تازہ تر ین

کیمیکل ملے دودھ کی فروخت بارے سنسنی خیز انکشاف

لاہور(ملک مبارک سے) صوبائی دارالحکومت کی 1کروڑ 20لاکھ سے زائد آبادی زہرکےمےکل ملا دودھ پےنے پر مجبور ہے۔ پنجاب فورڈ اتھارٹی کا غےر معےاری کےمےکل ملا زہر دودھ کے خلاف آپرےشن ناکام ہو گےا ۔فورڈ اتھارٹی نے دودھ مافےا کے سامنے گھٹنے ٹےک دےئے۔شہر بھر مےں یوریا کھاد ،پینسلین ،اکسی ٹوسین ،ایلومنیم سلفیٹ ،کاسٹک سوڈا ،ہیئر ریمور پاوڈر ،ہائیڈروجن پر اکسائیڈ ،بورک ایسڈ اور فارملین پاوڈر ملا کیمیکلززدہ دودھ سرعام فروخت ہو رہا ہے ۔ خادم اعلیٰ پنجاب مےاں شہبازشرےف سمےت دےگر اداروں کو سب اچھا کی رپورٹ فراہم کی جارہی ہے ۔ فورڈ اتھارٹی سفارشی اور ناتجربہ کار افسران کی تعیناتیوں کی وجہ سے شہریوں کی زندگیاں داﺅ پر لگ گئیں ۔تفصیلات کے مطابق پنجاب فوڈ اتھارٹی کے قیام کو پانچ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ادار ے کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے،ہر طرف ملاوٹ مافیا کا راج ہے۔شہرمےں کیمیکل سے دودھ کی تیار ی کا کاروبارعروج پر ہے، جس سے شہری مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ دودھ کی فروخت کے نام پرمکروہ دھندہ کرنے والے عناصرنے محض پیسے کمانے کی خاطر اپنے گھروں میں دودھ کی مشینیں لگا رکھی ہیں۔ذرائع کے مطابق دودھ مافےا غیر معیاری کھلاخشک دودھ خرید کر ایک کلو پاڈر میں 16سے18لٹر پانی ملا کر دودھ تیارکرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دودھ کی مقدار کو بڑھانے، گاڑھا کرنے اور خالص شکل میں لانے کے لیے سرف، گھی، میٹھا سوڈا، چینی، سوڈیم کلورائیڈ، یوریا کھاد، بلیچنگ پاﺅڈر، پوٹاشیم ہائیڈرو آکسائیڈ، سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ اور مکئی کا آٹا استعمال کرتے ہیں اور ایک من دودھ میں 220گرام کھویا، سنگھاڑوں کا آٹا، اراروڑملاکر دودھ کی قدرتی مٹھاس اور ذائقہ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح 2من بھینسوں کا دودھ حاصل کر کے غیر معیاری ذرائع سے10سے 12من دودھ میں تبدیل کردیا جاتا ہے اورپھر یہ دودھ معروف ہو ٹلوں ،بڑی بیکریوں اور مٹھائی کی دکانوں کے علاوہ رہائشی علاقوں میں چلر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اس طرح خالص دودھ کی فروخت کے یہ دعویدار دو کلو دودھ کے ساتھ ایک کلو دودھ فری کا پیکیج بھی دیتے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھینسوں کے دودھ میں اضافے کیلئے بھی حاملہ خواتین کی زچگی کے دوران لگایا جانے والا اوکسی ٹوسن انجکشن استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی بھی میڈیکل سٹور سے20روپے میں باآسانی دستیاب 50سی سی انجکشن کی2سی سی مقدار بھینس کو دے کر کسی بھی وقت بھینسوں سے مطلوبہ دودھ حاصل کیا جا سکتا ہے اسی طرح ٹینکروں اور پلاسٹک کے ڈرموں کے ذریعے سپلائی کئے جانے والے دودھ کو زیادہ دیرتک محفوظ بنانے کے لئے اور ٹینکروں میں موجود بدبو کو ختم کرنے کے لئے کافور اور کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ ٹینکروں کے اندر صفائی پر بھی کوئی خاص دھیان نہیں دیا جاتا۔انٹرنیشنل معیار کے مطابق بھینس سے حاصل ہونے والے خالص دودھ میں نو فیصد فیٹ، چھ فیصد نمکیات اور 85 فیصد پانی جبکہ گائے اور بکری کے دودھ میں 3.5 فیصد فیٹ، 11.5 فیصد نمکیات اور 85 فیصد پانی موجود ہوتا ہے۔ ایک گلاس دودھ انسانی جسم کو پروٹین چکنائی،کاربوہائیڈریٹ، کیلشیم، میگنیشم اور قیمتی وٹامن فراہم کرتا ہے مگر افسوس کہ انسان کے لالچ اور ہوس نے اس آفاقی نعمت کو بھی مضر صحت بنا دیا ہے۔ اکسی ٹوسین (oxytocin)اور بوائین (somatotro pinBovine)ماہرین کے مطابق ان ہارمون سے دودھ میں 50%دودھ میں اضافہ تو ہوجاتا ہے لیکن اس کے نتائج بہت خطرناک ہیں طبعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اکسی ٹوسین (oxytocin)ایسا انجکشن ہے جو صرف ڈلیوری کے دوران خواتین کو لگایا جاتا ہے جس سے ڈلیوری فوری ہوجاتی ہے لیکن یہی ٹیکا گوالے بھینسوں کو لگاتے ہیں۔ تاکہ دودھ زیادہ سے زیادہ حاصل ہو اس کے اثرات بچیوں پر زیادہ نمودار ہوتے ہیں اس سے بچیاں سن بلوغت سے پہلے ہی بالغ ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے آئے روز عصمت دری کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ کافور صرف مُردوں (ڈیڈباڈی) کو لگایا جاتا ہے تاکہ بدبو نہ پھیلے اور باڈی خراب نہ ہو۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain