صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی الوداعی ملاقات ہوئی۔
ملاقات کے دوران صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ملکی سکیورٹی کیلئے بطورِ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی خدمات کو سراہا، صدر نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کیلئے پشاور کور کمانڈر کے نئے عہدے پر نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔
All posts by Khabrain News
یوٹیوب نے ڈس لائک کی تعداد ظاہر نہ کرنے کا آپشن پیش کردیا
یوٹیوب نے اپنے ویڈیو انٹرفیس میں ایک اہم تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویڈیو پر ناپسندیدگی (ڈس لائک) آپشن کو دوسروں سے چھپاکر پرائیوٹ کیا جائے گا۔ یوٹیوب کے مطابق لوگوں کی بڑی تعداد شعوری طور پر ڈس لائک کی بدولت کسی ویڈیو کی بے قدری کررہی ہے۔
یوٹیوب کے مطابق ڈس لائک کو حملوں میں بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جارہا ہے اور ویڈیوز کی قدروقیمت کو گھٹایا جارہا ہے۔
’ ناظرین کے گروہ اپنی تعداد کے بل پر ڈس لائک بٹن استعمال کرتے ہیں اور اسے کسی گیم میں اسکوربورڈ کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ بسا اوقات ویڈیو پر ناپسندیدگی کا بٹن صرف اس لیے دبایا جاتا ہے کہ انہیں اس کا تخلیق کار پسند نہیں ہوتا اس میں ذاتی رنجش کے علاوہ موضوع سے بیزارگی بھی شامل ہوسکتی ہے۔ جبکہ تمام افراد کو اظہار کا موقع دینا ہی یوٹیوب کا مشن ہے،‘ کمپنی نے اپنے بیان میں کہا۔
اب اس سال کے آغاز میں بعض چینل پر تجرباتی طور پر ڈس لائک کی تعداد کو پرائیوٹ کیا گیا تھا۔ یوٹیوب کے مطابق اس طرح ڈس لائک بڑھانے کی شعوری مہمات میں کمی دیکھی گئی۔
تاہم ناظرین کو یوٹیوب بٹن دکھائی دے گا لیکن اس کی گنتی سامنے نہیں آئے گی۔ اس طرح ویڈیو کی ٹارگٹ ناپسندیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ یوں ڈس لائک کے سیلاب کو روکنا ممکن ہوسکے گا۔ یوٹیوب کے مطابق چھوٹے یوٹیوبرپر اکثر ڈس لائک حملے ہوتے ہیں اور شروع میں ہی انہیں ناکام بنایا جاتا ہے۔ جب اس پر مزید غور کیا گیا تو یوٹیوب نے یہ رحجان بھی نوٹ کیا ہے۔
’یوٹیوب کے مطابق مخالفین اپنے حریف برانڈ اور فلم ٹریلر پر ڈس لائک کے ذریعے اسے ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور سوشل میڈیا کا یہ اثربہت حقیقی ہوتا ہے۔ اسی طرح بھارت میں مشہور یوٹیوبر اور ٹک ٹاکرز کے درمیان تنازعہ دیکھا گیا تھا جس میں دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو ڈس لائک سے نیچا دکھایا تھا بلکہ اس کی زد میں خود ایپس بھی آگئ تھیں۔
ہتک عزت کیس؛ دوران سماعت صبا حمید علی ظفر کے وکیل پر برہم
سیشن کورٹ میں علی ظفر کی جانب سے میشاء شفیع کے خلاف ہتک عزت کے دعوی پر سماعت کے دوران گواہ صبا حمید علی ظفر کے وکیل کے تلخ سوالات پر برہم ہو گئیں۔
لاہور کی سیشن عدالت میں گلوکار علی ظفر کے میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کے دعوی پر سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل سیشن جج خان محمود نے کیس کی سماعت کی۔ میشاء شفیع کی گواہ صبا حمید عدالت میں پیش ہوئیں عدالت میں میشاء شفیع کی والدہ صبا حمید کے بیان پر جرح کی گئی صبا حمید علی ظفر کے وکیل کے تلخ سوالات پر برہم ہو گئیں۔
صبا حمید نے کہا کہ آپ ایسے سوالات نہ کریں کہ میں جس کے متعلق نہیں جانتی۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ آپ سولات کے واضح جواب دیں۔ علی ظفر کے وکیل نے پوچھا کہ میشاء شفیع واٹس ایپ گروپ میں لکھتی ہیں کہ میں اس جیمنگ سیشن کو خوبصورت ترین قرار دیتی ہوں۔
