All posts by Khabrain News

لاہور: ماڈل ٹاؤن کچہری کے بخشی خانے میں جھگڑا، قتل کے ملزمان سمیت 10 قیدی فرار

لاہورکی ماڈل ٹاؤن کچہری میں قیدیوں کے گروپوں میں جھگڑا ہوگیا جسے روکنے کیلئے پولیس نے بخشی خانےکا دروازہ کھولا تو قتل کے 2 ملزمان سمیت 10 قیدی فرار ہوگئے۔
پولیس کے مطابق قیدیوں کو کوٹ لکھپت جیل سے وین میں لایا گیا تھا، اہلکاروں نے لڑائی روکنےکیلئے دروازہ کھولا تو قیدی فرار ہوگئے۔
ٹیوب لائٹ اور لاٹھی اٹھائے ملزمان اسلحہ تھامے اہلکاروں پر حاوی نظر آئے جبکہ قیدیوں کے حملے میں 2 اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
پولیس نے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔
دوسری جانب ماڈل ٹاؤن کچہری کے بخشی خانے سے قیدیوں کے فرار ہونے کی ویڈیو نے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی، قیدیوں کو فرار سے روکنے کی پوری طرح کوشش نہ کی، ایک اہلکار قیدیوں سے ڈر کر بھاگتا نظر آیا۔

پی ڈی ایم کا آئندہ سال 23مارچ کو مہنگائی مارچ کا اعلان

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) نے مہنگائی کے خلاف آئندہ سال 23مارچ کو مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں تمام پارٹی سربراہان اور ان کے نمائندوں نے شرکت کی اور اجلاس میں ملک کی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2018 میں الیکشن کے نتیجے میں عوامی مینڈیٹ سے محروم جعلی ووٹ کی بنیاد پر دھاندلی کی پیداوار حکومت معرض وجود میں آئی، یہی وجہ تھی کہ وہ نااہل اور عوامی سپورٹ سے محروم تھی لہٰذا آج وہ ناکامی کا منہ دیکھ رہی ہے لیکن اس کی سزا بھی پوری قوم مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی اور غربت کی صورت میں بھگت رہی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ اس ساری صورتحال میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ 23مارچ کو اسلام آباد میں مہنگائی مارچ ہو گا، پورے ملک کے کونے کونے سے قوم اسلام آباد کی طرف آئے گی اور یہاں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے حوالے سے بہت بڑا مظاہرہ ہو گا جس میں پوری قوم شریک ہو گی۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ اس مارچ کی تیاریوں کے سلسلے میں صوبے کی سطح پر پی ڈی ایم کے اجلاس طلب کیے جائیں گے جس میں حکمت عملی طے کی جائے گی، پنجاب میں شہباز شریف، خیبرپختونخوا میں فضل الرحمٰن، بلوچستان میں محمود خان اچکزئی اور سندھ میں اویس نورانی اس سلسلے میں تیاریوں کے لیے اجلاس طلب کریں گے۔

انہوں نے پی ڈی ایم کی حکمت عملی کے حوالے سے اعتماد میں لینے کے لیے وکلا برادری، سول سوسائٹی اور تجارتی حلقوں کی مشاورت سے بڑا سیمینار منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں اسمبلیوں سے استعفوں کا مسئلہ بھی زیرغور آیا کیونکہ اصولی طور پر اس حوالے سے اتفاق رائے موجود ہے لیکن یہ کارڈ ہم نے کب اور کس طرح سے کرنا ہے اس کا فیصلہ ہم اپنے وقت پر اپنی مرضی سے کریں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اجلاس کے تمام اراکین نے واقعہ سیالکوٹ کی بھرپور مذمت کی، قانون کو ہاتھ میں لینے کا کسی بھی شہری کو حق نہیں پہنچتا، آئندہ اس طرح کے واقعے کی روک تھام ہونی چاہیے اور اس قسم کے واقعات کی کسی بھی پہلو سے حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔

23 مارچ کو اسلام آباد میں پریڈ کے باوجود اجلاس بلانے کے سوال پر پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ ہم بھی قوم کا حصہ ہیں اور یہ قومی سطح کا مسئلہ ہے، اس ملک کا کوئی ایک مالک نہیں بلکہ قوم مالک ہے، 23مارچ کو یوم جمہوریہ ہے اور ہم یوم جمہوریہ پر قوم کے مسائل کے لیے اسلام آباد میں ہوں گے۔

