All posts by Daily Khabrain

ّّّّّّّخان صاحب کیا آپ کا ہاتھ پکڑ کر تصویر بنوا سکتی ہوں ؟عمران خان سے ملائیشین خاتون اول کی فرمائش

ملائشیا (ویب ڈیسک )ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کی بیوی بھی وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی مداح نکلیں ۔اُنہوں نے خصوصی طور پر فرمائیش کی کہ ”خان صاحب کیا میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر تصویر اُتروا سکتی ہوں ۔جس پر کپتان نے اُن کی یہ خواہش فوراً پوری کر دی ۔سوشل میڈیاپر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کھلاڑیوں نے عمران خان کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

انگریزوں کو میرا جسم مت دینا ، بی بی سی کے نڈر رانی لکشمی بائی بارے چونکا دینے والے انکشافات

واشنگٹن (ویب ڈیسک ) انگریزوں کی طرف سے کیپٹن روڈرک برگز پہلے ایسے شخص تھے جنھوں نے جھانسی کی رانی لکشمی بائی کو اپنی آنکھوں سے جنگ کے میدان میں لڑتے ہوئے دیکھا تھا۔انھوں نے گھوڑے کی لگام اپنے دانتوں سے دبا رکھی تھی اور دونوں ہاتھوں سے تلوار چلا رہی تھیں اور ایک ساتھ دونوں طرف وار کر رہی تھیں۔ان سے پہلے ایک دوسرے انگریز جان لینگ کو رانی لکشمی بائی کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا تھا، لیکن میدان جنگ میں نہیں۔ انھوں نے انھیں ان کی حویلی میں دیکھا تھا۔جب دامودر کے گود لیے جانے کو انگریزوں نے غیر قانونی قرار دیا تو رانی لکشمی بائی کو جھانسی کا اپنا محل چھوڑنا پڑا تھا۔انھوں نے تین منزلہ معمولی عمارت ‘رانی محل’ میں پناہ لی تھی۔رانی نے وکیل جان لینگ کی خدمات حاصل کی جنھوں نے حکومت برطانیہ کے خلاف حال میں ایک مقدمہ جیتا تھا۔لینگ آسٹریلیا میں پیدا ہوئےجبکہ وہ میرٹھ سے ایک اخبار ‘موفوسلائٹ’ نکالا کرتے تھے۔لینگ اچھی خاصی فارسی اور ہندوستانی بول لیتے تھے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی انتظامیہ انھیں پسند نہیں کرتی تھی کیونکہ وہ ہمیشہ ان گھیرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔جب لینگ پہلی بار جھانسی آئے تو رانی نے انھیں لانے کے لیے گھوڑے کے رتھ کے ساتھ اپنے دیوان اور اپنے ملازم خاص کو آگرہ بھیجا۔ملازم کے ہاتھ میں برف سے بھری بالٹی تھی جس میں پانی، بیئر اور منتخب شراب کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں۔ راستے بھر ایک ملازم لینگ کو پنکھا جھلتا رہا۔جھانسی پہنچنے پر لینگ کو پچاس گھڑسوار ایک پالکی میں بیٹھا کر ‘رانی محل’ لائے جس کے باغ میں رانی نے ایک سائبان لگوا رکھا تھا۔رانی لکشمی بائی شامیانے کے ایک کونے میں پردے کے پیچھے بیٹھی تھیں۔ اسی لمحے رانی کے گود لیے ہوئے بیٹے دامودر نے پردہ ہٹایا اور لینگ کی نظر رانی پر پڑی۔کتاب میں جان لانگ کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ‘رانی درمیانہ قد کی مضبوط خاتون تھیں۔ جوانی میں وہ بہت خوبصورت رہی ہوں گی لیکن اس وقت بھی ان کے چہرے کی رونق کم نہیں تھی۔ مجھے ایک چیز پسند نہیں آئی۔ ان کا چہرہ بہت زیادہ گول تھا۔ البتہ ان کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں اور ناک بھی بہت نازک تھی۔ ان کا رنگ بہت گورا نہیں تھا۔’انھوں سونے کی کان کی بالیوں کے علاوہ کوئی زیور نہیں پہنا تھا۔ وہ سفید ململ کی ساڑھی میں ملبوس تھیں جس میں ان کے جسم کے خدو خال واضح نظر آتے تھے۔ ان کی شخصیت کو جو چیز خراب کر رہی تھی وہ ان کی آواز تھی۔’بہرحال کیپٹن روڈرک برگز نے فیصلہ کیا کہ وہ آگے بڑھ کر خود ہی رانی پر وار کرنے کی کوشش کریں گے۔لیکن جب وہ ایسا کرنا چاہتے تو رانی کے گھڑسوار انھیں گھیر کر ان پر حملہ کر دیتے۔ ان کی کوشش یہی تھی کہ وہ ان کی توجہ دوسری جانب کر دیں۔کچھ لوگوں کو زخمی اور قتل کرنے کے بعد روڈرک نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور رانی کی طرف بڑھنے لگے۔اسی وقت روڈرک کے پیچھے سے اچانک جنرل روز کی انتہائی ماہر اونٹ یونٹ اس جانب آ نکلی۔ یہ ان کی ریزور یونٹ تھی۔نا صاحبوہ اس کا استعمال جوابی حملے کے لیے کرنے والے تھے۔ اس فوجی یونٹ کے اچانک جنگ میں اتر آنے سے برطانوی کیمپ میں جان آ گئی۔ رانی اسے فورا بھانپ گئ?ں۔ان کے فوجی میدان جنگ سے بھاگے نہیں لیکن ان کی تعداد کم ہونے لگی۔اس جنگ میں حصہ لینے والے جان ہنری سلویسٹر نے اپنی کتاب ‘ریکلیکشنز آف دی کیمپین ان مالوا اینڈ سینٹرل انڈیا’ میں لکھا: ‘اچانک رانی زور سے چلائی، ‘میرے پیچھے آو¿’ اور 15-20 گھڑسواروں کی ایک نفری ان کے پیچھے چل پڑی۔وہ جنگ کے میدان سے اتنی تیزی سے نکلیں کہ انگریز فوجیوں کو اسے سمجھنے میں کچھ سیکنڈز کی دیر ہو گئی۔اچانک روڈرک نے اپنے ساتھیوں سے چلا کر کہا، ‘دیٹس دی رانی آف جھانسی، کیچ ہر۔رانی اور ان کے ساتھی ابھی ایک میل ہی پہنچے تھے کہ کیپٹن برگز کے فوجی ان کے سر پر آ پہنچے۔ یہ جگہ کوٹا کی سرائے تھی۔لڑائی نئے سرے سے شروع ہوئی۔ رانی کے ایک فوجی کے مقابلے میں اوسطاً دو برطانوی فوجی لڑ رہے تھے۔ اچانک رانی کو اپنے بائیں سینے کی جانب درد محسوس ہوا جیسے کہ کسی سانپ نے کاٹ لیا ہو۔ایک انگریز سپاہی جسے وہ دیکھ نہ سکیں تھیں اس نے ان کے سینے میں سنگینیں اتار دی تھی۔ وہ مڑیں اور حملہ آور پر اپنی تلوار سے ٹوٹ پڑیں۔رانی کی چوٹ بہت گہری نہیں تھی لیکن خون تیزی سے نکل رہا تھا۔ اچانک گھوڑے پر دوڑتے ہوئے ان کے سامنے پانی کا چشمہ آگیا۔ انھوں نے سوچا کہ اگر وہ چھلانگ لگا کر آبشار کے پار ہو جائیں تو کوئی انھیں پکڑ نہیں سکے گا۔انھوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی لیکن گھوڑاچھلانگ لگانے کے بجائے اتنی تیزی سے رکا کہ وہ اس کی گردن تک سرک کر پہنچ گئیں۔انھوں نے دوبارہ مہمیز لگائی لیکن گھوڑے نے ایک انچ بھی آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت انھوں نے اپنی کمر میں درد محسوس کیا کسی نے بائیں جانب سے تیز وار کیا تھا۔پھر ان کو رائفل کی ایک گولی لگی اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑی۔انھوں نے اسی ہاتھ سے کمر سے نکلنے والے خون کو روکنے کی کوشش کی۔اینٹونیا فریزر اپنی کتاب”دی واریئر کوئن“ میں لکھتی ہیںاس وقت تک ایک انگریز رانی کے گھوڑے کے پاس پہنچ چکا تھا۔ اس نے رانی پر وار کرنے کے لیے اپنی تلوار اوپر اٹھائی۔ رانی نے بھی اس کا وار روکنے کے لیے دائیں ہاتھ والی اپنی تلوار اوپر کی۔ اس انگریز کی تلوار ان کے سر پر اتنی قوت سے پڑی کہ ان کا سر پھٹ گیا اور وہ اس سے بہنے والے خون سے تقریبا اندھی ہو گئیں۔اسی حال میں رانی نے اپنی پوری قوت سے اس انگریز ر تلوار چلائی جو صرف اس کے کندھے کو ہی زخمی کر پائی۔ رانی گھوڑے سے نیچے گر پڑی۔