2019 کے آخر اور 2020 کے اوائل میں چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس نے دنیا کو پوری طرح تبدیل کردیا اور اب اس وائرس کا اب تک کا خطرناک ترین ویرینٹ بھی سامنے آگیا ہے جس نے دنیا میں ایک بار پھر ہلچل مچادی ہے۔
کورونا وائرس کی یہ نئی قسم جنوبی افریقا کے ایک صوبے میں دریافت ہوئی ہے جس کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں اوریجنل کورونا وائرس کے مقابلے میں اس قدر تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں کہ کورونا کی اب تک بنائی جانے والی ویکسینز کی مؤثریت 40 فیصد تک کم ہوسکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئے ویرینٹ کا مشاہدہ کرنے کے بعد وہ حیران رہ گئے کیوں کہ انہوں نے اس سے قبل کورونا کی اتنی خطرناک قسم نہیں دیکھی۔
ابتدائی طور پر کورونا وائرس کے اس نئے ویرینٹ کو B.1.1.529 کا نام دیا گیا تھا تاہم بعد ازاں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اسے OMICRON کا نام دیا گیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ویکسین شدہ افراد بھی اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
ابتدائی طور پر تو اس نئے ویرینٹ کے کیسز جنوبی افریقا کے ایک صوبے خاؤتنگ میں سامنے آئے ہیں، یہ جنوبی افریقا کا گنجان ترین صوبہ ہے اور اس کا پہلا کیس 22 نومبر کو رجسٹر ہوا۔
جی ہاں جب تک سائنسدانوں کو کورونا کی اس نئی قسم کا پتہ لگا یہ جنوبی افریقا سے باہر بھی نکل چکی ہے۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق اس ویرینٹ کے کیسز جنوبی افریقا کے علاوہ بوٹسوانا، ہانگ کانگ ، بیلجیم اور اسرائیل میں بھی سامنے آچکے ہیں جبکہ ممکن ہے کہ یہ دنیا کے اور ممالک میں بھی ہو اور اسے اب تک پہچانا نہ جاسکا ہو۔
کہا جارہا ہے کہ یہ اس سے قبل سامنے آنے والے کورونا وائرس ویرینٹ کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ اس میں تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت ہے اور ویکسین کا اثر بھی اس پر کم ہوگا۔
جنوبی افریقا کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اس نئے ویرینٹ میں اتنی زیادہ تبدیلیاں ہیں کہ اس کی توقع سائنسدانوں کو نہیں تھی۔ اس ویرینٹ میں ابتدائی کورونا وائرس کے مقابلے میں تقریباً 50 تبدیلیاں ہیں جن میں سے 30 تبدیلیاں اسپائیک پروٹین میں ہے۔
اب تک بنائی جانے والی ویکسینز وائرس کے اسپائیک پروٹین پر ہی حملہ کررہی تھیں تاکہ وائرس کو انسانی خلیوں میں داخل ہونے سے پہلے ہی تباہ کیا جاسکے۔ اسپائیک پروٹین میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کی وجہ سے دستیاب ویکسینز کا اس وائرس پر اثر 40 فیصد تک کم ہوجائے گا۔
مزید باریکی سے دیکھیں تو اس ویرینٹ کے Receptor Binding Domain حصے (وائرس کا وہ حصہ جو سب سے پہلے انسانی خلیے سے منسلک ہوتا ہے) میں 10 تبدیلیاں ہوچکی ہیں جبکہ بھارت اور دنیا کے دیگر ممالک میں تباہی مچانے والے ڈیلٹا ویرینٹ میں اوریجنل کورونا وائرس کے مقابلے میں صرف 2 تبدیلیاں تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وائرس میں اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلی ممکنہ طور پر کسی ایک مریض میں ہوئی جو اس وائرس کو شکست دینے میں ناکام رہا اور وائرس مزید طاقتور ہوگیا۔
ادھر سعودی عرب نے بھی مذکورہ 6 ممالک پر سفری پابندیاں عائد کردی ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل، جاپا ن ، سنگاپور نے بھی سفری پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔
جنوبی افریقا نے ان پابندیوں پر ناراضی کا اظہا بھی کیا ہے۔
وائرس میں ہونے والی ہر تبدیلی خطرناک نہیں ہوتی، یہ جاننا ضروری ہے کہ وائرس میں ہونے والی کونسی تبدیلی کیا اثر کررہی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ وائرس جتنے زیادہ لوگوں میں پھیلتا ہے اس میں اتنی ہی زیادہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، اب تک کورونا وائرس ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کر چکا ہے جن کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا البتہ اسپائیک پروٹین میں ہونے والی تبدیلی اہم ہوتی ہے جس کی وجہ سے وائرس کا نیا ویرینٹ وجود میں آتا ہے۔
نئے ویرینٹ کی علامات کیا ہوں گی؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے اس نئے ویرینٹ کی علامات تو کافی حد تک وہی ہیں جو اس سے قبل دیکھنے میں آئی ہیں یعنی بخار، کھانسی، تھکن، ذائقہ چلا جانا، سونگھنے کی حس کا ختم ہونا اور زیادہ سنگین حالت میں سانس لینے میں دشواری اور سینے میں تکلیف وغیرہ شامل ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس ویرینٹ کی علامات دیگر ویرینٹ سے زیادہ شدید ہوسکتی ہیں۔
اس ویرینٹ سے دنیا میں کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں؟
جنوبی افریقا میں سامنے آنے والے اس نئے ویرینٹ کے اثرات دنیا بھر میں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ نئے ویرینٹ کےسبب دسمبر کے وسط تک دنیا میں کورونا کی چوتھی لہر سامنے آسکتی ہے۔
برطانیہ نے تو جنوبی افریقا ، لیسوتھو ، بوٹسوانا، نمیبیا، اسواتینی اور زمبابوے کو کورونا پابندیوں والی ریڈ لسٹ میں شامل کردیا ہے اور ان ممالک سے پروازوں کی آمد پر پابندی لگادی ہے۔ برطانیہ کا کہنا ہے کہ اب تک ان کے ملک میں کورونا کی نئی قسم کاکوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
برطانوی وزیر صحت ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ ان چھ ممالک سے جو بھی شخص برطانیہ آئے گا اسے قرنطینہ کرنا ہوگا۔
یورپی یونین نے بھی جنوبی افریقا اور خطے کے دیگر ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کردی ہے اور رکن ممالک سے کہا ہے کہ اسکریننگ سخت کردیں، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک نے جنوبی افریقی خطے سے پروازوں کی آمد پر پابندی عائد کردی ہے۔
امریکا نے بھی جنوبی افریقا سمیت 8 افریقی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