جب ان سے سوال کیا گیا پچھلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ آپ کے ساتھ ہاتھ کر گئی تھی اور جو وعدے کیے تھے کہ وہ پورے نہیں کیے تھے تو اس پر مولانا فضل الرحمٰن نے جواب دیا کہ اُس وقت فیصلہ ہم نے کیا تھا، اب پی ڈی ایم نے کیا ہے تو اس میں بڑا فرق ہے۔

پی آئی اے نے پاکستان سے سعودی عرب کیلئے ہفتہ وار پروازوں کی تعداد 48 کر دی

تفصیلات کے مطابق  پی آئی اے نے مسافروں کی سہولت کے لئے پاکستان سے سعودی عرب کی مزید پروازوں کیلئے اجازت حاصل کرلی ہے۔

 ترجمان پی آئی اے کے مطابق پی آئی اے نے سعودی عرب میں پاکستانی سفیر جنرل بلال اکبر کی مدد سے اضافی پروازوں کی اجازت حاصل کی۔ پی آئی اے کے کنٹری مینیجر سعودی عرب جان محمد مہرنے جنرل اتھارٹی برائے سول ایوی ایشن کے اعلی عہدیدار علی رجب سے اضافی پروازوں کے سلسلے میں ملاقات کی۔

چیف ایگزیکٹو آفیسر پی آئی اے کی ہدایات کی روشنی میں پی آئی اے نے ہفتہ وار پروازوں کی تعداد 33 سے بڑھا کر 48کردی۔ اب پی آئی اے پاکستان سے سعودیہ عرب کی ہفتہ وار 48 پروازیں آپریٹ کرے گی۔ ان پروازوں میں 8 دمام، 8 مدینہ، 9 ریاض اور 23 جدہ کی پروازیں شامل ہوں گی۔پروازوں کا مقصد کویڈ پابندیوں میں نرمی کے بعد زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو روزگار پر واپس پہنچانا ہے۔

چیف ایگزیکٹو آفیسر ائر مارشل ارشد ملک نے کہا ہے کہ پی آئی اے ہمیشہ پاکستانیوں کی سفری ضروریات پوری کرنے میں پیش پیش رہتی ہے اور اگر مزید ضرورت پڑی تو ہم سعودی برادرانہ حکومت سے مزید پروازوں کی اجازت حاصل کرلیں گے۔

آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ، نیوزی لینڈ کی تنزلی کے بعد دوسری پوزیشن

آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں تنزلی کے بعد نیوزی لینڈ ٹیم دوسری پوزیشن پر چلی گئی ہے۔

بھارت کے ہاتھوں دو ٹیسٹ میچز کی سیریز میں شکست کے  بعد نیوزی لینڈ کی ایک درجے تنزلی  ہوگئی ہے۔

بھارتی ٹیم نے ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔

رواں ہفتے ایشیز سیریز میں مدمقابل ہونے والی آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیمیں بالترتیب تیسری اور چوتھی پوزیشن پر موجود ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان پانچویں ، جنوبی افریقا چھٹی ، سری لنکا ساتویں، ویسٹ انڈیز آٹھویں، بنگلہ دیش نویں اور زمبابوے دسویں پوزیشن پر موجود ہے۔

پی ڈی ایم کا اجلاس ، لانگ مارچ اور استعفوں سے متعلق امور پر غور

پی ڈی ایم کے اجلاس میں لانگ مارچ اور استعفوں سے متعلق امور پر غور کیا جائے گا۔

مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں لانگ مارچ اور استعفوں سے متعلق سٹیئرنگ کمیٹی کی سفارشات پر غور کیا جائے گا۔

اجلاس میں لانگ مارچ اور استعفوں کے حوالے سے وقت اور تاریخ کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا ، ان ہاؤس تبدیلی اور پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم شمولیت کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔

اس کے علاوہ لانگ مارچ سے پہلے چاروں صوبوں میں کنونشن اور احتجاجی جلسے کرنے کی تجویز زیر غور آئے گی۔

پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں کمی

تفصیلات کے مطابق انٹربینک میں ڈالر  29 پیسے سستا ہوا ہے اور کاروبار کی بندش پر انٹربینک میں ایک ڈالر 176.48 روپے کا رہا۔

اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں ایک روپے کی کمی ہوئی ہے جس کے بعد ڈالر کا بھاؤ  178.50روپے ہوگیا ہے۔

نائیجر میں فوج اور مسلح باغیوں سے جھڑپ میں 100 سے زائد ہلاکتیں

نائیجر کے مغربی صوبے میں مسلح باغیوں اور فوج کے درمیان گھمسان کی جھڑپ ہوئی جس میں 27 فوجی اہلکار سمیت 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق نائیجر کے علاقے تیلابیری کے ضلع تیرا میں مسلح افراد نے فوجی اڈے پر حملہ کردیا۔ فوج اور جنگجوؤں میں گھمسان کی جھڑپ ہوئی۔
خونی جھڑپ میں نائیجر فوج کے 27 اہلکار ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں 4 زخمیوں کی حالت نازک ہونے کے سبب ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
نائیجر فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ جوابی کارروائیوں میں 95 سے زائد حملہ آور ہلاک ہوگئے جب کہ فرار ہونے والوں کی گاڑیاں اور اسلحہ قبضے میں لے لیا۔ آزاد ذرائع سے نائیجر فوج کے دعوے کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
تاحال کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم اس علاقے میں داعش کافی متحرک ہے اور سرکاری سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث رہی ہے.

انتہا پسندی کسی ایک جماعت کا مسئلہ نہیں، سیالکوٹ واقعہ پر سب متحد ہیں، فواد چودھری