اس کے بعد ان کے فوجیوں میں سے ایک نے اپنے گھوڑے سے اتر کر انھیں گود میں لے لیا اور انھیں قریبی مندر میں لے گیا۔ رانی اس وقت تک زندہ تھیں۔مندر کے پادری نے ان خشک ہونٹوں کو ایک بوتل میں رکھے گنگا جل (دریائے گنگا کے پانی) سے تر کیا۔ رانی بہت خراب حالت میں تھیں۔ آہستہ آہستہ وہ اپنے حواس کھو رہی تھیں۔دوسری جانب مندر کے احاطے کے باہر فائرنگ مسلسل جاری تھی۔ آخری سپاہی کو مارنے کے بعد برطانوی فوجی نے سمجھا کہ انھوں نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔اس کے بعد روڈرک نے بلند آواز سے کہا: ‘وہ مندر کے اندر گئے ہیں، ان پر حملہ کرو، رانی اب بھی زندہ ہے۔دوسری طرف پجاریوں نے رانی کے لیے آخری لمحات دعائیں شروع کر دیں۔ رانی کی ایک آنکھ انگریز فوجی کی کٹار کے زخم سے بند تھی۔انھوں نے بہ مشکل اپنی دوسری آنکھ کھولی۔ ان کی آنکھوں میں دھندلاپن تھا اور ان کے منہ سے وقفے وقفے سے لفظ نکل رہے تھے۔ ‘۔۔۔دامودر۔۔۔ میں اسے۔۔۔ تمہاری۔۔۔ نگرانی میں چھوڑتی ہوں۔۔۔ اس چھاو¿نی لے جاو¿۔۔۔ دوڑو اسے لے جاو¿۔بہ مشکل انھوں نے اپنی گردن سے موتیوں کا ہار نکالنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ بے ہوش ہوگئیں۔مندر کے پجاری نے ان کی گردن سے موتیوں کا ہار نکالا اور محافظ کے ہاتھ میں دے کر کہا: اسے دامودر کے لیے رکھیں۔ رانی کی سانس تیزی سے چلنے لگی، زخم سے نکلنے والا خون پھیپھڑوں میں جمع ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ ڈوبنے لگیں۔ یکایک ان میں پھر سے جان آ گئی۔حھانسی کی رانی لکشمی بائی کی روح پرواز کر چکی تھی۔ رانی کے چند محافظوں نے فوراً لکڑیاں جمع کیں اور رانی کے جسم کو اس پر رکھ کر آگ لگا دی۔ان کے گرد رائفل چلنے کی آواز بڑھتی جا رہی تھی۔ مندر کے باہر اب تک سینکڑوں برطانوی فوجی جمع ہو چکے تھے۔مندر کے اندر سے انگریزوں پر صرف تین رائفلیں گولیاں برسا رہی تھیں۔ پہلے ایک رائفل خاموش ہوئی۔۔۔ پھر دوسری اور پھر تیسری بھی خاموش ہو گئی۔جب انگریز مندر میں داخل ہوئے تو وہاں سے کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ سب کچھ پرسکون تھا۔ سب سے پہلے روڈرک برگز اندر داخل ہوئے۔وہاں رانی کے کئی درجن سپاہیوں اور مندر کے پجاریوں کی خون میں سنی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ کوئی بھی زندہ نہیں تھا۔ لیکن صرف ایک لاش کی تلاش جاری تھی۔اسی وقت ان کی نظر ایک چتا یعنی لاش کو جلانے والی آگ پر پڑی جس کی لپٹ اب مدھم پڑ چکی تھی۔ انھوں نے اپنے بوٹ سے اسے بجھانے کی کوشش کی۔ پھر انھیں جلتے ہوئے انسانی جسم کے باقیات نظر آئے۔ رانی کی ہڈیاں تقریباً راکھ ہو چکی تھیں۔اس جنگ میں شریک کیپٹن کلیمنٹ واکر ہنیج نے بعد میں رانی کے آخری لمحات کو بیان کرتے ہوئے لکھا،مزاحمت ختم ہو چکی تھی۔ صرف چند فوجیوں سے گھری اور ہتھیاروں سے لیس ایک عورت اپنے فوجیوں میں جان پھونکنے کی کوشش کر رہی تھی۔بار بار وہ اشاروں اور بلند آواز سے اپنے شکست سے دو چار سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی۔ لیکن اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم نے اس عورت پر بھی قابو حاصل کر لیا۔ ہمارے ایک فوجی کے خنجر کا تیز وار اس کے سر پر پڑا اور سب کچھ ختم ہو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ عورت اور کوئی نہیں خود جھانسی کی رانی لکشمی بائی تھی۔

