پنگوہ (نیا اخبار رپورٹ) میا نمار کی فوج نے مسلم اکثریتی ریاست راکھین (اراکان) میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد مسلح گروپ تشیل دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق بری فوج نے راکھین میں بودھ انتہا پسندوں کے 596 دھڑے تشکیل دئے ہیں جنہیں اسلحہ اور عسکری تربیت برمی فوج نے فراہم کی ہے۔ بری فوج کی جانب سے مسلح لشکر ترتیب دینے کا اعلان میا نمار کے نائب وزیر داخلہ میجر جنرل اونگ سو نے کیا ہے۔ جنرل اونگ سوکے مطابق راکھین میں اتنے سارے دھڑوں کو مسلح کرنے اور انہیں عسکری تربیت دینے کا مقصد ریاست میں بغاوتی سر گرمیوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ ان کے دعوے کے مطابق راکھین میں بنگالی باشندے سیکورٹی فورسز پر حملے کرنے اور امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی سازش کرتے رہے ہیں جس سے نمٹنے کے لئے فوج کو مقامی لشکر تیار کرنا پڑا۔ نائب وزیر داخلہ کے مطابق فوج کے بنائے ہوئے عوامی لشکر کے 30 دھڑے منگدو شہر میں ہیں۔ برمی جریدے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ برمی فوج کے تشکیل دئے گئے دھڑوں میں شامل بودھ نوجوانوں کو آتشین اسلحہ چلانے اور دیگر عسکری تربیت دینے کے لئے فوج نے مراکز کھول رکھے ہیں۔ جریدے نے کہا ہے کہ فوجی جنرل نے یہ ظاہر کرنے سے گریز کیا کہ فوج ان دھڑوں کو اپنا اسلحہ فراہم کرے گی یا انہیں مقامی ساختہ اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق میا نمار فوج نے بودھ انتہا پسندوں کی عسکری تربیت کے منصوبے پر جون 2016ءمیں عمل درآمد شروع کر دیا تھا۔ اس تربیت کی منظر عام پر آنے والی تصاویر میں برفی فوج کے اہلکار بودھ عناصر کو تیز دھاری دار چھریوں سے گلے کاٹنے کی تربیت دے رہے ہیں۔ یہ انتہائی خوفناک اور وحشیانہ مناظر تھے۔ اس کے بعد اگست 2017ءمیں راکھین میں مسلم کش فسادات ہوئے جس کے دوران سفاک درندوں نے روہنگیا مسلمانوں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا۔ یہ سفا کی اسی فوجی تربیت کا نتیجہ تھی جو بری فوج ان قاتل درندوں کو فراہم کی تھی۔ میا نمار میں انسانی حقوق کے لئے سر گرم تنظیم ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر ظفر سامی نے بتایا کہ راکھین میں بری فوج کی جانب سے تشکیل دئے گئے ملیشیا گروپ ایک ہی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہیں۔ ان ملیشیا گروپوں سے پوچھ گچھ اور انہیں قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے پر پابند کرنے کے لئے کوئی نگران ادارہ بھی قائم نہیں ہے جس کے باعث انہیں اپنے مخالفین کے خلاف ہر قسم کا حربہ استعمال کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے ساتھ ملکی قانون میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بھی منافی عمل ہے۔ منگدو شہر کے پولیس چیف تھورا سان نے بتایا کہ فوج کی جانب سے تشکیل دئے گئے ملیشیا گروپوں کا مقصد بنگلہ دیش کے ساتھ ملحقہ سرحد کی نگرانی کرنی ہے۔ خیال رہے کہ اگست 2017ءمیں ہونے والے فسادات کے باعث فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا متاثرین کی تعداد ساڑھے 6 لاکھ سے متجاوز ہو گئی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں عالمی برادری کے دباﺅ کے بعد میانمار حکومت نے بنگلہ دیش کے ساتھ روہنگیا مہاجرین کی واپسی کا معاہدہ کیا ہے تاہم اس معاہدے پر عمل درآمد کا ابھی تک کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا ہے۔ روہنگیا کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں نے اس معاہدے کے بارے میں بتایا کہ میا نمار حکومت نے روہنگیا متاثرین کی واپسی کے لئے شرط عائد کی ہے کہ وہ خود کو میا نمار کے شہری ثابت کریں۔ بصورت دیگر واپسی کی صورت میں انہیں صرف پناہ گزین کیمپوں میں رہنے دیا جائے گا۔ انہیں بستیوں اور شہروں میں رہنے کی اجازت نہیں ہو گی اور وہ آزادی کے ساتھ گھوم پھر نہیں سکیں گے۔
