لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ قصور سانحہ کی جو ویڈیو منظر عام پر آئی ہے۔ اس میں ملزم کی تصویر مدہم نظر آ رہی ہے لیکن ایک بات واضع ہے کہ (7) سال کی بچی نے جس طرح اس شخص کی انگلی پکڑ رکھی ہے۔ وہ اس کے لئے کوئی اجنبی شخص نہیں ہے۔ خوفناک بات یہ ہے کہ گزشتہ 5 واقعات اسی علاقے یعنی 2کلومیٹر کے اندر اندر رونما ہوئے ہیں۔ اس میں کرائے جانے والے ڈی این اے بھی میچ کر گئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ جنسی جنونی اصل میں درندے بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر نوشین نے ایک مضمون لکھا ہے جس میں ایک خوفناک حقیقت کو اجاگر کیا گیا ہے امریکہ سے شروع ہونے والے اس واقعہ کے بارے انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ ایک امریکی جنسی جنونی شخص پہلے اغوا کرنا تھا پھر مار دیا گیا تھا۔ مجرم جب پکڑا گیا تو اس نے اعتراف جرم کر لیا کسی گواہی کی ضرورت نہیں پڑی۔ تفتیش میں وہ اتنا خوفزدہ ہوا کہ اس نے خود آخری خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بھی اسی طرح لٹکا کر مارا جائے جس طرح میں بچوں کو مارا کرتا تھا۔ امریکہ میں سزائے کوت کرسی پر بٹھا کر کرنٹ لگا کر دی جاتی ہے اسی طرح ایران میں بھی سزا سخت ہوتی ہے۔ صرف ”پاکستان زندہ باد“ ایک ایسا ملک ہے جہاں صرف ایک مرتبہ صیاءالحق کے زمانے میں کیمپ جیل کے پاس فیروز پور روڈ پر ایسے ہی 3 درندوں کو سرعام پھانسی لگایا گیا تھا۔ میں شہباز شریف صاحب سے گزارش کرتا ہوں کہ ان کی مشینری بالکل صفر ہو چکی ہے۔ قصور میں جرم کی جو ایف آئی آر درج ہوئیں ہیں اس میں لکھا ہے ”نامعلوم افراد“ حالانکہ آدھا شہر چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے۔ ڈی پی او کے ملازمین اور گارڈوں نے 2 افراد کو گولیاں مار کر شہید کیا ہے۔ پولیس اندھی، گونگی اور بہری ہے جو اپنے ساتھیوں کو بچانا چاہتی ہے۔ اس لئے نامعلوم افراد لکھ دیا ہے۔ ڈیڑھ سو بندوں کے نام ہمارے نمائندے نے بتائے ہیں جو ڈی سی او کے گن مینوں کو پہچانتے ہیں اور انہوں نے گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر بھی ایف آئی آر نا معلوم افراد کے خلاف لکھی گئی۔ رانا ثناءاللہ اگرچہ بہت قابل ہیں لیکن اس وزارت کے اہل نہیں ہیں انہیں وزیرتعلیم کیوں نہیں بنا دیتے۔ میرے نزدیک وہ نااہل وزیر قانون ہے۔ پنجاب میں شاید ہی کوئی دن ان بیہمانہ واقعات کے بغیر گزرتا ہو۔ میاں شہباز شریف بیٹھ کر یہ ویڈیو دیکھیں اور خدا کا خوف کریں۔ مقتولہ بچی کے والد نے ڈی آئی جی کی تعیناتی اور جے آئی ٹی پر اعتراض کر دیا ہے ہمارے نمائندہ قصور سے اصل خبر بتائیں گے کہ وہاں کیا صورتحال ہے۔ جے آئی ٹی کی تشکیل میں بچی کے والدین کا مطمئن ہونا سب سے ضروری ہے۔ وزیراعلیٰ صاحب کو لازمی طور پر اس شخص کو جے آئی ٹی کا سربراہ نہیں بنانا چاہئے جس پر بچی کے والدین کا اعتماد نہیں۔ یہ بچی چار دنوں تک غائب رہی۔ کہاں کا وزیر قانون؟ کہاں کی پولیس؟ خانزادہ صاحب اس شخص سے کہیں گنا قابل شخص تھے کیونکہ وہ فوج میں رہ چکے تھے۔ میاں شہباز شریف صاحب کو نہ جانے رانا ثناءاللہ کے اندر کیا نظر آیا ہے کہ مولوی شور مچاتے رہے۔ امن امان کے مسائل منہ چڑھاتے رہے۔ لیکن وزیراعلیٰ صاحب نے انہیں رخصت نہیں کیا۔ وزیراعلیٰ صاحب انہیں ڈپٹی وزیراعلیٰ بنا لیں لیکن یہ حیرت انگیز بات ہے کہ جس شخص پر ایف آئی آر درج ہوئیں، ان کے خلاف اتنی شکایات آئیں لیکن وہ پھر بھی وزیر قانون ہی رہے۔ وزیراعلیٰ صاحب کو جے آئی ٹی کے سربراہ کو فوراً بدل دینا چاہئے۔ اس معاملے کو سیاست سے علیحدہ رکھنا چاہئے۔ طاہر القادری صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اگلے دن خادم رضوی صاحب نے پڑھائی۔ لگ رہا ہے کہ معاملہ سیاست کی نظر ہو رہا ہے خدا کے لئے یہ سماجی مسئلہ ہے ہمارے سیاستدان اسے سیاسی مسئلہ نہ بنائیں۔ میں نے کل بھی کہا تھا کہ آرمی چیف صاحب وزیراعلیٰ پنجاب سے رابطہ کر کے ایک شفاف ٹیم مقرر کر دیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب قصور کی حد تک فوج کو کال کر سکتے ہیں اور تحقیقات کروا سکتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا دہشتگردی ہو سکتی ہے کہ 12 بچیوں کے ساتھ بدفعلی کے واقعات 2 کلو میٹر کے علاقے میں ہوئے۔ اور ڈی این اے بھی شاید ایک ہی شخص کے تھے۔ ماضی میں بھی جب قادیانیوں کا مسئلہ اٹھا تھا تو فوج کو بلا لیا گیا تھا اور حالات نارمل ہونے تک فوج شہر میں ہی رہی تھی۔ میں نے کل بھی کہا قصور کی انتظامیہ مکمل فیل ہو چکی ہے کل بھی کہا کہ ڈی سی او کے گن مینوں نے گولیاں چلائیں اور 2 افراد کو مارا۔ فوٹیج میں بھی پولیس والا کہہ رہا ہے کہ ”اوپر مارو، اوپر مارو“ اس کی آواز اور شکلیں واضع نظر آ رہی ہیں۔ یہ تحقیقات پولیس کی بجائے فوج سے کروانے سے کیوں گھبراتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ نوازشریف کی مجیب الرحمن اور ایوب خان سے ون آن ون ملاقات ہوئی یا نہیں۔ نوازشریف سب سے بڑی جماعت کے سربراہ ہیں۔ وہ تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن میں نے مجیب الرحمن کے آخری انٹرویو کئے تھے اور ایوب خان کا انٹرویو بھی کیا تھا۔ میری کتاب ”باتیں سیاستدانوں کی“ میں پہلا چپٹر ہی ایوب خان کے آخری ایام کے انٹرویو پر مشتمل ہے۔ میرے ساتھ کنور دلشاد صاحب تھے۔ انہوں نے میری بات کی تصدیق بارہا کی ہے دوسرا باب مجیب الرحمن کے تین گھنٹے پر مشتمل انٹرویو پر ہے۔ اس لئے نوازشریف صاحب آپ ذرا پیچھے ہیں۔ میں مجیب الرحمن کو خوب جانتا ہوں وہ کتنے ”محب وطن“ تھے۔ مسلم لیگ جو خود کو قائداعظم کا وارث کہتی ہے۔ اس کے سربراہ مجیب الرحمن نے بچوں کیلئے دعا کر رہے ہیں۔ مجیب الرحمن کی ایک سپوتری حسینہ واجد نے کتنے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو جعلی مقدمات پر پھانسیاں دی ہیں۔ یہ کہہ کر یہ پاکستان کے حامی ہیں۔ مجید نظامی (مرحوم) کہتے تھے کہ میں مسلم لیگ (ن) کو قائداعظم کی لیگ نہیں سمجھتا آج ثابت ہو گیا۔ کیونکہ نوازشریف کے اس بیان پر قائداعظم کی روح کانپ گئی ہو گی۔ نوازشریف صاحب آپ اندراگاندھی کے لئے اور ان کی اولاد کے لئے بھی دعا کر دیں کیونکہ اندراگاندھی کی فوج پاکستان کے علاقوں میں ڈھاکہ کے اندر داخل ہوئی تھی اس کی وجہ سے مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا۔ جسٹس (ر) ایس اے رحمان صاحب جب وہاں سے واپس آئے ان کی عدالت پر وہاں حملہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا شیخ مجیب الرحمن انڈین ایجنٹ تھا۔ اس کے سازش کی ایوب خان نے مجھ سے کہا کہ میں اس وقت مایوس ہو گیا جب نواب نصراللہ جیسے لیڈر نے کہہ دیا کہ مجیب الرحمن کو پیرول پر رہا کریں۔ میں نے لکھا ہے کہ ایوب خان نے اس وقت کہہ دیا تھا کہ میں پاکستان کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط نہیں کر سکتا۔ جو شخص انڈیا کا ایجنٹ ہے پاکستان کا غدار ہے اسے رہائی نہیں دے سکتا۔ ایوب خان نے یہ کہہ کر خود حکومت چھوڑ دی۔ نوازشریف صاحب آپ تاریخ کو جھٹلا نہیں سکتے۔ مجیب الرحمن کو آپ محب وطن کہہ رہے ہیں جبکہ حقائق اس کے برخلاف ہیں وہ پاکستان کا غدار تھا۔ اس کی بیٹی 20بیس سال سے گرفتار قیدیوں کو پاکستان کا وفادار کہہ کر پھانسی دے رہی ہے۔ نمائندہ خبریں قصور، جاوید ملک نے کہا ہے کہ قصور میں آج صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی ہے۔ حکومت پنجاب کی تمام تر کوششیں رائیگاں گئی ہیں حالانکہ وزیراعلیٰ صبح سویرے بچی کے گھر بھی گئے تھے۔ مشتعل مظاہرین ایم پی اے اور ایم این اے کے گھر کی طرف گئے اور وہاں شدید توڑپھوڑ کی۔ بچی کے والد نے جس جے آئی ٹی کو مسترد کیا ہے کہا جا رہا ہے کہ اس کے سربراہ وہی ہیں جو مجرمان کے وکیل تھے۔ پاکستان عوامی تحریک کے خرم نواز گنڈا پور نے کہا ہے کہ سانحہ قصور کو ہم سیاسی رنگ نہیں دینا چاہتے۔ بچی کے والد تحریک منہاج القرآن کے عہدیدار ہیں۔ انہوں نے ساری زندگی تحریک کے ساتھ گزاری ہے۔ بچی کے والد کی خواہش پر طاہرالقادری صاحب نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ قصور کے شہید ہونے والے افراد ہماری جماعت کے نہیں تھے۔ لیکن وہ قوم کے نمائندہ تھے۔ زینب قوم کا ایک نمائندہ بن گئی۔ وہ ایک علامت بن گئی۔ گولیوں سے مرنے والے اور زخمیوں کی تو کوئی بات نہیں کر رہا ہے۔ ہم ہسپتال گئے۔ میاں شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ ماڈل ٹاﺅن کے قاتل ہیں۔ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں انہوں نے کہا ہے کہ سب سے نیچے سے اووپر تک خاموشی سادھی ہوئی تھی۔ قصور واقعہ کے ذمہ داران کی ویڈیو منظر عام پر آ چکی ہے جو موقع پر گولیاں چلا رہے ہیں لیکن پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر کاٹی ہے۔ حکومتکے کچھ تبادلے کئے ہیں لیکن اس کا کیا فائدہ ہے قصور میں منشیات کے کاروبار کے پیچھے پولیس ہے۔ جو ماہانہ اوپر پہنچاتی ہے۔ رانا ثناءاللہ کو اس لئے نہیں ہٹایا جا رہا کہ اس کے سینے میں شریف خاندان کے راز دفن ہیں۔ اگر اسے ہٹایا گیا تو وہ وعدہ معاف گواہ بن جائے گا۔ ماڈل ٹاﺅن واقعہ کے وقت قصور سے پولیس بلائی گئی تھی۔ رانا ثناءاللہ ان کے تمام کرائم کو مینج کرتا ہے۔ بچی کے والدین نے جے آئی ٹی پر اعتراض کیا ہے کیونکہ اگر یہ پولیس کے افسران سے کروائی گئی تو وہ اپنے ساتھیوں کے خلاف کچھ نہیں کرے گی۔ اس لئے بچی کے والد نے چیف آف آرمی سٹاف سے درخواست کی کہ وہ خود اس کی تحقیقات کروائیں۔ حکمرانوں کے دل میں چور نہیں ہے تو کسی اور صوبے سے پولیس افسر کو بلا لیں۔ قادیانی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تحقیقات نیوٹرل کروانے کے لئے کسی اور صوبے کا ڈی آئی جی رینک کا افسر لگا دیا جائے۔ سپریم کورٹ نے نوازشریف کیلئے دو لفظ استعمال کئے ”سسلین مافیا اور گاڈ فادر“ اس مافیا کا کام ہی یہی تھا کہ وہ تمام کام پولیس کے ذریعے کرواتے تھے۔ کریمنل پولیس افسران کو ادھر ادھر تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ لیکن نکالتے نہیں۔ بھتہ خوری اور رشوت عام ہے۔ میں اور احمدرضا قصوری صاحب ایک جنازے میں گئے۔ وہاں ہم دونوں کی جیبیں کٹ گئیں۔ پولیس نے کہا آپ فکر نہ کریں آپ کو سب کچھ مل جائے گا صرف پیسے نہیں ملیں گے۔ کچھ دنوں بعد ہمارے بٹوے اور تمام دیگر چیزیں قصور کے ڈاکخانے میں جمع کروا دیئے گئے۔ اور پیسے نکال دیئے گئے۔ پولیس کو پہلے سے معلوم تھا۔ رانا ثناءاللہ انہیں کنٹرول کرتے ہیں۔ اگر تحقیقات شفاف کروا لی جاتی ہیں تو بہت سے پردہ نشینوں کے نام سامنے آ جائیں گے اور آخر میں رانا ثناءکے گھر تک جائے گی۔