ممتاز شاعرہ و مصنفہ فہمیدہ ریاض کا انتقال، فیاض الحسن چوہان،یاسمین را شد ،مر یم اورنگز یب کا اظہا ر تعزیت

لاہور (صدف نعیم ) ممتاز شاعرہ و مصنفہ فہمیدہ ریاض مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئیں۔اطلاعات کے مطابق فہمیدہ ریاض گزشتہ چند ماہ سے بیمار تھیں ۔ان کے انتقا ل پر صو با ئی وزیر اطلا عا ت فیاض الحسن چوہان،یاسمین را شد ،مر یم اورنگز یب نے تعزیت کا اظہا ر کیا ہے۔وزیر اطلاعات نے اپنے پیغا م میں کہا ہے کہ مر حو مہ کی علمی اور ادبی خدما ت نا قا بل فر ا مو ش ہیں۔وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد نے کہا کہ فہمیدہ ریاض حقوق نسواں کی ایک توانا آواز تھیں، ان کا انتقال اردو ادب کیلئے بہت بڑا سانحہ ہے ۔تفصیلا ت کے مطا بق فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945 کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں اور طالب علمی کے زمانے میں حیدرآباد میں پہلی نظم لکھی جو”فنون“میں چھپی۔فہمیدہ ریاض کا پہلا شعری مجموعہ ”پتھر کی زبان“ 1967 میں آیا اور ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ 1973ءمیں ان کی شادی کے بعد انگلینڈ کے زمانہ قیام میں شائع ہوا جب کہ تیسرا مجموعہ ’کلام دھوپ‘ تھا۔فہمیدہ ریاض نیشنل بک فاو¿نڈیشن اسلام آباد کی سربراہ بھی رہیں، فہمیدہ ریاض جنرل ضیاءالحق کے دور میں بھارت چلی گئیں اور ضیاءالحق کے انتقال کے بعد پاکستان واپس آئیں۔فہمیدہ ریاض کی محبوب صنف سخن نظم تھی۔ فہمیدہ ریاض نے جمہوریت اور خواتین کے حقوق کیلئے بھرپور جدوجہد کی۔

سرکاری کمرشل پراپرٹی کی لیزنگ ، ڈی سی آفس لاہور سفید ہاتھی بن گیا

لاہور (خصوصی رپورٹ) اندرون شہر میں سرکاری کمرشل پراپرٹی لیز پر لینے والوں نے سرکاری خزانے کو 31 ارب روپے کا چونا لگا دیا۔ اینٹی کرپشن نے ڈپٹی کمشنر لاہور آفس کی نزول برانچ کی طرف سے چالیس سال کے دوران لیز پر دی گئی پراپرٹی کے کرائے وصول نہ کرنے کے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن لاہور ریجن محمد اصغر جوئیہ نے چالیس سال کے کرائے کی مد میں 31 ارب روپے کی ریکوری کے لئے ڈپٹی کمشنر لاہور کو خط لکھ دیا۔ اینٹی کرپشن کو موصول ہوے والی تفصیلات کے مطابق اندرون شہر میں کمرشل پراپرٹی لیز پر لینے والوں نے 1978ءسے ایک روپے کرائے بھی ادا نہیں کیا۔ اندرون لاہور میں حکومت پنجاب کے 18 ہوٹل‘ ایک فیکٹری‘ 10 کمرشل گودام‘ 780 گھر اور 1970 دکانیں لیز پر دی گئی ہیں۔ ڈی سی آفس لاہور کی نزول برانچ گزشتہ چالیس سال سے ان کمرشل جائیدادوں کے کرائے وصول نہیں کررہی ہے۔

شمالی کوریا نے سرحد پر فوج سے خالی کی گئی 10چوکیوں کو تباہ کر دیا

سیﺅل (خصوصی رپورٹ) شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کی سرحد پر فوج سے خالی کی گئی 10 چوکیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا نے ماہِ ستمبر میں طے پانے والے سمجھوتے کی ر±و سے دونوں ملکوں کی سرحد پر فوجیوں سے خالی کی گئی 10 چوکیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کو چوکیوں کو تباہ کرنے کے منصوبے سے آگاہ کرنے کے بعد شمالی کوریا نے تباہ کر دیا ہے۔ اس سے قبل شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان فوج سے خالی کی گئی گیارہ گیارہ چوکیوں کو تباہ کرنے کا سمجھوتہ طے پایا تھا تاہم بعد ازاں تاریخی اعتبار سے اہمیت کی حامل ایک ایک چوکی کو محفوظ رکھنے پر اتفاق کر لیا گیا۔واضح رہے کہ جنوبی کوریا کی وزارت دفاع نے گذشتہ ماہ کے آخر میں شمالی کوریا اور اقوام متحدہ کی کمانڈ میں کورئین کے درمیان کشیدگی کم کرنے، جھڑپوں کے سدباب اور مشترکہ اعتماد کی بحالی کے لئے طے پانے والے سمجھوتے کے دائرہ کار میں فوج سے خالی کئے گئے علاقے کی چوکیوں سے مسلح فوجیوں اور آتشی اسلحے کو پیچھے ہٹانے کا کام مکمل ہونے کا اعلان کیا گیا تھا۔

