تازہ تر ین

سینٹ الیکشن ، سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے متعلق بڑی خبر

لاہور (نیااخبار رپورٹ) پاکستان مسلم لیگ ن‘ پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر بڑی سیاسی جماعتوں نے 3مارچ کو ہونے والے سینٹ انتخابات کیلئے امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دے دی ہے جس کا اعلان 8فروری تک کر دیا جائے گا۔ سینٹ انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی زیادہ سے زیادہ امیدواروں کی کامیابی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ چیئرمین سینٹ کیلئے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی اصل مقابلہ ہے۔ دونوں جماعتوں کا اصل ہدف بلوچستان اسمبلی کے اراکین ہیں جن کے ووٹ بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کے بعد بڑی اہمیت اختیار کر گئے ہیں تاہم مسلم لیگ ن کو پنجاب‘ پیپلزپارٹی کو سندھ اور پاکستان تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں برتری حاصل ہو گی۔ بلوچستان اور فاٹا کے اراکین کے ووٹ سینٹ انتخابات میں مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کو برتری دلوانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں سیاسی جماعتیں سینٹ میں اپنی بالادستی قائم کرنے کیلئے فاٹا اور بلوچستان اسمبلی کے اراکین کے ووٹ کے حصول کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہیں۔ پنجاب میں سینٹ کی 12خالی نشستوں پر ہونے والے انتخاب میں مسلم لیگ ن کو 11نشستیں ملنے کا امکان ہے جبکہ ایک نشست اپوزیشن کو ملے گی۔ پنجاب سے مسلم لیگ ن کے اسحاق ڈار‘ آصف کرمانی‘ کامران مائیکل‘ سعود مجید‘ سید مشاہد حسین کو سینٹ کے ٹکٹ ملنے کا قوی امکان ہے تاہم حتمی فیصلہ مسلم لیگ ن کا مرکزی پارلیمانی بورڈ کرے گا۔ سنیٹر محمد اسحاق ڈار 2003ءسے سینٹ کے رکن اور وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز ہیں۔ اس سے قبل وہ دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ وہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نوازشریف کے سمدھی بھی ہیں۔ سنیٹر کامران مائیکل اقلیی نشست پر پہلے ایم پی اے بن کر صوبائی وزیر اور پھر سینٹ کا رکن منتخب ہو کر وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز ہیں۔ سنیٹر مشاہد حسین سید مسلم لیگ ق کے سیکرٹری جنرل اور سینٹ کے رکن تھے‘ ان کا پہلے بھی نوازشریف کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا لیکن شریف خاندان کی جلاوطنی کے دوران ان کا شمار صدر پرویزمشرف کے قریبی رفقاءکار میں تھا۔ وہ مشرف دورمیں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات رہے۔ اب انہوں نے مسلم لیگ ق کو چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں ایک بار پھر شمولیت اختیار کرلی ہے۔ پاک چین دوستی کے حوالے سے مشاہد حسین سید کا کلیدی کردار ہے۔ سنیٹر آصف سعید کرمانی صدر ایوب خان کابینہ کے وزیر سید احمد سعید کرمانی کے صاحبزادے ہیں۔ وہ میاں نوازشریف کے قابل اعتماد ساتھی ہیں۔ وہ پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر ظہیرالدین بابر اعوان کی خالی کردہ نشست پر چند ماہ قبل ہی سینٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ سنیٹر سعود مجید کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ ان کے والد عبدالمجید چودھری پنجاب اسمبلی کے رکن بھی رہے اور میئر بہاولپور بھی رہے ہیں۔ وہ گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ کی خالی نشست پر سینٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ خواتین میں بیگم عشرت اشرف اور بیگم تہمینہ دولتانہ کے نام بھی مضبوط امیدواروں میں شامل ہیں۔ بیگم عشرت اشرف مسلم لیگ ن شعبہ خواتین کی صدر رہی ہیں۔ ان کا پرانے سیاسی گھرانے سے تعلق ہے۔ ان کے سسر چودھری اقبال چیلیانوالہ متعدد بار قومی اسمبلی کے رکن جبکہ ان کے شوہر جعفراقبال قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہے۔ ان کا شمار میاں نوازشریف کے انتہائی بااعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ ان کی صاحبزادی زیب جعفر قومی اسمبلی اور صاحبزادہ عمر جعفر پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں جبکہ بیگم تہمینہ دولتانہ قومی اسمبلی کی رکن ہیں‘ ان کا تعلق وہاڑی کے بڑے سیاسی دولتانہ خاندان سے ہے۔ وہ سابق وزیراعلیٰ میاں ممتاز خان دولتانہ کی بھتیجی اور میاں ریاض دولتانہ ایم این اے مرحوم کی صاحبزادی ہیں۔ وہ متعدد بار قومی اسمبلی کی رکن رہی ہیں۔ سنیٹر ظفراللہ ڈھانڈلہ کا تعلق بھکر سے ہے۔ وہ پہلے قومی اسمبلی کے رکن رہے اور 2012ءمیں پہلی بار سنیٹر بنے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چودھری محمد سرور پنجاب کے گورنر رہے۔ وہ برطانیہ کی شہریت چھوڑ کر پاکستان آئے ہیں۔ وہ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن رہے ہیں۔ مسلم لیگ ق کے سینٹ کے امیدوار سنیٹر کامل علی آغا مسلم لیگ ن کے پہلے دور میں لاہور کے ڈپٹی میئر رہے اور مسلم لیگ ق کے سیکرٹری اطلاعات اور 2012ءمیں سینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ صوبہ کے پی کے سے مسلم لیگ ن کے سینٹ کے ٹکٹ کے امیدوار پیر صابر شاہ کا تعلق کے پی کے سریکوٹ کے مذہبی گھرانے سے ہے۔ وہ کے پی کے مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر اور وزیراعلیٰ سرحد رہے ہیں۔ کے پی کے سے پیپلزپارٹی کی ٹکٹ کی امیدوار سنیٹر روبینہ خالد کا سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو سے قریبی تعلق تھا۔ اس وقت بھی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر سنیٹر ہیں۔ پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب سے 3 امیدواروں کو سینیٹ کے ٹکٹ دینے کا سگنل دیاہے، ان میں سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، نواب شہزاد علی خاں اور نوازش پیرزادہ کے نام شامل ہیں۔ حنا ربانی کھر کا تعلق مظفرگڑھ کے پرانے سیاسی کھر خاندان سے ہے، ان کے والد نور ربانی کھر اس وقت پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی ہیں، ان کے والد نور ربانی کھر اس وقت پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی ہیں، وہ خود بھی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیرخارجہ امور رہی ہیں، وہ سابق گورنر غلام مصطفی کھر کی بھتیجی ہیں لیکن ان کی ہمیشہ غلام مصطفی کھر سے سیاسی راہیں جدا رہی ہیں۔ نواب شہزاد علی کا تعلق بھی مظفرگڑھ سے ہے وہ بزرگ پارلیمنٹیرین نوابزدہ نصر اللہ خان کے قریبی رشتہ دار اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو کے داماد ہیں، وہ صنعتکار اور لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر بھی رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے سندھ سے جن امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا امکان ظاہر کیا ہے ان میں مولابخش چانڈیو پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی رہ چکے ہیں وہ پیپلزپارٹی کے ترجمان بھی ہیں۔ میاں رضا ربانی پیپلزپارٹی کے مضبوط امیدوار ہیں ان کا شمار پیپلزپارٹی کے دبنگ اور بے باک پارلیمنٹیرین میں ہوتاہے۔ وہ اس وقت چیئرمین سینیٹ ہیں۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما این ڈی خاں کے صاحبزادے ہیں۔ مرتضیٰ وہاب ماہر قانون ہیں وہ اس سے پہلے سینیٹر سعید غنی کی خالی کردہ نشست پر پیپلزپارٹی کے سینیٹر منتخب ہوئے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے تھر سے تعلق رکھنے والی خاتون کرشنا کماری کو سینیٹ کے لئے ٹکٹ دیاگیا ہے۔ ایم کیو ایم کی نسرین جلیل کا تعلق پارٹی کے بانی اور سرکردہ اراکین میں ہوتا ہے، وہ قومی اسمبلی کی رکن اور میٹرو پولٹین کارپوریشن کراچی کی نائب صدر ناظمہ رہ چکی ہیں۔ فروغ نسیم ماہر قانون دان ہیں وہ پہلے بھی ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے جن امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے ان میں محمد اعظم سواتی بین الاقوامی بزنس مین ہیں۔ پہلے جے یو آئی کے رکن اسمبلی رہے اور بعدازاں پی ٹی آئی میں شامل ہوکر سینیٹ کے رکن بنے ،ان کا تعلق کے پی کے کے متمول گھرانے سے ہے۔ فیصل جاوید خان کا شمار عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہے وہ پی ٹی آئی کے ہر جلسہ میں ایک مخصوص انداز میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دینے سے پہچانے جاتے ہیں ، وہ ایڈورٹائزنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ ایوب خاں آفریدی کا تعلق کے پی کے کے متمول گھرانے سے ہے۔ جمعیت العلماءاسلام نے جن امیدواروں کو سینیٹ کے انتخابی میدان میں اتارا ہے ان میں مولانا گل نصیب کا تعلق بنوں کے دینی گھرانے سے ہے وہ پہلے بھی رکن اسمبلی رہے ہیں جبکہ طلحہ محمود پہلے بھی جے یو آئی کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن چلے آرہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے خیال زمان اورزئی ہنگو سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ہیں وہ ارب پتی سیاستدان ہیں۔ ڈاکٹر مہر تاج وزیراعلیٰ کے پی کے کے مشیر، اس وقت ڈپٹی سپیکر کے پی کے اسمبلی ہیں، فدا محمد خاں مسلم لیگ (ن) کے سابق وفاقی وزیر سینیٹر نثاراحمد خاں مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔ دوسری جانب سندھ کی 12 نشستوں کے لیے مزید 11 امیدواروں نے کاغذات حاصل کرلئے ہیں۔ صوبائی الیکشن کمشنر محمد یوسف خٹک نے بتایا کہ مختلف سیاسی جماعتوں و دیگر نے اب تک 109 کاغذات نامزدگی حاصل کئے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی 11نشستوں کے لئے اب تک مجموعی طور پر 92امیدواروں نے کاغذات وصول کیے ۔ جن میں 58جنرل، 20 ٹیکنو کریٹ اور خواتین نشست کے لئے 14 امیدوار شامل ہیں، بلوچستان سے سینیٹ انتخابات کے لئے مزید 31امیدواروں نے 53 کاغذات نامزدگی حاصل کرلیے جن میں مسلم لیگ (ن) کے محمد یونس بلوچ، روبینہ شاہین، عمران علی ایڈووکیٹ، سیدال خان ناصر، مریم لیاقت، کوثر ناہید، صغریٰ بیگم، عاصمہ شہزاد، پیپلزپارٹی کے حاجی محمد علی مدد جتک، سردار عمر گورگیج، بلال احمد مندوخیل، سید اقبال شاہ، اشفاق احمد خان، سکینہ عبداللہ، روزی خان کاکڑ، بی این پی کے غلام فرید، زیب النسائ، نیشنل پارٹی کے کہدہ اکرم دستی، غلام رسول، نظام الدین، نادر علی چھلگری جبکہ آزاد امیدواروں میں عبد الرﺅف، ثناءجمالی، سردار میر باز محمد کھتیران، صادق سنجرانی، عبدالقادر، دنیش کمار، باز محمد، اسلم بلیدی، ڈاکٹر شہ مرید، عبدالرحمن زہری شامل ہیں اب تک مجموعی طور پر 65 امیدواروں کو 111 کاغذات نامزدگی جاری کئے گئے ہیں،تاہم کسی امیدوار نے اب تک کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain