Tag Archives: colam nigar.jpg

پاناما جیسے معاملات ملک میں ہوں تو پارلیمنٹ ایکشن لیتی ہے

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام ” کالم نگار “ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف کالم نویس جاوید کاہلوں نے کہا ہے کہ اگر کسی مجرم خاندان میں شرم نام کی کوئی چیز نہ رہے تو وہ سارے نظام کو بے شرم کہنا اپنا حق سمجھتا ہے ، نوازشریف کو کسی فوجی آمر نے نہیں نکالا بلکہ وہ سپریم کورٹ کے قانون کے تحت حکم پر نکالے گئے ہیں، ن لیگ کا خیال تھا کہ نوازشریف عوام میں جاکر کہیں گے ” مجھے کیوں نکالا“ تو لوگ دھاڑیں مارتے ساتھ چل پڑیں گے جو بالکل غلط ثابت ہوا، ہماری پارلیمنٹ نے خود کو مذاق بنا رکھا ہے ، پانامہ جیسے کیسز جمہوری ملک میں آئیں تو پارلیمنٹ ایکشن لیتی ہے اور خود کیس کو عدالت میں بھجواتی ہے، اب بھی مردم شماری اور حلقہ بندی کے عام سے عاملہ پر قانون سازی نہ کرکے پارلیمنٹ اپنا مذاق بنا رہی ہے، ملک اور پارلیمنٹ اگر چل نہ پائے تو ایسے حالات میں الیکشن کی جانب جانا چاہئے، پاک فوج پر تنقید کیلئے امریکہ میں باقاعدہ بجٹ رکھا جاتا ہے ، سینئر تجزیہ کار جنرل (ر) زاہد مبشر نے کہا کہ عدالت کے فیصلے مانے جائیں تو انارکی پھیلتی ہے ، طالبان بھی تو یہی کہتے تھے کہ قانون کو نہیں مانتے تو پھر لیگی قیادت اور طالبان میں کیا فرق ہے، سپریم کورٹ نے نوازشریف کے تمام سوالوں کا تسلی بخش جواب دیا ہے، وفاقی وزراءریاست کے نمائندے ہوتے ہیں، انکا ایک نااہل قرار پائے شخص کیساتھ کھڑے ہونا شرمناک عمل ہے، شریف خاندان اصل میں ملک قیوم جیسے جج اور عدالتیں چاہتا تھا جو نہ ملنے پر عدالتوں کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آیا ہے ، یہ موجودہ دور 99کا نہیں ہے نہ ہی وہ عدالتیں ہیں ، اب تمام ادارے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرینگے، اب آئین و قانون کو اپنے مفاد کے تحت استعمال نہیں کیا جاسکتا، شریف خاندان عدلیہ کیخلاف بیان بازی کرکے اپنے لئے مزید مشکلات کھڑی کررہاہے، جس کااسے وقت آنے پر پتہ چلے گا، شاہد خاقان عباسی نے بطور وزیراعظم اچھا کام کیا تاہم انہیں ادراک کرنا چاہئے کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں ن لیگ کے نہیں کوئی بیان بھی سوچ سمجھ کر دینا چاہئے، سینئر صحافی خالد چوہدری نے کہا کہ موجودہ ملکی صورتحال میں نوازشریف کا کیس بھی سیاسی بنتا دکھائی دیتا ہے ، ہمیں قانون کی بالادستی کو تسلیم کرنا چاہئے تاہم سیاستدانوں کی جانب سے اٹھایا سوال کہ کیا احتساب صرف سیاستدانوں کا یہ ہوگا بھی اہم ہے ، پرویز مشرف کیخلاف کیسز کیوں نہیں چلائے جاتے ، ریڈ وارنٹ کیوں جاری نہیں ہوتا ، اگر ایسا ہوگا تو پھر حقیقی کیسز بھی سیاہ رنگ اختیار کرینگے، متحدہ اور بی ایس پی کا اتحاد بتاتا ہے کہ سیاستدان اس حقیقت کو سمجھ رہے ہیں کہ آپس کے اختلافات سے سیاسی نظام کو نقصان پہنچ رہاہے، نوازشریف کے عدلیہ بارے الفاظ اور ن لیگ کی قرارداد بتاتی ہے کہ عدلیہ کیخلاف کھلی جنگ کا آغاز کردیاگیاہے، عدالت بھی بعض چیزوں پر نرم رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ، کبھی نوٹس نہیں لیا کہ نااہل شخص کو سرکاری پروٹوکول کیوں دیا جارہاہے، عدلیہ کی تاریخ بھی کوئی قابل فخر نہیں رہی ہے ، موجود ہ حالات میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانا چاہئے اور تمام اہم ایشوز پر فیصلے کرنے چاہئیں، بدقسمتی سے کرپشن اوپر سے نیچے تک ہر ادارے میں سرائت کرچکی ہے ، جمہوریت کو چلنا چاہئے اگر اسے نقصان پہنچا تو ملک کا نقصان ہوگا، تجزیہ کار مکرم خان نے کہا کہ 85سے آجتک نوازشریف کے بے شمار سکینڈل سامنے آچکے ہیں، نظرثانی اپیل پر عدالت نے بڑی وضاحت سے فیصلہ جاری کیا ہے، نوازشریف کے بیان بتا رہے ہیں کہ عدلیہ سے ٹکراو¿ کی پالیسی اختیار کرلی گئی ہے، نوازشریف اور انکے ساتھیوں کے بیانات بھی اسی لئے ہیں کہ انہیں توہین عدالت میں طلب کیا جائے، شاہد خاقان عباسی کمزور وزیراعظم ثابت ہوئے ، انہیں جمہوری اقدار کا ہی پاس کرنا چاہئے، قائمہ کمیٹی کے مطابق بینظیر بھٹو ایئرپورٹ کا پہلا تخمیہ 37ارب تھا جو بڑھ کر 100ارب تک جا پہنچا ، دیکھنا ہوگا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے ، اس طرح ایک ڈیم کا ٹھیکہ بوگس کمپنی کو دیدیاگیا ، کیس اب نیب کو بھجوایاجارہاہے، کرپشن ہر ادارے میں سرائت کرچکی ہے ، آج تک کوئی شفاف منصوبہ نہیں دیکھا، وزیراعظم سپیکر کو اتنا بھی احساس نہیں کہ قومی اسمبلی کے اجلاس پر قوم کے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں ، جب دل چاہتا ہے اجلاس بلاتے اور برخاست کردیتے ہیں۔