امیتابھ بچن نے کسانوں کا قرضہ ادا کر دیا

ممبئی(مانیٹرنگ ڈیسک)بالی ووڈ سپر سٹار امیتابھ بچن کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسانوں کا تقریبا چار کروڑ روپے سے زیادہ کا قرضہ ادا کر دیا ہے ۔منگل کو انہوں نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ انہوں نے ایک ہزار تین سو اٹھانوے کسانوں کا قرض ادا کیا ہے ۔ان تمام کسانوں کا تعلق شمالی ریاست اتر پردیش سے ہے جہاں امیتابھ بچن خود پیدا ہوئے تھے ۔انڈیا میں لاکھوں کسان قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔مختلف علاقوں میں کئی دہائیوں سے مختلف وجوہات کی وجہ سے زراعت کے شعبے میں حالات بہت ہی ناسازگار ہیں اور پیداوار کی کمی کا سامنا ہے ۔ کسانوں کی خود کشیوں کی وجوہات بھی انہی مسائل سے جڑی ہیں اور 1995 سے لے کر اب تک کم از کم 3 لاکھ کسان خودکشیاں کر چکے ہیں۔ امیتابھ بچن نے جن کسانوں کے قرض ادا کیے وہ سرکاری بینک کے مقروض تھے ۔انہوں نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ خود ان کسانوں کو اس بارے میں بتائیں لیکن ان سب کو ممبئی شہر مدعو کرنا ممکن نہیں اس لیے انہوں نے ایک ٹرین میں 70 کسانوں کے آنے کا انتظام کیا ہے تاکہ وہ ان سے آکر ملیں اور وہ ان کو بینک کی جانب سے د ی گئی دستاویزات دے سکیں۔امید کی جا رہی ہے کہ وہ کسان 26 نومبر کو ممبئی آئیں گے ۔اس برس کے آغاز میں امیتابھ بچن نے ریاست مہاراشٹر کے 350 کسانوں کے قرضوں کی ادائیگی بھی کی تھی۔
امیتابھ بچن قرضہ

سابق خاتون وزیراعظم سے زیادتی ، انکشافات سے سب دنگ رہ گئے

کینبرا (خصوصی رپورٹ) سابق آسٹریلیوی وزیراعظم جولیا گیلارڈ نے انکشاف کیا ہے کہ مجھے ملک کے سب سے اہم اور طاقتور عہدے پر براجمان ہونے کے باوجود جنسی تفریق کا نشانہ بنایا گیا۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کی سابق پہلی اور اب تک کی واحد خاتون وزیر اعظم کا اعزاز رکھنے والی57 سالہ جولیا گیلارڈ نے اپنے ساتھ نازیبا رویئے اور صنفی تفریق پر 5 سال بعد خاموشی توڑتے ہوئے بتایا کہ انہیں ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے پر کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ تین سالہ عرصہ اقتدار میں مجھے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مجھے نہ صرف انتظامی معاملات کو حل کرنے میں مشکلات پیش آئیں، بلکہ انہیں جنسی تفریق کا سامنا بھی رہا۔جولیا گیلارڈ کو 2013 میں اپنی سیاسی پارٹی کے انتخابات میں شکست ہوئی تھی جس کے بعد انہیں وزارت عظمیٰ سے بھی ہاتھ دھونے پڑے تھے ،تاہم جولیا گیلارڈ کو اب تک یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ملک کی تاحال واحد خاتون وزیر اعظم کا اعزاز رکھتی ہیں۔برطانوی میڈیا کو ایک انٹرویو میں جولیا گیلارڈ نے کہا کہ اگرچہ میں زمانہ طالب علمی سے ہی فیمنسٹ تھی اور مجھے صنفی تفریق جیسے مسائل ذہنی پریشانی میں مبتلا کرتے تھے، تاہم مجھ پر سنگین نامناسب اور نازیبا الزامات لگائے گئے۔انہوں نے کہا کہ مجھے احتجاجوں کے دوران جنس پرستی کا نشانہ بنایا گیا اور میرے خلاف نازیبا اور نامناسب نعرے اور الفاظ استعمال کیے گئے۔جولیا گیلارڈ نے کہا کہ مجھے حجاجوں کے دوران ’کتی‘ سے تشیبہ دی گئی اور میرے سامنے ہی میرے خلاف نازیبا نعرے لگائے گئے۔انہوں نے کہا جب میں وزیر اعظم تھی تو میں نے کئی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی، تاہم میرے خلاف ہونےوالے مظاہروں میں میری برہنہ اور نازیبا پینٹنگز بنائی گئیں اور شدید جنسی تفریق کا نشانہ بنایا گیا۔

.

ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض لاہورمیں انتقال کرگئیں

لاہور (ویب ڈیسک ) ممتاز شاعرہ و مصنفہ فہمیدہ ریاض مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئیں۔اطلاعات کے مطابق فہمیدہ ریاض گزشتہ چند ماہ سے بیمار تھیں۔فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945 کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں اور طالب علمی کے زمانے میں حیدرآباد میں پہلی نظم لکھی جو”فنون“میں چھپی۔فہمیدہ ریاض کا پہلا شعری مجموعہ ”پتھر کی زبان“ 1967 میں آیا اور ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ 1973ئ میں ان کی شادی کے بعد انگلینڈ کے زمانہ قیام میں شائع ہوا جب کہ تیسرا مجموعہ ’کلام دھوپ‘ تھا۔فہمیدہ ریاض نیشنل بک فاو¿نڈیشن اسلام آباد کی سربراہ بھی رہیں، فہمیدہ ریاض جنرل ضیاءالحق کے دور میں بھارت چلی گئیں اور ضیائ الحق کے انتقال کے بعد پاکستان واپس آئیں۔فہمیدہ ریاض کی محبوب صنف سخن نظم تھی، وہ اپنے تانیثی اور غیر روایتی خیالات کیلئے معروف تھیں۔ فہمیدہ ریاض نے جمہوریت اور خواتین کے حقوق کیلئے بھرپور جدوجہد کی۔وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد نے ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ فہمیدہ ریاض حقوق نسواں کی ایک توانا آواز تھیں، ان کا انتقال اردو ادب کیلئے بہت بڑا سانحہ ہے۔

نیب عدالت نے شہباز شریف کو 7 روزہ راہداری ریمانڈ دیدیا

لاہور (ویب ڈیسک ) قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو راہداری ریمانڈ کے لیے نیب عدالت میں پیش کردیا گیا۔شہباز شریف آشیانہ اقبال ہاو¿سنگ اسکیم میں گرفتار ہیں اور اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے ہیں۔شہباز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے باعث عدالت کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں جب کہ پولیس نے عدالت کی جانب جانے والے راستے کنٹینرز کھڑے کر کے بند کردیے۔نیب کی جانب سے شہباز شریف کے راہداری ریمانڈ کی استدعا کی جائے گی ۔ سابق وزیراعلیٰ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو لاہور سے بذریعہ پی آئی اے پرواز اسلام آباد لے جایا جائے گا جہاں وہ قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے۔یاد رہے کہ آشیانہ ہاو¿سنگ اسکینڈل کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف جسمانی ریمانڈ پر نیب کی حراست میں ہیں۔نیب لاہور نے 5 اکتوبر کو سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں طلب کیا تھا، تاہم ا±ن کی پیشی پر انہیں آشیانہ اقبال ہاو¿سنگ کیس میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

انڈین آرمی چیف دہشتگرد نکلا

نئی دہلی(خصوصی رپورٹ)کسی بھی ملک کی فوج سرحدوں کی نگہبانی کے لیے ہوتی ہے لیکن بھارتی آرمی چیف پر اپنے ہی ملک میں بم دھماکہ کروانے کا الزام لگ گیا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتی آرمی چیف جنرل بپن روات پر یہ سنگین ترین الزام عام آدمی پارٹی کے لیڈر ایچ ایس پھولکا نے عائد کیا۔ گزشتہ دنوں امرتسر میں نیرن کاری بھون پر ایک بم حملہ ہوا جس کے بارے میں ایچ ایس پھولکا نے کہا کہ یہ دھماکہ خود بپن روات نے کروایا ہے۔ اس دھماکے میں تین لوگ ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق یہ الزام عائد کرنے کے بعد جب انتہاپسند ہندوں نے ایچ ایس پھولکا کو دھمکیاں دینی شروع کیں اور احتجاج شروع ہوا تو خوفزدہ ہو کر انہوں نے اپنا بیان واپس لے لیا اور اس پر معذرت کر لی۔ اپنے اگلے بیان میں انہوں نے کہا کہ میرے بیان کا مقصد یہ تھا کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ماضی میں بھی حکومتیں اپنے مفادات کے لیے پرتشدد واقعات رونما کرواتی رہی ہیں۔ میرا بیان آرمی چیف کے خلاف نہیں تھا اور میں اس پر معذرت خواہ ہوں۔