اسلام آباد (ویب ڈیسک) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چودھری فواد حسین نے کہا ہے کہ انتہائی پسندی کسی ایک جماعت کا مسئلہ نہیں ، تمام سیاسی رہنما انتہائی پسندی کی حساسیت سے آگاہ ہیں ، سیالکوٹ واقعہ پر ہم سب متحد ہیں ،پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں معتدل مزاج کے لوگ ہیں، یہی پاکستان کے آگے بڑھنے کی امید ہے،سیاست تب ہوگی جب ہمارے ہاں امن و امان ہوگا، سیاست اور جمہوریت کے لئے امن ضروری ہے، کامیاب جوان سپورٹس ڈرائیو پروگرام میں 15 سے 25 سال کے نوجوان شامل ہیں،وزیراعظم مشعل جلا کر سپورٹس میلے کا آغاز کریں ۔ اتوار کو یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہاکہ سیالکوٹ واقعہ پر ہم سب متحد ہیں۔ انہوںنے کہاکہ انتہاءپسندی کسی ایک جماعت کا مسئلہ نہیں، تمام سیاسی رہنما انتہاءپسندی کی حساسیت سے آگاہ ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں معتدل مزاج کے لوگ ہیں، یہی پاکستان کے آگے بڑھنے کی امید ہے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان نے سری لنکا کی قیادت کو ٹیلیفون کر کے سانحہ پر افسوس کا اظہار کیا۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ پاکستان کے عوام اور سیاسی قیادت نے سانحہ پر ردعمل کا اظہار کیا، بحیثیت قوم ہم انتہاءپسندی سے نمٹنا چاہتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ احسن اقبال، مصطفی نواز، مولانا فضل الرحمان کا سانحہ پر ردعمل اس بات کا اظہار ہے کہ ہمارے ہاں ایسی سیاسی لیڈر شپ موجود ہے جسے اس خطرے کا احساس ہے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ پاکستان ایک پروگریسو ملک ہے، ہمارے ادارے اور جمہوریت مضبوط ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ سیاست تب ہوگی جب ہمارے ہاں امن و امان ہوگا، سیاست اور جمہوریت کے لئے امن ضروری ہے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ کامیاب جوان سپورٹس ڈرائیو پروگرام میں 15 سے 25 سال کے نوجوان شامل ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ کامیاب جوان پروگرام اور وزارت بین الصوبائی پروگرام کا یہ شاندار ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ہے جس میں 6 ہزار ایتھلیٹس حصہ لے رہے ہیں،۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ وزیراعظم مشعل جلا کر سپورٹس میلے کا آغاز کریں گے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ ہر ڈویژن کو ریجن ڈیکلیئر کر کے ٹیمیں بنائی ہیں، تقریباً سات بڑے کھیل اس میں شامل ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ 3300 نوجوانوں کے علاوہ 2700 لڑکیاں بھی اس پروگرام میں حصہ لے رہی ہیں جو خوش آئند ہے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ ملک کی سیاست اور معیشت سمیت کھیلوں میں لڑکیاں برابر کی حصہ دار ہیں، اس ایونٹ سے پاکستان کے نوجوانوں کو مواقع میسر آئیں گے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ جب ہماری سیاست اور معیشت میں تنزلی آئی تو سپورٹس بھی تنزلی کا شکار ہوئی، طویل عرصے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کارکردگی دکھا رہی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ ہماری اولمپکس کی کارکردگی پر بہت تنقید ہوئی تھی، ہاکی اور سکواش تقریباً ختم ہو گئی تھی۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ کامیاب جوان سپورٹس ڈرائیو پاکستان کے تحت پاکستان کے تمام ڈویژنز کو ریجنز ڈیکلیئر کر کے یہاں آنے کا موقع دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ حکومت کھیلوں کے فروغ کے لئے نوجوانوں کے پیچھے کھڑی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ کھیل ہی واحد راستہ ہے جس سے ہم اپنی نوجوان نسل کو صحیح راستے پر گامزن کر سکتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ کامیاب جوان سپورٹس ڈرائیو کے آغاز پر معاون خصوصی عثمان ڈار اور وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔اس موقع پر عثمان ڈار نے کہاکہ مائیکل اوون نے اعلان کیاہے کہ کامیاب جوان سپورٹس پروگرام کا حصہ بنوں گا،24 فٹبالر کامیاب جوان سپورٹس پروگرام کے زریعے باہر ٹریننگ کرنے جائیں گے۔عثمان ڈار نے کہاکہ یو این ڈی پی کے مطابق ترانوے فیصد تک نوجوانوں کو کھیلوں تک رسائی حاصل نہیں،جن نوجوانوں کو کھیل کا مواقع نہیں ملتے ان کے لیے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام رکھا ہے۔ عثمان ڈار نے کہاکہ کامیاب جوان سپورٹس پروگرام کے لیے آن لائن رجسٹریشن شروع ہوگئی ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ہونے جارہا ہے، سندھ حکومت کو بھی کامیاب جوان سپورٹس پروگرام میں ہمارے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا نے کہاکہ طلحہ طالب اور ارشد ندیم کو پہلے بھی فنڈنگ کی تھی اور آگے بھی کریں گے، ہر کھیل میں پاکستان کے پاس باصلاحیت نوجوان ہیں لیکن پھر بھی کیوں انہیں موقع نہیں ملتا۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ جو اصلی سپورٹس فیڈریشن ہیں ان کے ساتھ ضرور کام کریں گے۔ عثمان ڈار نے کہاکہ جب تک نوجوانوں کو کھیلوں کی طرف راغب نہیں کریں گے تب تک سیالکوٹ جیسے واقعات کو نہیں روکا جاسکے گا۔

5 ارب پاکستانی، 6سو ارب بھارتی ، ایک ہزار ارب ڈالر امریکی امداد، افغانستان کے حالات نہ بدلے

