہ نیب نے کوئی مناسب وجوہات بیان نہیں کیں،ٹرائل کورٹ میں ملزمان میں سے کسی نے بھی کیس کو ملتوی کرنے کی استدعانہیں کی۔ چار سال تک چیئرمین نیب نے ریفرنس بحالی کے لئے کوئی درخواست نہیں دی ،ملزمان کے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے پر نیب متحرک ہوگئی۔ چیئرمین نیب نے بحالی کی درخواست دی تو اس کی پیروی نہیں کی گئی ،فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص پر الزام کافیصلہ جلدازجلد ہوناچاہئے تاکہ قصور وار ملزم کو سزا اور بے قصور بری ہوسکے ،غیرمعینہ مدت تک التواء میں رہنے والے کیس تاخیر سے ملنے والے انصاف کے محاورے کو سچاثابت کرتے ہیں ،حدیبیہ کیس کی اپیل نیب نے 1229ایام کے بعد دائر کی اور تاخیر سے درخواست دائر کرنے کی وجوہات نیب بیان نہیں کرسکا ،نیب کی جانب سے نوازشریف ،شہبازشریف کی خودساختی جلاوطنی کاموقف اپنایاگیا لیکن خودساختہ جلاوطنی کا مو¿قف حقائق کے برخلاف ہے ، تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسحاق ڈار کا بیان ملزمان کی موجودگی میںلینا چاہیے تھا ، ملزمان کو بیان پر جرح کا موقع بھی ملنا چاہیے تھا ،قانونی نکا ت سے ہٹ کر لیے جانے والے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ، یا د رہے کہ نیب کی جانب سے شریف خاندان کیخلاف حدیبیہ پیپرملز ریفرنس دوبارہ کھولنے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ تاہم عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے چار سماعتوں کے بعد نیب کی اپیل زائد المعیاد ہونے پر مسترد کر دی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف ، شہباز شریف حمزہ شہباز سمیت دیگر ملزمان کیخلاف ریفرنس مارچ دوہزار چودہ میں خارج کردیا تھا۔ تاہم نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں بارہ سو انتیس دن کے بعد اپیل دائر کی گئی جس کی سماعت سپریم کورٹ کے دو مختلف بنچز نے کی کیس کی ایک مختصر سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی تاہم آصف سعید کھوسہ کی علیحدگی کے باعث بنچ ٹوٹ گیا جس پر چیف جسٹس نے مقدمے کی سماعت کے لیے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بنچ تشکیل دیا ، جس نے پانچ سماعتوں کے بعد نیب کی اپیل مسترد کردی ، نیب کی جانب سے سپیشل پراسیکیوٹر عمران الحق نے عدالت کی معاونت کی سپریم کورٹ نے پندرہ دسمبر کو نیب کی اپیل زائد المعیاد ہونے پر ناقابل سماعت قرار دی تھی ۔