گواہ صبا حمید نے جواب دیا کہ میں اس واٹس ایپ گروپ میں نہیں ہوں، میرے خیال سے ہراسمنٹ کے بعد عورت کو مر جانا چاہئے، دوران جرح صبا حمید عدالت میں جذباتی ہو کر اونچا اونچا بولنے لگیں جس پرعدالت نے انہیں آہستہ بولنے کے لیے کہا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں صرف سوالات ہی پوچھ رہا ہوں آپ سے لڑ تو نہیں رہا، وکیل علی ظفر نے مزید پوچھا کہ میشاء شفیع اسی تصویر کو فیس بک اکاؤنٹ پر جیمنگ سیشن کے تین دن بعد لگاتی ہیں کہ علی ظفر کے ساتھ یہ یاد گار رہا۔
گواہ صبا حمید نے کہا یہ ہو سکتا ہے لیکن مجھے یہ پوسٹ یاد نہیں ہے۔ سوال پوچھا گیا کہ میشاء شفیع نے عفت عمر کو کیا بتایا تھا صبا حمید نے کہا کہ مجھے اس بات کا کنفرم نہیں ہے لیکن میں نے عفت عمر کو بتایا تھا۔ اس دوران صبا حمید کے وکیل نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو ہم اپنے ویڈیو لنک کی درخواست دائر کر دیتے ہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس پر ہم آج ہی بحث کر لیتے ہیں، وکیل علی ظفر نے پوچھا آپ یہ بتائیں کہ سچ کون بول رہا ہے آپ، عفت عمر یا میشاء شفیع؟ صبا حمید نے کہا کہ ہم تینوں سچ بول رہی ہیں۔
متحدہ اپوزیشن کا پارلیمنٹ میں منظور کردہ قوانین کو چیلنج کرنے کا اعلان
اسلام آباد: متحدہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں منظور کردہ قوانین کو چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے باہر بلاول بھٹو زرداری اور مولانا اسعد محمود کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ آج پارلیمنٹ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تمام روایت کو پیروں تلے روند دیا، ہم نے کہا کہ قواعد پر عمل کیا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ہماری ایک بات بھی نہیں مانی، میں ، بلاول بھٹو اور اسعد محمود نے اسپیکر کو بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے بات نہیں مانی، اجلاس میں ہماری تعداد 200 سے اوپر تھی، حکومتی لوگوں کے ووٹ زیادہ گنے گئے۔ اسپیکر سے بار بار درست ووٹنگ کرانے کا کہا، ای وی ایم کو ایول ورچوئل مشین کہتا ہوں، ای وی ایم ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، الیکشن ترمیمی بل سمیت دیگر بلوں کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔
اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے مشترکہ اجلاس کے اپنے قواعد ہوتے ہیں، مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جیت نہیں ہوئی ، حکومت کو شکست ہوئی ہے، جوائنٹ سیشن میں قانون سازی کے لئے 222 حکومتی اراکین کا ہونا ضروری ہے، حکومت کے نمبرز پورے نہیں تھے۔
دھاندلی کے نتیجے میں آنے والی حکومت انتخابی اصلاحات کررہی ہے، فضل الرحمٰن
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ دھاندلی کے نتیجے میں آنے والی حکومت انتخابی اصلاحات اور قانون سازی کررہی ہے لیکن ہم کسی بھی انتخابی اصلاحات یا مشین کے حوالے سے قانون سازی کو جوتے کی نوک پر رکھیں گے۔
کوئٹہ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں 10سال سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ عمران خان پاکستان کی سیاست کا غیرضروری عنصر ہے، یہ ناجائز حکمران ہے اور آج ان کی تین سال کارکردگی نے ہمارے اس دعوے پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ وہ نالائق اور نااہل بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاستوں کی بقا کے لیے دو بنیادی عناصر دفاعی اور معاشی قوت ہوتے ہیں، دفاع ایک ادارہ ہے اور دفاعی قوت ہماری فوج ہے اور افواج پاکستان اسی قوم سے بنتی ہے لیکن ماضی میں ان کے کچھ غلط فیصلوں نے خود ہماری دفاعی قوت پر سوالات کھڑے کردیے جس کا ہمیں دکھ ہے کہ ہماری دفاعی قوت پر کیوں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہیں سے کوئی کمزوری ہے، کسی غلطی کا نتیجہ ہے اور آج ان کو بھی اس غلطی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری یہ تحریک واضح موقف رکھتی ہے کہ ہمارے ان اداروں کو اپنے دائرے کی طرف واپس جانا چاہیے تاکہ وہ غیرمتنازع رہیں اور اس ملک کی بقا کا سبب بن سکیں۔
پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ اگر ملکی معیشت تباہ ہو جاتی ہے، ہر طرف غربت اور بے روزگاری کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں، اگر اسلام آباد کے پارلیمنٹ لاجز کے سامنے کوئی خودسوزی کررہا ہے، کوئی اپنے بچوں کو وہاں لا کر برائے فروخت کا بورڈ لگا رہا ہے تو کیا اس ملک میں ہمیں یہ دن بھی دیکھنے تھے، جب غربت اور بے روزگاری کا عفیر اس طرح بپھر جائے تو ریاستیں اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کے بقا اور تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں، بندوق اٹھانا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن بندوق اٹھانے سے خاندان اور شہر اجڑتے ہیں اور پشتون بلوچوں سے زیادہ کون جانتا ہے کہ بندوق کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب عالمی استعمار کی پالیسیوں نے مذہبی دنیا میں اشتعال پیدا کیا، لوگ بندوق کی طرف جانے لگے لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ نہیں ہم پاکستان کو ایک پرامن، آئینی، جمہوری اور اسلامی مملکت دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم نے آئین کا راستہ چنا، ہم بھی اسلحے کی طرف جا سکتے تھے لیکن ہم جذبات کو نہیں بلکہ ملک کو دیکھ رہے تھے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہماری جمہوریت کی عزت، وقار اور اتھارٹی کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دفاع پر بھی سوالات اٹھائے گئے لیکن اب ہماری عدلیہ پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور تین ججوں نے عام آدمی کے ذہن میں عدلیہ کے کردار کے بارے میں سوالات پیدا کردیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے ان مقدس اداروں میں کالی بھیڑیں آتی ہیں تو ہمیں ان صفوں سے ان کالی بھیڑوں کو نکالنا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو کہا گیا کہ پاکستان میں جب ہماری حکومت آئے گی تو باہر سے لوگ نوکریوں کے لیے اس ملک میں آئیں گے، آج باہر سے ہمارے پاس ایک ہی ملازم آیا ہے اور وہ اسٹیٹ بینک کا گورنر ہے اور یہ جس ملک میں بھی گیا ہے وہاں کے مرکزی بینک کا دیوالیہ کر کے آیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ آج اسمبلی میں یہ بل بھی لایا جا رہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے قانون میں ترمیم کی جائے اور پاکستان کے اسٹیٹ بینک کو براہ راست آئی ایم ایف سے وابستہ کردیا جائے، پھر یہ ہمارا بینک نہیں آئی ایم ایف کی پاکستان میں موجود ایک شاخ بن جائے گی اور ہماری معیشت کی سب سے بڑی منتظم ہاتھ سے نکل جائے گی، آپ پارلیمنٹ میں اس طرح کے قوانین لانے والے کون ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو حکومت خود دھاندلی کے نتیجے میں آئی وہ انتخابی اصلاحات دے رہی ہے اور اس کے لیے قانون سازی کررہی ہے، اگر انتخابی اصلاحات یا کسی بھی مشین کے حوالے سے کوئی بھی قانون سازی کی گئی تو ہم اسے صرف مسترد نہیں کریں گے بلکہ جوتے کی نوک پر رکھیں گے، یہ اگلے الیکشن