وزیراعظم عمران خان صاحب نے طالبان کی افغانستان کی حکومت کو زندگی گزارنے کیلئے ضروری اشیاءکی شکل میں 5 ارب روپے کی مدد کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف اسی ایک وقت میں آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالر کے فنڈز بھی جاری کرنے کا اعلان کر دیا ہے، لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔ اب ایک ایسا ملک جو اسی ایک وقت میں اپنے معاشی حالات کو بچانے کے لیے آئی ایم ایف سے شرائط کے ساتھ فنڈنگ لے رہا ہے اور اسی ایک وقت میں طالبان کی حکومت کی مدد کا بھی اعلان کرتا ہے۔ کیا یہ صورتحال معمول کے مطابق ہے یا حالات کے بالکل برعکس۔ اس معاملے میں پاکستانیوں کا خیال شاید اس کے خلاف ہی ہو، لیکن دوسری طرف حکومت پاکستان کی مجبوری بھی ہے کہ 20 سال بعد افغانستان میں ایک ایسی حکومت آئی ہے جس کے بارے میں دنیا کو یقین ہے کہ شاید پاکستان سے زیادہ طالبان کے قریب کوئی اور ملک نہ ہو، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ پچھلے 20 سالوں میں دنیا بھر سے خاص طور پر امریکہ کی طرف سے جتنی مالی امداد افغانستان کی ہوئی ہے دنیا کے کسی اور ملک کی نہیں ہوئی ہے، میں اس پر بعد میں کچھ اور شوز بھی کروں گا کہ افغانستان کو پچھلے 20 سالوں میں کہاں کہاں سے کتنی مالی امداد ملی ہے اور پھر ان سینکڑوں، ہزاروں ارب ڈالروں کے ساتھ کیا ہوا۔ ماشاءاللہ ان ہزاروں اربوں ڈالرز کے ساتھ وہ کچھ ہوا جو دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہو سکتا۔ سب کو پتہ تھا کہ ان ہزاروں، اربوں ڈالرز کے ساتھ افغانستان میں کیا ہوا، امریکہ کو بھی پتہ ہے۔ امریکہ کی کانگریس کو بھی پتہ ہے، لیکن خاموشی سے منہ دوسری طرف کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ میں تو خیر اس پر آنے والے وقتوں میں شوز کروں گا، لیکن آج ایک ایسے ملک کی سینکڑوں، اربوں روپے کی مالی امداد کی بات کروں گا جس کو افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت کے 2001ءمیں ختم ہونے سے لے کر 2021 ءمیں طالبان کے دوبارہ حکومت سنبھالنے کے دوران 600 ارب روپے کی مدد کرنی پڑ گئی تھی۔ وہ ملک انڈیا ہے، انڈیا کے لیے بڑے عرصے کے بعد 2001ءمیں افغانستان میں دل کھول کر مالی امداد کرنے کا موقع ملا تھا کیونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت نہیں تھی۔اور ایسی حکومت تھی۔ جس کا انڈیا کو پاکستان کی نسبت بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوگیا تھا لیکن طالبان کے دوبارہ واپس آنے کے بعد انڈیاکی افغانستان میں 600 ارب روپوں کی فنڈنگ۔ اب خود انڈیا کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی اب جو کچھ بھی افغانستان میں انڈیا کی مالی امداد اور سرمایہ کاری ہوئی ہے وہ تو اب طالبان کی مرضی کے مطابق ہی چلیں گے۔ ویسے تو پاکستان کے 5 ارب روپوں کی مدد تو انڈیا کے 600 ارب روپوں کی مدد کے سامنے کچھ نہیں ہے لیکن اگر خدانخواستہ انڈیا کے طرح کے حالات کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑ گیا تو پھر کیا ہوگا۔طالبان کی حکومت کے استحکام کے بارے میںتو وزیراعظم عمران خان صاحب بھی اپنی غیریقینی کا اظہار کرچکے ہیں۔پاکستان کی نسبت انڈیا کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے ترقی پذیر ممالک کی مد کرتارہتا ہے ویسے تو پوری دنیا سے زیادہ غریب لوگ دو ملکوں میں رہتے ہیں ایک چین دوسرا انڈیا۔ لیکن چین اور انڈیا دونوں کی یہ پالیسی بن چکی ہے کہ جیسے ہی کوئی سبب بنے یا حالات کی کروٹ انہیں مجبور کردے کہ وہ کسی ترقی پذیر ملک کی مدد کو آجائیں۔ پاکستان کی فی الحال ایسی کوئی مجبوری یا پالیسی نہیں ہے۔ انڈیا نے 2001 ءسے 2021ءکے 20 سالوں کے دوران جن تین ممالک کی سب سے زیادہ مالی مدد کی ہے وہ بھٹو ان‘ افغانستان اور نیپال ہیں۔ 4 ہزار ارب روپوں کی مدد بھٹو ان کو 600 ارب روپوں کی مدد افغانستان کو اور 500 ارب روپوں کی مدد نیپال کو۔ بھوٹان اور نیپال کی بات تو ایک طرف رکھ دی جائے۔ بات ہوگی افغانستان کی جہاں انڈیا نے 600 ارب روپوں کی مالی مدد کی تھی۔ پچھلے بیس سالوں کے دوران انڈیا نے افغانستان میں بے شمار منصوبے تعمیر کروائے جن میں تین منصوبے ایسے تھے جس کا افتتاح انڈیا کے وزیراعظم نریندرا مودی اورافغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے اکٹھے ہی کیا تھا۔ افغانستان کی پارلیمنٹ کی عمارت افغانستان انڈیا فرینڈ شپ ڈیم کی تعمیر اور افغانستان کی وزارت خارجہ کی عمارت میں سٹور پیلس کی تعمیر یہ وہ تین منصوبے تھے جن کا افتتاح مودی صاحب نے اور اشرف غنی صاحب نے اکٹھے کیا تھا۔افغانستان انڈیا کی طرف سے مالی مدد حاصل کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ جبکہ افغانستان کی مالی مدد کے حوالے سے انڈیا پانچویں نمبر پر آنے والا ملک ہے اور اس ریجن کا سب سے بڑا ملک۔ انڈیا کی طرف سافغانستان کو 600 ارب روپوں کی مالی مدد اصل میں انڈیا کی طرف سے ڈویلپمنٹ پارٹنر والی پالیسی ہے۔ ویسے تو انڈیا 2001ءکے بعد سے ہی افغانستان کی مالی مدد کرنا شروع کر دی تھی لیکن 2014ءکے بعد تو مالی امداد میں اضافہ ہوگیا تھا جس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو 2014ءمیں افغانستان می انتخابات ہوئے تھے اور 2014ءہی میں انڈیا میں انتخابات ہوئے تھے۔ 2014ءمیں انتخابات میں ک امیابی حاصل کرنے کے بعد اشرف غنی کی حکومت کی پالیسی پاکستان کی طرف جھکتی نظر آئی۔ اشرف غنی چاہتے تھے کہ شاید پاکستان کے ساتھ معاملات ٹھیک ہوجائیں۔ دوسری وجہ مغربی ممالک کا افغانستان میں اپنی افواج میں کمی اور مالی امداد میں کمی تھی۔ ان دو صورت حال میں انڈیا کی مالی امداد میں اضافہ ہوا۔ غالباً انڈیا کو پتہ تھا کہ اشرف غنی صاحب کی پاکستان کے ساتھ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ دوسری یہ کہ افغانستان میں مغربی ممالک کی افواج اور مالی مدد میں کمی سے افغانستان انڈیا کے زیادہ قریب آجائے گا۔ انڈیا اس وقت ٹھیک سوچ رہا تھا۔ چاہ بہار پراجیکٹ کا بڑا چرچا رہا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے حوالے سے ۔ انڈیا نے چاہ بہار کو ایران اور افغانستان کو ملانے والی مہنگی ترین دلارام‘زارنج سڑک بنوائی جس سے دو مقاصد حاصل ہوئے تھے۔ ایک تو افغانستان کو ایران کے ساتھ سڑک کے ذریعے ملانا۔ دوسرا انڈیا کا اسی شاہراہ کے ذریعے اپنی ایکسپورٹ اور امپورٹ کیلئے پاکستان کے روٹ کا مرہون منت نہ ہونا تھا۔ انڈیا نے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ذریعے افغانستان میں وٹا من سے بھرپور بسکٹ بھجوانے کا بندوبست کیا جس کا مقصد افغانستان کے 20 لاکھ بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر بسکٹ کی سپلائی تھی اور یہ بسکٹ افغانستان کے32 صوبوں کیلئے تھی۔ انڈیا نے افغانستان کا 97×65 فٹ لمبا اور چوڑا جھنڈا بھی تیار کیا تھا اور یہ جھنڈا اس وقت تحفے میں دیا گیا تھا جب اشرف غنی پاکستان کی طرف کسی امید کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ اس جھنڈے کو لہرانے کےلئے 200 فٹ لمبا فلیگ پول تیار کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ انڈیا نے افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے انڈیا میں ہوم گراﺅنڈ بھی فراہم کی تھی۔ جہاں افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے اپنے میچ ہوم گراﺅنڈ کے طور پر کھیلا کرتے تھے۔ انڈیا نے افغانستان کی اربن ٹرانسپورٹ کو مضبوط کرنے کے لئے 400 بسیں‘200 منی بسیں اور 105 یوٹیلیٹی کاریں بھی دی تھیں۔ اس کے علاوہ انڈیا نے افغانستان نیشنل آرمی کے لئے 285 ملٹری وہیکل اور 10 ایمبولینسیں بھی دی تھیں۔ اس کے علاوہ انڈیا نے افغانستان ایئر لائن ایرینا کو بھی انڈیا ایئر لائن کے تین جہاز بھی دیئے تھے۔ انڈیا نے افغانستان کی فضائیہ کو بھی مضبوط کرنے کیلئے بڑا کام کیا تھا۔انڈیا ٹیکنیشن نے افغانستان کی فضائیہ کو بھی سروسز کی تھیں اور خاص طور پر MIG-21 اور دوسرے روسی فضائی آلات کے لئے۔ اس کے علاوہ 454 سمال ڈویلپمنٹ پراجیکٹس بھی 2006ءاور2012ءکے درمیان تعمیر کئے تھے۔مجموعی طور پر انڈیا نے افغانستان میں 50 ہسپتال، کلینکس، بیسک ہیلتھ یونٹس، 500 کے قریب انسٹیٹیوٹ، سکول، کلاس رومز 4000 میل سے زیادہ سڑکیں،8 پل، 600 واٹر ٹینک، بورویلز، تتین سپورٹس سٹڈیم، 22 ملین کینال اِن ٹیک اور 3000 میل کی پائپ اسکیمیں افغانستان کے 34 صوبوں میں تعمیر کرائی تھیں۔ انڈیا اور افغانستان نے ڈائریکٹ ایئرکوریڈور بھی Crlablnh کر لیا تھا۔ جس کا سلسلہ 60 ٹن کارگو کابل سے دہلی جانے شروعہوا تھا۔ بعد میں ایئرکوریڈور کو قندھار، دہلی تک بڑھا دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 10 لاکھ ٹن گندم بھی انڈیا نے افغانستان کو سپلائی کی تھی۔افغانستان کی دوبارہ آباد کاری اور تعمیر میں امریکہ نے بھی انڈیا کے ساتھ مل کر کافی کام کئے تھے۔ بلکہ انڈیا کو اگر افغانستان سے کسی کام میں سب سے زیادہ فائدہ ہوا وہ یہی تھی۔ امریکہ اور دیگر ممالک کی طرف سے افغانستان کی نئے سرے سے تعمیر کے لئے 1000 ارب ڈالر خرچ کئے گئے۔اس سلسلے میں امریکی کمپنیوں کو ٹھیکہ ملتا تھا۔ اور امریکی کمپنیاں انڈین کمپنیوں کو Sub lentaet کر دیا کرتی تھیں۔ اس کو De feeto- trawyulan gcopenatin کہتے ہیں۔ یعنی کہ کسی بھی بدلے پراجیکٹ کا ٹھیکہ کسی امریکی کمپنی کو دیا گیا اور اس امریکی کمپنی نے اس پراجیکٹ کی Artical تعمیر کے لئے وہی پراجیکٹ کسی انڈین کمپنی کو دے دیا۔ اس طرح سے دونوں امریکی کمپنیاں اور انڈین کمپنیاں فائدے میں رہی تھیں۔ اس کے علاوہ انڈیا کا افغانستان کی مالی مدد کے لئے Indian Technical And Economie Corperation (ITEC) کا تعاون حاصل رہا۔ ITEC کے ذریعے افغانستان کے 8000 سے زائد بیورو کریٹس، سرکاری ملازم، پرائیویٹ لوگ اور طلبا/ طالبات انڈیا میں آ کر یا پھر انڈین ایکسپرٹس افغانستان جا کر تکنیکی تربیت حاصل کرتے تھے۔ ITEC کے ذریعے ہی انڈیا نے ہزاروں سکالر شپ بھی جاری کیں۔ جن میں 3000 سکالر شپ ان طلبا اور طالبات کے لئے تھے۔ جن کے والد جنگ میں مارے جا چکے تھے۔ ITEC کے ذریعے افغانستان کے رہنے والوں کو بڑی آسانی سے انڈین ویزہ مل جایا کرتا تھا۔ اسی ضمنن میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی بھی مستفید ہوئے تھے۔ حامد کرزئی انڈیا کے ہماچل پردیش یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے حامد کرزئی کم از کم چودہ مرتبہ انڈیا کا دورہ کیا۔ اس کے علاوہ بیسیوں مرتبہ غیر سرکاری طور پر اپنی فیملی اور دوستوں کو بھی ملنے انڈیا جاتے رہے۔

