اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) دبئی میں جائیدادیں خریدنے والے پاکستانیوں کی تعداد سات ہزار ہے جبکہ دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کی قیمت 1100 ارب روپے ہے۔ ابھی بھی پاکستان سے رقوم ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے دبئی اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھیجی جا رہی ہیں۔ نجی ٹی وی ذرائع کے مطابق پاکستانی سیاستدانوں، پارلیمنٹرین، اداکار، وکلائ، ڈاکٹرز، میڈیا مالکان، ریٹائرڈ جنرل اور ججز بھی شامل ہیں۔ ان میں بیورو کریٹ، کاروباری اور بینکار بھی شامل ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 1990ءکے بعد کسی ایک پاکستانی نے بھی بیرون ملک سرمایہ کاری سے آگاہ نہیں کیا۔ پاکستانی قوانین کے مطابق ان جائیدادوں کی تفاصیل اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو بتانا ضروری ہے۔ 95 فیصد پاکستانیوں کے ٹیکس ریٹرنز میں بیرون ملک جائیدادوں کو ظاہر نہیں کیا۔ ایف بی آر کے مطابق صرف 5 فیصد پاکستانیوں نے بتایا ہے کہ بیرون ملک ان کی جائیداد موجود ہے۔ 118 ملکوں کے 34 ہزار سے زائد غیر ملکیوں کے دبئی میں قوانین نہ ہونے کی وجہ سے جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ ان میں 7 ہزار پاکستانی ہیں اس طرح پاکستانی تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔ جس کے مطابق پاکستان نے امریکہ برطانیہ اور دیگر امیر ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 2002ءسے اب تک 5 ہزار جائیدادیں پاکستانیوں نے اپنے نام سے خریدی ہیں۔ جبکہ 2000 سے زائد افراد نے اپنے نام کی بجائے اپنے فرنٹ مین کے نام سے جائادادیں خریدی ہیں۔ تقریباً 780 پاکستانی دہری شہریت کے حامل ہیں یا پھر مستقل پاکستان سے باہر رہتے ہیں۔ 6 ہزار سے زائد پاکستانی مستقل طور پر پاکستان میں بھی مقیم ہیں۔ 967 جائیدادیں گرینر کے علاقے میں خریدی گئیں۔165 جائیدادیں ڈسکوری گارڈنز میں 75 فلیٹس ایمریٹس ہلز، 167 فلیٹس جمیرا آئی لینڈ میں 123 گھر جمیرا پارک، 245 فلیٹس جمیرا ویلیج 10 جائیدادیں پام ڈیرا 160 پام جبل علی 25 پام جمیرا اشورلائن 234 جائیدادیں انٹرنیشنل سٹی، 230 جائیدادیں سلی کون ویلی میں خریدی گئیں۔ اس کے علاوہ دبئی ٹاﺅن اور برج خلیفہ میں بھی فلیٹس خریدے گئے ان جائیدادوں کی قیمت اندازاً 10 لاکھ درہم سے ڈیڑھ کروڑ درہم تک ہیں۔ 700 جائیدادوں کی قیمت ڈیڑھ کروڑ درہم یعنی 45 کروڑ پاکستانی روپے سے زائد ہے۔ 2800 کی قیمت 30 کروڑ فی جائیداد سے زائد ہے۔ ایف بی آر کے مطابق پاکستان کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ کوئی دو طرفہ معاہدہ نہیں ہے۔ اس لئے خفیہ معلومات نہیں لی جا سکتی۔ ایک پاکستانی جس کا چھوٹا سا بیوٹی پارلر اسلام آباد میں ہے اس نے برج خلیفہ میں 2 فلیٹس خرید رکھے ہیں۔ ایک شخص کی دبئی ٹاﺅن میں اکیس جائیدادیں موجود ہیں ریکارڈ کے مطابق اس کا مالک پاکستان کا ایک چھوٹا سا ہاری ہے اس شخص نے دبئی کے بینک سے قرصہ بھی لے رکھا ہے۔مشیر وزیراعظم خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ گرینڈ ایمنسٹی سکیم ملکی اور غیرملکی غیر واضح اثاثوں کو واضح کرنے کے لیے بنائی جا رہی ہے۔ اس کے بارے وزیراعظم پاکستان نے مختلف سیاستدانوں سے بھی گفتگو کی ہے۔ یہ سکیم ماضی کی سکیموں سے ذرا مختلف ہوگی۔ 1990ءسے اب تک مسلسل ایک ایمنسٹی سکیم چل رہی ہے جس کے مطابق جو شخص بھی ڈالر لے کر آتا ہے اس سے پوچھا نہیں جا سکتا۔ اس طرح لوگ 3 فیصد حوالہ ادا کر کے ڈالرز یہاں لے کر آتے ہیں۔ اس طرح لوگ اسے ”سفید“ کر لیتے ہیں۔ ہم اس دروازے کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ ایک چانس دے رہے ہیں کہ لوگ خود اس سکیم میں آ جائیں۔ اگر اس دور میں جامع تبدیلی نہ لا سکے تو اگلے دور میں جامع پالیسی دیں گے۔ ماہر ٹیکس امور‘ شبر زیدی نے کہا ہے کہ دنیا کے حالات بدل چکے ہیں اب غیرملکی جائیدادوں کے بارے میں تمام ممالک ہی کام کر رہے ہیں۔ ہم نے ماضی سے بہتر ایمنسٹی سکیم دینے کا پروگرام بنایا ہے۔ برطانیہ نے حال ہی میں نیا قانون بنایا ہے۔ اگر کوئی غیرملکی وہاں جائیداد بناتا ہے اور اس کا ریکارڈ نہیں آتا تو اس کے خلاف انکوائری ہوگی۔ ہر پاکستانی کو چاہئے کہ اپنی پراپرٹی ڈکلیئر کر دیں ورنہ نئے قوانین کے مطابق وہ اپنی جائیداد کھو سکتے ہیں۔