کے لیے پھر دھاندلی کا پروگرام بنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اب بھی کہتے ہیں کہ تمہاری خیر اسی میں ہے کہ اقتدار چھوڑ کر نکل جاؤ، کب تک ہم لاشیں اٹھاتے رہیں گے، لاپتا لوگوں کے لیے روتے رہیں گے، 50لاکھ گھر دینے کی بات کی لیکن الٹا 50لاکھ گھر گرا دیے لہٰذا ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم مہنگائی، بے روزگاری، غربت، افلاس اور بدامنی کے اس ماحول میں عوام کے شانہ بشانہ ہیں، ہم نے آگے بڑھنا ہے اور ان ناجائز حکمرانوں کو ایوان اقتدار سے باہر کرنا ہے۔
’حکومت کے پاس اکثریت نہیں تھی ، بل دھوکہ دہی سے منظور کروائے‘اپوزیشن رہنماؤں کی اجلاس کے بعد گفتگو
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور کر لیا گیا۔ سمندر پار پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا بل بھی منظور کر لیا گیا۔
اپوزیشن رہنماؤں نے پارلیمان کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کی، اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے رولز کو نظر انداز کیا، اکثریت چاہے تھی 222 انکے پاس 212 بھی نہیں تھے، اسپیکر سے درخواست کی کی گنتی دوبارہ کروائی جائے، رولز کے مطابق 222 تعداد ہونا ضروری تھا، اسپیکر نے ہماری ایک بات نہیں مانی. ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد تمام بلز بلڈوز کرتے چلے گئے ، ہم نے احتجاج کیا کہ اسپیکر صاحب زیادتی کررہے ہیں تاہم اسپیکر نے ہماری ایک بات نہیں سنی. میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میرا پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کا حق تھا لیکن میرا مائیک نہیں کھولا گیا، ہماری ایوان میں بھرپور تعداد موجود تھی ، اسپیکر پی ٹی آئی کا حواری بنا ہوا تھا ، آج پارلیمان کی تاریخ کا سیاہ دن ہے.
انہوں نے یہ بھی کہنا کہ 167 ممالک میں صرف 8 ممالک نے ای وی ایم کو اختیار کیا ہے، ہم پر پہلے ہی دھاندلی زدہ حکومت مسلط ہے ، اب اس ای وی ایم کو آپ ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، مجبوری میں ہم بائیکاٹ کرکے عوام کے سامنے آئے ہیں، جتنا عمران نیازی ای وی ایم پر زور لگا رہے اتنا مہنگا ئی کم کرنے پر لگاتے تو یہ حالات نہ ہوتے.
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آج مشترکہ اجلاس میں حکومت شکست ہوئی ہے ،اسپیکر اور حکومتی بینچز کی رولز کی جانب توجہ دلانے کی بہت کوشش کی ، دونوں ہاوسز کا آدھا ووٹ انکے پاس ہونا چاہے تھے، مشترکہ اجلاس میں بل کی منظوری کے لئے حکومت کے پاس 222 ووٹ ہونا لازم ہے، اگر حکومت 222 ووٹ پورے نہیں کرتے تو قانون نہیں بن سکتا.
بلاول بھٹو نے کہا آج ای وی ایم اور کلبھوشن اور آئی ایم ایف کے لئے قانون بنائے گئے ہیں، ہم اس قانون سازی کو سپریم کورٹ سمیت ہر فورم پر چیلنج کریں گے، یہ قانون پاکستان کا قانون نہیں ہے ، ہم الیکشن کمیشن کو بھی سمجھائیں گے، ہر فورم پر اس معاملہ کو چیلنج کریں گے. انہوں نے کہا عوام تکلیف میں ہے اور یہاں عوامی مسائل کم کرنے کی بجائے اضافہ کیا جا رہا ہے، متحد ہ اپوزیشن نے حکومت کو آج شکست دی.
اس موقع پر جے یوآئی ف کے رہنماء مولانا اسعد محمود نے کہا ابتدا میں کہا یکطرفہ قانون سازی کو قوم تسلیم نہیں کرے گی، ہم نے تجویز دی کہ کم از کم قواعد و ضوابط کو ہی اختیار کرلیا جائے ، کون مانے گا یہ 22 کروڑ عوام کو صاف و شفاف انتخابات دے سکتے ہیں، ہمارے ممبران ترامیم پر بات نہیں کرسکتے تھے ، صرف 3 پارلیمانی لیڈرز کو بات کرنے کی اجازت دی، انہوں نے کہا ہم اس جبری قانون سازی کو قطعا قبول نہیں کرتے ، ہر فورم پر اس معاملہ کو لیجائیں گے.