اپوزیشن تمام ہتھیار آ زمائے گی، ان ہاﺅس تبدیلی کا بھی آپشن ہے، شہباز شریف

لاہور(ویب ڈیسک) مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ تحریک انصاف اور پاکستان اکٹھے نہیں چل سکتے، اپوزیشن تمام آئینی سیاسی اور قانونی ہتھیار بروئے کار لائے گی اور قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔پریس کانفرنس میں شہباز شریف نے کہا سیالکوٹ واقعہ سے سر شرم سے جھک گئے، حکومت اس واقعہ کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دے۔ ماضی میں ایسے واقعات ہوئے تو اسے سیاسی رنگ دیا گیا لیکن ہم نے نہ صرف اس واقعہ بلکہ ماضی قریب میں بھی اس طرح کے کسی واقعہ کو کبھی سیاسی رنگ نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ معاشی تباہی جاری رہی تو خدانخواستہ پاکستان کو خطر ات لاحق ہو سکتے ہیں۔ کورونا نے صرف پاکستان نہیں پوری دنیا میں تباہی مچائی ہے، لیکن آج مہنگائی کے حوالے سے پاکستان دنیا کی فہرست میں تیسر ے نمبر پر ہے۔ اگر جنگی بنیادوں پر کام نہ کیا گیا تو پھر ہمیں تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتاشہباز شریف نے کہا کہ۔آئی ایم ایف کی نئی شرائط نے پوری قوم کو گلے سے جکڑ لیا ہے، قوم کے ہاتھ اور پا¶ں زنجیر سے باندھ دیئے ہیں۔ ہمسایہ ملک80ءکی دہائی میں آئی ایم ایف کے پاس گیا اور آج تیس سال ہو گئے ہیں اس نے اس سے جان چھڑ الی ہے۔ حکومت نے انتالیس مہینوں میں71سالہ تاریخ کا 70فیصد قرضہ لے لیا۔ ہمیں بھی ورثے میں قرضے ملے لیکن ہم نے نہ صرف ادائیگی کی بلکہ دس ہزار میگا واٹ بجلی کے منصوبے لگائے، روڈ انفراسٹرکچر بنایا۔ اگر بلین ٹری منصوبہ سچ ہوتا تو آج سموگ نہ ہوتی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے قرضوں پرکمیشن بنایا تھا لیکن اس کی رپورٹ نہیں آئی، ہمارے ادوار میں قرضوں میں کرپشن نہیں ملی اگر ملتی تو یہ رات بارہ بجے بھی لوگوںکو اٹھا کر اس کا بتاتے۔ تجارتی خسارہ 23 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے، صورتحال کو فی الفور کنٹرول کرنے کیلئے اجتماعی اذہان کو جمع کرنا ہوگا۔ یہ تاریخ کی بدترین نااہل، نا تجربہ کار اور کرپٹ حکومت ہے۔صدر ن لیگ نے کہا کہ دھاندلی کی پیداوار سلیکٹڈ حکومت کی بد ترین گورننس نے ہر چیز کوتہ و بالا کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے احکامات پر قوم کو غلام بنا رہے ہیں۔ اگر فی الفور کوئی اجتماعی فیصلہ نہ ہوا تو پاکستان کے مفاد کو سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے، پھر آپ کو دفاع کو بھی قرضے لے کر فنانس کرنا پڑے گا۔ ایک سے زیادہ آئینی سیاسی آپشنز ہوتے ہیں اور ہم اس کے مطابق حکمت عملی بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر مشاورت نہیں کی، اگر آر ٹی ایس بند ہو سکتی ہے تو ای وی ایم بند ہو سکتی ہے۔ اوورسیز ہمارے سروں کے تاج ہیں انہیں ووٹ کا حق دینے کے طریقہ کار پر اختلاف ہے حکمران بدنیتی سے دھاندلی کے ذریعے ووٹوں کو بکسوں میں ڈلوانا چاہتے ہیں۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کریں۔ جو ہمیں دن رات چور اور ڈاکو کہتے ہیں پتہ چلے انہوں نے کس طرح بھارت اور دوسرے ممالک سے فنڈ ز لئے۔ حکومت دروغ گوئی میں سب سے آگے ہے ان کا جھوٹ بولنے اور یوٹرن لینے میں کوئی ثانی نہیں، انہوںنے ملک کا کباڑہ کر دیا،معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ عمران خان حکومت کو ایماندار کہنا سفید جھوٹ ہے۔