لاہور(ویب ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے مقدمات کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ہمیں پان کی دکان چلانے والے وکیل پیدا نہیں کرنے۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں نجی میڈیکل کالجز میں اضافی فیسوں اور غیر معیاری لا کالجز سے متعلق مقدمات کی الگ الگ سماعتیں ہوئیں۔ غیر معیاری لا کالجز سے متعلق مقدمے میں ملک بھر کی یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے پنجاب یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی نہ ہونے پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب کو طلب کرلیا۔ عدالت نے یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کو لا کالجز کے معائنے اورکالجز کی صورتحال سے متعلق بیان حلفی جمع کروانے کا بھی حکم دیا۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیوں نہ وکالت کے لیے انٹری ٹیسٹ ختم کردیں، اگر نقل کرکے ہی وکیل بنناہے تو ایسے سسٹم کو ہی ختم کردیں۔ ایسے وکیل پیدا نہیں کرنے جو صبح پان کی دکان چلاتے ہوں اور بعد میں ڈگری حاصل کر لیں۔ شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں مگر ادارے قائم رہنے چاہئیں ، افسوس ہم اپنے ادارے مضبوط نہیں کر رہے، ایسے این ٹی ایس کا کیا فائدہ جہاں نقل کر کے امتحان دیا جاتا ہو۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے تمام سرکاری یونیورسٹیز کو نئے لاءکالجز سے الحاق کرنے اور ملک بھر کی ماتحت عدالتوں اور ہائی کورٹس کو لاکالجز کے کیسز پر حکم امتناعی جاری کرنے سے روک دیا۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس نے یونیورسٹیز سےالحاق کیے گئے لا کالجز سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے سینیر قانون دان حامد خان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی۔دوسری جانب نجی میڈیکل کالج میں اضافی فیسوں کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ڈاکٹر عاصم کی عدم پیشی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کو بلایا تھا لیکن سننے میں آیا ہے کہ وہ باہر جارہے ہیں، ڈاکٹر عاصم کے وکیل کو فوری بلائیں ورنہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل)میں ڈال دیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہر یونیورسٹی نے اپنا نظام تعلیم بنا لیا ہے، جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کر رہا ہے، سمجھ نہیں آتا کہ اتنی زیادہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں کیسے بن گئیں۔چیف جسٹس نےعدالت میں میڈیکل کالجز کے پرنسپلز کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پیش نہ ہونے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، میڈیکل کالجز کے افسران کو بتایا جائے کہ وہ ملک میں واپس آ جائیں۔