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس : کلبھوشن یادیو اورعالمی عدالت انصاف کے متعلق بل بھی منظور
اسلام آباد: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارتی جاسوس کلبھوشن اورعالمی عدالت انصاف کے متعلق بل بھی منظور کرلیا گیا ہے ۔ کلبھوشن کے متعلق بل وزیرقانون فروغ نسیم نے پیش کیا ۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کرانے کا بل منظور کر لیا گیا، اپوزیشن کی جانب سے ہنگامہ آرائی اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دی گئی، اپوزیشن ارکان ایوان سے واک آوٹ کر گئے۔ اس سے پہلے انتخابی اصلاحات کے متعلق ترمیمی بل 2021 پیش کرنے کی تحریک منظورکی گئی، تحریک کے حق میں 221 جبکہ مخالفت میں 203 ووٹ آئے ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے تحریک پیش کی جس پر گنتی کرائی گئی۔ اپوزیشن کی طرف سے گنتی کے عمل کو چیلنج کیا گیا ہے، اس سے قبل پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نےموقف اختیار کیا تھا کہ تحریک کی منظوری کے لیے 222 ارکان کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے پہلے اجلاس جب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن نے شور شرابا شروع کر دیا تھا۔ اجلاس کے ایجنڈے میں انتخابی اصلاحات بل، نیب آرڈیننس اور نئی مردم شماری سمیت 29 بلز کی منظوری شامل ہے ۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بلز منظور کرانے کیلئے تحریک انصاف کا اتحادیوں پر کافی زیادہ انحصار ہے۔دونوں ایوانوں میں ارکان کی مجموعی تعداد چار سو چالیس ، حکومت اور اتحادیوں کے پاس دو سوانتیس ارکان ہیں۔ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد دوسو گیارہ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایوان میں نمبرز پورے کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری ہے ، اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہبازشریف نے خطاب کے دوران کہا کہ آج پارلیمان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے، حکومت اور ان کے اتحادی آج بل بلڈوز کرانا چاہتے ہیں ۔ حکومت کا ایوان سے بلز بلڈوز کرانے کا سب سے بڑا بوجھ جناب اسپیکر آپ کے کاندھوں پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ رات کے اندھیرے میں اعلان ہوا کہ اگلے دن صبح پارلیمان کا اجلاس ہو گا ، جب عمران خان نیازی کے کھانے میں درجنوں ارکان غیر حاضر تھے اور اتحادی انکاری تھے تو اجلاس کو مؤخر کر دیا گیا، حکومتی وزرا نے کہا کہ اپوزیشن سے مشورہ کرنا ہے، پھر جناب اسپیکر آپ کا خط موصول ہوا، پوری اپوزیشن نے اس خط کے مندرجات پر غور کیا اور تفصیلی جواب پیش کیا، خط کے جواب میں شاندار تجاویز پیش کی گئی، لیکن آپ نے رابطہ منقطع کر لیا اور اپوزیشن کو کوئی جواب نہیں ملا،ہمیں آئندہ پروگرام بارے بھی نہیں بتایا گیا۔
شہباز شریف نے کہاکہ اپوزیشن سے مشاورت ایک ڈکھوسلہ تھا تاکہ اتحادیوں کو منایا جائے، الیکشن کے بعد اک شور دھاندلی ہونے پر ہوتا ہے،پہلا موقع ہے کہ الیکشن سے پہلے 22 کروڑ عوام دھاندلی کا شور کر رہی ہے۔
شہباز شریف نے ای وی ایم کو شیطانی مشین قراردیدیا
شہباز شریف نے کہاکہ انہیں عوام سے ووٹ ملنا اب مشکل ہے ، سلیکٹیڈ حکومت اقتدار کو طول دینے کیلئے ای وی ایم کا سہارا لے رہی ہے ، انہوں نے ای وی ایم کو شیطانی مشین قرارد ے دیا ۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ 2018ء میں تو آر ٹی ایس خراب ہو گیا تھا جس سے یہ دھاندلی زدہ حکومت بنی، ای وی ایم کا مطلب ایول وشیس مشین ہے۔
شہباز شریف کا اسپیکر سے اجلاس مؤخر کرنے، مشاورت مکمل کرنے کا مطالبہ
