تازہ تر ین

امن امان کیلئے 356ارب ضائع

لاہور (نیا اخبار رپورٹ)کچھ عرصہ قبل گنگارام ہسپتال سے ایک نو عمر بچی اغواءہوئی۔ ظالم بچی کو گنگارام ہسپتال کے ایمرجنسی کے سامنے والے گیٹ سے لے کر باہر نکلا۔ پھر اس بچی کی خون میں لت پت لاش ملی۔ پولیس ملزمان تک پہنچنے کے دعوے کرتی رہی روز ایک نیا بیان سامنے آتا۔ قانون کے لمبے ہاتھ مجرم کی گردن تک پہنچنے کے دعوے کیے جاتے مگر مجرم کی گردن تھی کہ پولیس کی گرفت سے بہت دور رہی۔ فوٹیج کی موجودگی کے باوجود پولیس مجرم کو پکڑنے میں نا کام رہی۔ ایسے دل دھلانے والے واقعات آئے روز پیش آتے رہتے ہیں۔ اس سے بھی سنگین واقعہ قصور میں پیش آیا تھا۔ جہاں ظالموں نے بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز بنائیں اور انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر دیں ایسے واقعات پنجاب کے مختلف ڈویژنز میں پیش آئے۔ ملتان اور گوجرانوالہ بھی ان شامل ہیں۔ قانون کے لمبے ہاتھ ان عناصر کے سر کوبی کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے۔ پولیس اگر ماضی کے کسی واقعہ میں دلجمعی کے ساتھ کام کرتی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا دیتی تو شاید قصور کا حالیہ سانحہ پیش نہ آتا۔ جس میں 8۔7 روز سے گمشدہ بچی کے مقدمے پر پولیس کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔ میڈیا کے ذریعے عوام کو اس معاملے کی سنگینی کا علم ہوا کہ ایک نہیں بلکہ متعدد بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنا کر موت کی نیند سلا دیا گیا تھا۔ مجرم کی تصویر بالکل واضح ہے۔ لیکن پولیس کی تفتیش اتنی ہی غیر واضح ہے۔ وہی پہلے جیسا ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے۔ فوٹیج مل گئی۔ مجرم کا سکیچ بن گیا، تفتیش کے لیے ماہرین پر مشتمل ٹیم تشکیل دے دی گئی۔ متعدد پہلوﺅں پر غور ہو رہا ہے، وغیرہ وغیرہ اور یہ غور معلوم نہیں کب تک جاری رہے گا کسی کا انداز ہے کہ 2 لاکھ کے لگ بھگ پنجاب پولیس کا فنڈز بڑھتے بڑھتے 1 سو ارب روپے تک پہنچنے والا ہے۔ اس وقت 90 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ اگلے مالی سال میں غالباً سنچری مکمل کر لے گا۔ جبکہ پولیس کی نفری تو پہلے ہی لاکھوں میں ہے۔ مگر مقدمات کی تفتیش پہلے جیسی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ رواں سال کے پہلے 10 مہینوں میں پنجاب بھر میں پونے چار لاکھ کرائم رپورٹ ہوئے۔ پچھلے سال بھی یہی صورتحال تھی۔ ان میں سے 73 ہزار سے زائد کیسز جائیدادوں پر قبضے کے تھے پنجاب بھر میں 73 ہزار لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ مافیانے اپنے گھر، دفتر یا فارم ہاﺅسز بنا رکھے ہیں۔ کچھ جائیدادوں پر چند روپے کلو میں بکنے والی سبزیاں اگائی جا رہی ہیں۔ زمین کا یہ بے رحمانہ استعمال پنجاب پولیس کی آنکھوں کے نیچے ہو رہا ہے۔ صرف 20 مہینوں میں جائیدادوں پر قبضے کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ مقامی اور خصوصی قوانین کے تحت نومبر 2016ءتک 1 لاکھ 37 ہزار اور اس سال نومبر تک 1 لاکھ 36 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ دیگر کیسز کی تعدادان دونوں عرصوں میں 2 لاکھ 35 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ تاہم ان میں سے 2016ءمیں 3 لاکھ اور 2017ءمیں نومبر تک 2 لاکھ 99 ہزار کے قریب کیسز میں چالان پیش کیا گیا۔ باقی مقدمات گئے کھو کھاتے میں۔کراچی سے خیبر تک سنگین وارداتوں کے مجرم کسی طریقے سے پولیس کی گرفت میں نہیں آ رہے۔ کراچی میں خواتین پر چھریاں چلانے والا مجرم ہوں یا پنجاب میں انسانی سمگلرز، پولیس مجرموں تک پہنچنے میں ہمیشہ ناکام رہی۔ بڑے بڑے چغاوری قسم کے پولیس افسران کو تفتیش سونپنے کی خبریں منظر عام پر آئیں۔ ہر روز ایسا لگتا ہے کہ بس آج پولیس کا ہاتھ مجرم کی گردن پر ہو گا مگر مجرم کی گردن تھی کہ پولیس کے لمبے ہاتھوں کی طرح دراز ہو گئی اور وہ مجرم پولیس کے قابو نہ آ سکا۔ ایسے واقعات عام ہیں۔ بچیوں کے اغواءکا سنتے ہی پولیس اہلکار والدین کو ڈھونڈنے کا مشورہ دے دیتے ہیں۔ تھانے داروں میں بچیوں کے اغواءکے بارے میں عام نقطہ نظر یہی ہے کہ وہ والدین کی ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے گھر سے بھاگ گئے ہوں گے۔ قصور میں ہی ایک بچی گمشدگی کی رپورٹ لے کر چند ہفتے قبل ایک مصیبت کا مارا تھانے میں پہنچا تھانیداروں نے حسب روایت اسے ”گولی دے کر “ ٹرخا دیا۔پنجاب پولیس کی رپورٹوں میں عوام کے لیے خوشخبریاں ہی خوشخبریاں ہیں۔ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔ لیکن جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ سال 2016ءمیں پنجاب میں 12 ہزار 526 بچے بچیاں اور خواتین اغواءہوئیں جبکہ 2017ءمیں محض نومبر تک مغویوں کی تعداد 12736 ہو گئی۔ اندازہ کیجئے ساڑھے بارہ ہزار سے زائد گھروں سے جگر کا ٹکڑا کسی درندے کے ہتھے چڑھ گیا ان دوسالوں میں تقریباً 26 ہزار افراد اغواءہوئے۔ 25 ہزار بچے بچیاں اور افراد اغواءہوئے۔ پولیس نے 2016ءمیں 4132 اور 2017ءمیں 4071 چالان کاٹے۔ ان میں سے 2016ءکے 1986ءاور 2017ءکے 1887ءاغواءکے کیسز ابھی تک زیر تفتیش ہیں۔ پولیس ان تقریباً پونے چار ہزار مغویوں کا سراغ پانے میں ناکام رہی۔ جبکہ 2016ءمیں پولیس نے 168 اور 2017ءمیں 129 مقدمات کے ملزم کا کچھ بھی اتاپتہ معلوم کرنے میں ناکام رہی جبکہ 2016 ءمیں 6240 اور 2017ءمیں 6649 اغواءکے کیسز منسوخ کر دیئے گئے۔ اس طرح 25 ہزار میں سے نصف مقدمات پر پولیس کو کوئی زحمت ہی نہ کرنا پڑی۔ باقی ماندہ کیسز پر ٹامک ٹوئیاں ماری جا رہی ہیں۔ اس سے بھی روح فرسا واقعات گینگ ریپ کے 206، اور 2017ءمیں 173 مقدمات درج کیے گئے۔ ان میں سے 2016ءمیں 133 اور 2017ءمیں 107 میں چالان پیش کیا گیا جبکہ ان دونوں برسوں کے 10.10 مہینوں 40۔40 چالان منسوخ کر دیئے گئے۔ مزید مقدمات زیر تفتیش ہیں۔ 2016ءکے 32 اور 2017ءکے ان مہینوں کے 26 کیسز زیر تفتیش ہیں۔ پنجاب گینگ ریپ کی صورتحال پولیس کے قابو سے باہر ہے۔ ان دو سالوں میں 379 گینگ ریپ کے واقعات میں بہت سے واقعات شامل نہیں۔ کچھ معاملات میں آخر میں صلح صفائی کے ذریعے سے معاملے کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔خواتین کی بے حرمتی کے واقعات اتنے سنگین ہیں کہ بہت سے خاندان چپ سادھ لیتے ہیں اسی میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ ورنہ خاندان کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جاتی ہے مگر پولیس ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ میرے خیال میں پنجاب ہی نہیں ملک بھر کی پولیس کو اب احتساب کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ اور ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ امن و امان پر خرچ کرنے والے اربوں روپے کا مصرف کیا ہے۔ کیونکہ جہاں سال بھر میں پنجاب پولیس پر 90 ارب روپے خرچ ہو جاتے ہیں وہاں سال بھر میں ملک بھر کی پولیس پر امن و امان کی خرابی کی صورتحال کے بعد اخراجات میں کہیں زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ملک کے عوام کوئی رئیس زادے نہیں، نہ ہی پاکستان میں 20 کروڑ 70 لاکھ تیل کے کنوئیں ہیں جو وہ پولیس یا سرکاری اداروں پر خرچ کر سکیں۔ ایک محدود سا سرمایہ ہے اسی میں گزر بسر کرنی ہے۔ ملک بھر میں انصاف کی فراہمی اور لاءاینڈ آرڈر کے اخراجات ملا کر رواں مالی سال کے پہلے 3 مہینوں میں 91 ارب روپے خرچ ہوئے۔ کوئی ہے جو ان اخراجات کا حساب دے سکے۔ مالی سال 18۔2017ءکی پہلی سہ مای میں امن و امان پر ملک بھر میں 82 ارب روپے خرچ ہوئے جس میں سے تقریباً 80 ارب روپے رواں اخراجات کی مد میں خرچ ہوئے یعنی تنخوا ہیں، پٹرول، فضائی سفر بجلی کے بل وغیرہ وغیرہ۔ ان 82 ارب روپے میں سے وفاق پاکستان نے صرف 3 مہینوں میں امن و امان پر 26.4 ارب روپے خرچ کیے جبکہ پنجاب نے 24.3 سندھ نے 17، خیبرپختونخوا نے 8.6 اور بلوچستان نے 5.6 ارب روپے خرچ کیے۔ پچھلے مالی سال میں پولیس پرامن و امان کے لیے مجموعی طور پر 356ارب روپے خرچ کیے گئے تھے۔ وفاق نے 132، پنجاب نے 90، سندھ نے 65، خیبرپختونخوا نے 46 اور بلوچستان نے 23ارب روپے خرچ کیے تھے۔ ترقیاتی منصوبوں کا حجم محض 12ارب روپے تھا باقی سب کے سب تنخواہوں سمیت دیگر رواں اخراجات کی مد میں خرچ ہوئے۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اگر بچیوں نے ظالموں کے ہاتھوں اغواءہی ہونا ہے اگر پنجاب میں بھر میں 10مہینوں میں 73ہزار لوگوں کے گھروں پر قبضے ہونا ہیں ، چور اور ڈاکو پولیس کی دسترس سے باہر جب چاہیں جو چاہیں کرتے رہیں تو پھر معاف کیجئے گا یہ اربوں روپے کس کام کے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain