لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خاں نے کہا ہے کہ پیر حمیدالدین سیالوی صاحب نے وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے چھ مطالبات رکھے ہیں۔ ہم نے وزیراعلیٰ سے یہی بات کی تھی کہ آپ پیر حمیدالدین سیالوی صاحب اور ان کے بھتیجے جو کہ ہمارے ایم پی اے بھی ہیں ان سے بات کی جائے۔ ان کے چھ مطالبات پر کمیٹی بنائی گئی۔ جس میں پہلا نقطہ یہ رکھا گیا کہ نفاذ شریعت کے بارے ضرور کوئی ایکشن ہو گا لیکن اس میں احتجاج شامل نہیں ہو گا۔ انہیں سمجھایا گیا کہ ہر وقت احتجاج کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے۔ اس پر وہ مان گئے اور بات چیت ہوئی۔ رانا ثناءاللہ والے معاملے پر انہیں سمجھایا گیا کہ وہ خود بھی دیندار گھرانے سے ہیں۔ ان سے ختم نبوت والے معاملے کو جوڑنا درست نہیں۔ کمیٹی جو بنائی گئی ہے اس میں دیگر مشائخ عظام بھی شامل ہیں جو کہ تمام معاملات کو غور سے دیکھے گی۔ اور مطالبات کے لئے درمیانی راہ نکالی جائے گی۔ سرگودھا والے واقعہ پر کوتاہی ہے اگر مجرمان ابھی تک پکڑے نہیں گئے، یہ معاملہ جب پنجاب حکومت کے نوٹس میں آیا۔ جب صیا صاحب کی رپورٹ ہمارے سامنے آئی تو ہم نے اس کے فیکٹس اینڈ فیگر اکٹھے کرنے کی کوشش کی۔ ناروے کی ایجنسی سے شکایت کی گئی کہ ایک شخص پاکستان میں موجود تیمور نامی کمپیوٹر انجینئر نے کچھ ایسی فلمیں باہر بھیجیں۔ جس پر یہ معاملہ کھڑا ہوا اس پر ایف آئی اے کام کر رہی ہے۔ مدثر نامی شخص کا پولیس مقابلہ کی خبر 5 سال پرانی تھی۔ اس پر نامزد افراد کو پکڑا بھی گیا اور تفتیش بھی کی گئی اس وقت بھی ان کے خلاف کیس چل رہا ہے۔ ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ ایک غیر قانونی اور غیر فطری عمل ہے یہ نظام کے لئے زہر قاتل ہے۔ اس سے پولیس علامت بن جاتی ہے جو قانون شکنی کی مرتکب ہوتی ہے۔ بعض اوقات پولیس کی طرف سے رپورٹنگ ہوتی ہے کہ مجرم نے حملہ کیا۔ اس کی اوپن جوڈیشل انکوائری ہونی چاہئے ملزم عمران علی کے پیچھے کسی سیاستدان کی سفارش نہیں ہے نہ ہی کوئی پارلیمنٹیرین اس قاتل کے پیچھے ہے۔ جے آئی ٹی نے بڑی محنت سے رپورٹ مرتب کی۔ اس میں حساس اداروں کے لوگ بھی شامل تھے۔ ملزم کو جزا یا سزا دینا عدالت کا کام ہے۔ پولیس کو غیر سیاسی کرنا ہو گا۔ جہاں تک ہو سکے گا میں اپنا کردار ادا کروں گا۔ علی رضوان کیس میں حقائق سامنے آنے کے بعد تفصیل بتاﺅں گا۔ ان خیالات کا اظہار ترجمان حکومت پنجاب ملک احمد خان نے سماءٹی وی کے پروگرام میں میزبان مبشر لقمان سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔چیف ایگزیکٹو خبریں ضیا شاہد نے نجی ٹی وی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیر حمید الدین سیالوی صاحب کو میں ڈراما نہیں کہتا۔ لیکن کچھ زمینی حقائق ہوتے ہیں۔ اس کے مطابق تو یہ ڈراما ہی لگتا ہے۔ جب یہ معاملہ شروع ہوا میں نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ ٹھپ ہو جائے گا۔ کیونکہ مشائخ حضرات متولی حضرات، جن کے ذرائع صرف منت مراد کے پیسے خدمت اور ہدیے میں دی گئی زمین پر ہی تکیہ ہوتا ہے۔ ہمارے اخبار میں خبر چھپی تھی کہ حکومت پنجاب نے سختی سے کہا ہے کہ مزارات کو تحویل میں لے لیا جائے گا۔ یعنی ایک قسم کی چھڑی چلائی گئی لہٰذا مشائخ لرز گئے اور انہوں نے کال واپس لے لی۔ حاجی سیف اللہ، جو کہ ایک بہت بڑا نام ہے وہ مخدوم احمد انور عالم سے شکست کھا گئے۔ میں نے اس دن محسوس کیا کہ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں ہے۔ جس میں حاجی سیف اللہ جیسے مقتدر یوں باہر جاتے ہیں۔ ہمارے رپورٹر کے مطابق پنجاب حکومت اور سیالوی صاحب کے درمیان ڈیل ہوئی ہے جس کے تحت دو اہم سیٹیں یعنی وزارت مذہبی امور حج و اوقاف، دوسرا اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ۔ خبر کے مطابق بات چیت کروانے والی ٹیم نے دونوں اطراف کو اس پر اراضی کیا گیا۔ ہمارے ملک میں ایم پی اے، ایم این اے کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اگر حکومت مہربان ہوتی ہے تو انہیں بے تحاشا فنڈز ملتے ہیں اور ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے ملتے ہیں ورجہ یہ سب فنڈز رک جاتے ہیں اگر حکومت اس کی مخالفت میں ہو۔ پچھلے دنوں گریڈ (4) کی بھرتی کا کوٹہ ایم پی اے اور ایم این اے کو دیا گیا۔ جعلی انٹرویو کروائے جائیں گے۔ صرف بہاول پور میں 560 نشستیں ہیں جس پر ہزاروں درخواستیں آئی ہیں جبکہ وہ سیٹیں ایم این اے اور ایم پی ایز میں تقسیم ہو چکی ہیں۔ ڈی سی اوز نے لسٹیں انہیں بھیج دی ہیں۔ اب سیالوی صاحب والے معاملے میں انہیں قیمت مل گئی ہے اب ان کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر شاہد صاحب میرے پرانے واقف ہیں میں ان کے پروگرام میں لندن میں جایا کرتا تھا۔ میں نے سپریم کورٹ میں کہا کہ ڈاکٹر شاہد کی اکاﺅنٹس والی بات جھوٹی ہے لیکن فلمیں بنتی ہیں۔ ویب سائٹس موجود ہیں، یقینا ان کے پیچھےے گروہ بھی ”انوالو‘’ ہے۔ سپریم کورٹ میں میں نے ایک خوفناک واقعہ دہلی کی ایک بچی رادھا کا بتایا۔ وہ واقعہ ہو یا یہ ہو زینب اور دیگر بچیوں جیسا ہی ہوا۔ تین سال بعد ہیکرز نے بتایا کہ جب یہ واقعہ ہو رہا تھا اس وقت ڈارک ویب پر اس کی مووی چل رہی تھی سرگودھا میں ایک ملزم نے 600 ویڈیوز بنائیں جو کروڑوں میں اس نے بیچیں اس کے تمام ثبوت بھی موجود ہیں۔ اس کا ایک بھی ملزم گرفت میں نہیں آ سکا۔ ڈان نیوز کی خبر غلط ہوئی تو اس نے معافی مانگ لی۔ بول ٹی وی نے 120 اکاﺅنٹ کی خبر چلائی۔ دو دن قبل کوٹ رادھا کشن میں ایک بچی پر مجرمانہ حملہ کرنے کے الزام میں ایک شخص کو پکڑا گیا جب پولیس اسے لے کر جا رہی تھی وہاں مقامی ایم این اے نے کہا اسے میرے ڈیرے پر لے جاﺅ۔ اس کے نتیجے میں عوام مشتعل ہوئے اور اس پر حملہ کر دیا۔ برائے مہربانی پولیس کو سیاست میں نہ کھینچیں یہ تمام واقعات قصور ہی میں کیوں ہو رہے ہیں۔ کسی اور شہر سے ایسی خبریں کیوں نہیں آتیں۔تجزیہ کار مبشر لقمان نے کہا ہے کہ پیر حمید الدیان سیالوی اصل میں وہ ڈرامہ تھا جو حکومت پنجاب نے رچایا۔ خود انہیں کھڑا کیا پھر ان کے پیچھے بندے لگا دیئے آخر میں میاں شہباز شریف نے جا کر ان کے گھٹنے پکڑے اور معاملہ ختم ہو گیا۔ 7 دنوں میں شریعت بھی نافذ ہو گئی اور ختم نبوت والا معاملہ بھی ختم ہو گیا۔ ضیا شاہد ہمارے ملک کا ایک قابل احترام نام ہے۔ میرا ان کے ساتھ ایک خصوصی تعلق عدنان شاہد مرحوم کی وجہ سے بھی ہے۔ اس حیثیت سے ہم انہیں چچا کہتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد کے معاملے پر اب سب کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ یہ تکلیف اس وقت کیوں نہیں ہوئی جب ابصار عالم جیسے کو پیمرا کا ہیڈ بنایا گیا۔ پنجاب پولیس پیسے لے کر ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کرتی ہے ہم نے ویڈیوز دکھائیں۔ قصور والے مدثر کا معاملہ دیکھ لیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ صحافیوں میں سفید ہاتھی موجود ہوتے ہیں جو زمینوں پر قبضے کئے بیٹھے ہیں۔