اپوزیشن لیڈر نے کہاکہ حکومت چاہتی ہے کچھ ایسا ہو جائے کہ عوام کے پاس نہ جانا پڑے، ای وی ایم کے ذریعے انہیں اقتدار مل جائے ، یہ چاہتے ہیں انہیں این آر او مل جائے۔ وہ کیسی جمہوریت ہو گی جہاں قانون کی دھجیاں اڑائی جائیں ، اسپیکر صاحب آپ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس اجلاس کو موخر کریں اور اپوزیشن سے مشاورت کریں۔
اپوزیشن ضمیر کا سودا نہ کرے اور بل کے حق میں ووٹ دے، وزیر خارجہ
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے خیالات کا اظہار کیا ہم نے بڑے احترام سے ان کی گفتگو سنی، قائد حزب اختلاف کے استحقاق کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ آج تاریخی دن ہے، آج یہ ایوان ایسی قانون سازی کرنے جا رہا ہے جس سے ماضی کی خرابیوں کو دور کر کہ شفاف الیکٹورل ریفارمز کا ارادہ رکھتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ہم ہرگز کالا قانون مسلط نہیں کرنا چاہتے بلکہ ہم ماضی کی کالک کو دھونا چاہتے ہیں ، 1970 کے بعد جتنے انتخابات ہوئے تاریخ گواہ ہے کہ ان پر سوالیہ نشان اٹھایا گیا ۔ ہمارا ارادہ قانون سازی کو بلڈوز کرنا ہر گز نہیں ہے ، ہم نے مشاورت کیلئے اپوزیشن کو دعوت دی اگر عجلت میں اجلاس بلایا ہوتا تو اپوزیشن نے اپنے ارکان سے رابطے کیسے کر لیے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’ہم نے مشترکہ اجلاس مسلط نہیں کیا، 11 نومبر کو ہی ہم نے تاریخ دے دی تھی، اسے موخر کیا گیا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس عددی اکثریت نہیں تھی اس لیے موخر کیا گیا، اگر عددی اکثریت نہ ہوتی تو ہم آج یہ بل کیوں پیش کرتے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’قانون سازی کا ایک طریقہ کار ہے، ہم نے ہر طریقے پر عمل کیا ہے، اراکین کے سوالات تھے، ہم نے انہیں دلائل دے کر قائل کیا اور اس ہی وجہ سے اراکین حکومت کی صفوں میں بیٹھے ہیں‘۔
ان کاکہنا تھا کہ شہباز شریف کی تقریر کا لب لباب یہ ہے کہ حکومتی صفوں میں اتحاد ہے۔ ای وی ویم ماضی کے شیطانی منصوبوں کو ختم کرنے کیلئے لائی جارہی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپوزیشن سے گزارش کروں گا کہ اپنے ضمیر کا سودا نہ کیجئے اور اس بل کے حق میں ووٹ دیجئے۔ وزیر خارجہ نے اسپیکر سے اجلاس موخر نہ کرنے کا مطالبہ کردیا ۔
بلاول بھٹو کا انتخابی اصلاحات کے متنازع قوانین کے خلاف عدالت جانے کا اعلان
چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہم پارلیمنٹ کی عزت اور احترام کرتے ہیں ۔قوم اور اس ایوان سے جھوٹ نہ بولا جائے ۔آپ زبردستی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کابل پاس کرنے جارہپے ہیں ،اگر ایسا ہوا تو ہم اگلا الیکشن ہی تسلیم نہیں کریں گے ۔ آپ آج سے ہی الیکشن کو متنازع بنا رہے ہیں ۔
بلاول بھٹو نے مزید کہاکہ ہم انتخابی اصلاحات کو نہیں مانتے، ہم الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جب تک الیکشن کمیشن کے تحفظات ہیں تب تک ہمارے تحفظات ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن بھی اس الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مسترد کر چکااور الیکشن کمیشن نے اس مشین پر 37 سنگین اعتراضات اٹھائے ہیں۔ بلاول بھٹو نے انتخابی اصلاحات کے متنازع قوانین کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کردیا ۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آپ پاکستان کی پارلیمان کی توہین کر رہے ہیں ، عوام پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری میں تکلیف میں ہیں ، پٹرول کی قیمت کر کم کریں ہم آپ کا ساتھ دیں گے ۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی غلامی کرتے ہوئے عوام سے روٹی بھی چھین لی، عوام کو ریلیف دیں تو ہم ہم آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’انتخابی اصلاحات کے متنازع قوانین کے خلاف عدالت میں جائیں گ، ایسا نہیں ہوسکتا ووٹ پیرس میں ڈلے اور نتیجہ ملتان کا ہو‘۔
پیپلز پارٹی رہنما کاکہنا تھا کہ سٹیٹ بینک پارلیمنٹ اور عدالتوں کو جوابدہ ہونا چاہیے، اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے ماتحت دینا چاہتے ہو ، اسٹیٹ بینک پارلیمان کو جوابدہ نہیں ہوگا، نہ سپریم کورٹ اس سے پوچھ سکے گا، ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق بل پر بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہاکہ پی ٹی آئی بھارتی جاسوس کلبھوشن پر اپوزیشن میں تو تنقید کرتے تھے لیکن آج کلبھوشن کو این آر او دینا چاہتی ہے ۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ مردم شماری کے معاملے پر ایوان میں بحث ہونی چاہیے، عوام مشکل وقت میں اپنے نمائندوں کی جانب دیکھ رہی ہے،حکومت زبردستی ای وی ایم منظور کرا کر دھاندلی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے،متحدہ اپوزیشن ایوان کے اندر اور باہر اس کے خلاف احتجاج کرے گی۔
بلاول بھٹو کا ہر بل پر گنتی کرانے کا مطالبہ
بلاول بھتو زرداری نے ہر بل پر گنتی کا مطابہکردیا ، انہوں نے کہا کہ حکومت کو قانون سازی کیلئے 222 ووٹ لینا پڑیں گے ، جس پر بابر اعوان کاکہنا تھا کہ تمام بل سادہ اکثریت سے منظورہوسکتے ہیں ۔ایوان میں ایک بھی ووٹ زیادہ ہو تو بل منظور ہوجائے گا ۔
پارلیمنٹ مشترکہ اجلاس میں 20 سے زائد بلز زیر غور آئیں گے
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے باضابطہ طور پر پارلیمان کا مشترکہ جلاس بدھ کی دوپہر بلایا جس میں انتخابی اصلاحات کے بل سمیت20 سے زائد اہم بلوں پر غور کیا جائے گا جو سینیٹ سے یا تو ختم ہو چکے ہیں یا مسترد ہوچکے ہیں۔
خیال رہے کہ حکومت نے اس سے قبل اپنے اتحادیوں، بالخصوص مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کی جانب سے الیکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے استعمال سے متعلق مجوزہ انتخابی اصلاحات کے بل پر تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد مشترکہ اجلاس ملتوی کردیا تھا۔
پارلیمنٹ میں پارٹی پوزیشن ظاہر کرتی ہے کہ اگر دونوں ایوانوں کو ایک ساتھ ملایا جائے تو حکومت میں صرف دو ووٹوں کی اکثریت ہے۔ پارٹی پوزیشن کے مطابق 440 رکنی مشترکہ ایوان میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 221 کے مقابلے میں 219 بنتی ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں 17 ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے جبکہ سینیٹ میں وہ اپوزیشن سے 15 ووٹوں سے پیچھے ہے۔
اسعد محمود
جے یو آئی (ف) کے اسعد محمود نے کہا کہ ملک میں افراتفری اور ہنگاموں کی بنیاد ڈالی جارہی ہے ، اگر یکطرفہ قانون سازی ہوتی ہے اور اس بنیاد پر افراتفری ہوگی تو اس کی ذمہ داری آپ پر اور حکومت و سپورٹرز پر ہوگی ، انتخابی نتائج پر ہمیشہ دنیا میں سوال اٹھتے ہیں، ہم متحمل نہیں ہوسکتے کہ جیسے پہلے ملک دو لخت ہوا ، پھر افراتفری ہو ۔
وزیراعظم کی ایوان میں آمد
اسی دوران وزیراعظم عمران خان ایوان میں آئے۔ انہوں نے ہاتھ میں تسبیح پکڑی ہوئی تھی۔ حکومتی اراکین نے ڈیسک بجاکر ان کا استقبال کیا۔
انتخابی بل میں ترمیم مسترد
محسن داوڑ نے کہا کہ افسوس کی بات ہے آج علی وزیر ایوان میں نہیں ہیں اور وزیرستان کی نمائندگی نہیں ہو رہی۔ محسن داوڑ نے انتخابی ترمیمی بل دوسری ترمیم میں اپنی ترمیم پیش کی جس کی بابر اعوان نے مخالفت کردی۔
وزیر اعظم کچھ دیر میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے
اسلام آباد : وزیر اعظم کچھ دیر میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے ۔
تفصیلات کے مطابق آج پارلیمنٹ کے اہم ترین مشترکہ اجلاس میں سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا بل بھی منظور کرلیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ آج کے سیشن میں کلبھوشن یادیو اور عالمی عدالت کے حؤالے سے بھی بل منظور کیا گیا ہے ۔
واضح رہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں گرما گرمی و شور شرابہ ، اپوزیشن سپیکر ڈائز کے سامنے جمع ہونا شروع ہوگئی، ایوان میں گو نیازی گو نیازی کے نعرے، اپوزیشن کے نعرے سپیکر کو رہا کرو۔ اپوزیشن ارکان کے گلی گلی میں شور ہے عمران نیازی چور ہے کے نعرے ، ایوان میں ارکان بپھر گئے۔
عامر لیاقت کی اپوزیشن ارکان سے جھڑپ ، وفاقی وزیر مراد سعید ، شہریار آفریدی اور مرتضی جاوید عباسی کے درمیان گرما گرمی ہوئی ، پارلیمنٹ کا سیکیورٹی اسٹاف بیچ بچاو کراتا رہا۔
سپیکر نے ایوان میں تلخی دیکھتے ہوئے ایوان میں ڈویژن کردی، حکومت کو سپیکر ڈائس کے دائیں اور اپوزیشن کو بائیں جانب جانے کا حکم دیدیا ۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اگر حکومت و اپوزیشن نے حکم نہ مانا تو پھر آواز کے ذریعے رائے لوں گا۔
حکومت کا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا بل منظور
اسلام آباد : پارلیمنٹ میں حکومت کا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کرنے اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا بل منظور کرلیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا ، اجلاس کے دوران حکومت اور اپوزیشن ارکان میں گرما گرمی رہی اور پارلیمنٹ ہاؤس میں اپوزیشن کی جانب سے نعرے بازی کی گئی، ممبران پارلیمنٹ میں گرما گرمی دیکھ کر سیکیورٹی عملہ پہنچ گیا۔
بابر اعوان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کی ترمیم پیش کی، جس کے بعد انتخابی نظام میں تبدیلی کے حوالے سے حکومت کا الیکشن ترمیمی بل 2021 منظور کرلیا گیا ۔
پارلیمنٹ میں حکومت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کا بل اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا بل منظور کیا گیا۔
اس کے علاوہ عالمی عدالت انصاف نظرثانی بل 2021 ، مسلم عائلی قوانین ترمیمی بل2021 اور نیشنل کالج آف آرٹس انسٹیٹیوٹ بل بھی 2021مشترکہ اجلاس سے منظور کرایا گیا۔
وزیراعظم سمیت حکومتی ارکان پارلیمنٹ نے ڈیسک بجاکرخوشی کا اظہار کیا جبکہ اپوزیشن نے کاپیاں پھاڑدیں اور ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کرکے باہر چلے گئے۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور، اپوزیشن کا واک آؤٹ
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
اس بل کے تحت 2017 کے الیکشن ایکٹ میں دو ترامیم تجویز کی گئی ہیں جو کہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق ہیں۔
بل منظور ہونے پر وزیر اعظم عمران خان سمیت حکومتی ارکان پارلیمنٹ نے ڈیسک بجا کر خوشی کا اظہار کیا جبکہ اپوزیشن نے اس کی کاپیاں پھاڑتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
قبل ازیں مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان کی جانب سے انتخابی اصلاحات بل پیش کرنے کی تحریک کثرت رائے سے منظور کی گئی۔
انتخابی اصلاحات کی تحریک کے حق میں 221 جبکہ مخالفت میں 203 ووٹ آئے۔
ووٹوں کی گنتی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے اعتراض اٹھایا جس پر اسپیکر نے دوبارہ گنتی کرنے کی ہدایت کی۔
تاہم گنتی کے دوران ایوان میں شدید بےنظمی پیدا ہوگئی اور اپوزیشن اراکین اسپیکر ڈائس کے سامنے آگئے اور حکومت و وزیر اعظم کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
ایوان میں گرما گرمی کے باعث سارجنٹ ایٹ آرمز نے وزیر اعظم کو اپنے حصار میں لے لیا جبکہ اپوزیشن اراکین نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