 

مجید نظامی کے بعد پیدا ہونے والا خلا ضیا شاہد نے پورا کیا

 لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے مختلف موضوعات کا احاطہ کرنے والے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار توصیف احمد خان نے کہا ہے کہ لیگی رہنما لندن میں سرجوڑے بیٹھے ہیں۔ نواز شریف کی عدالت میں پیشی اس وقت ان کےلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لیگی رہنما ذاتی خرچے پر تو لندن نہیں گئے ہونگے۔ پاکستان کے فیصلے تو عموماً امریکہ میں ہوتے ہیں تاہم ان پر عملدرآمد کی ڈیوٹی شاید برطانیہ کی لگائی جاتی ہے۔ اسی لئے ہمارے رہنما برطانیہ جاتے اور وہیں جائیدادیں بنانا پسند کرتے ہیں۔ 1970ءمیں پہلا لندن پلان سامنے آیا تھا جب انٹی بھٹو گروپ وہاں جمع ہوا تھا۔ موجودہ حالات میں وزیراعظم شاہد خاقان کے اعصاب جواب دینا شروع ہو گئے ہیں۔ روزنامہ ”خبریں“ کے قیام کو 25 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ ضیاشاہد ایک ورکنگ جرنلسٹ تھے اور ایک ورکنگ جرنلسٹ کا پاکستان میں اخبار نکالنا اور اسے کامیابی سے چلانا ناممکن تھا جسے ضیاشاہد نے ممکن کر دکھایا۔ ضیاشاہد کی حال ہی میں چار پانچ کتابیں شائع ہوئی ہیں ایک کتاب ”قلم چہرے“ تکمیل کے مراحل میں ہے جو تاریخ کے طالبعلموں کےلئے نادر تحفہ ہوگی۔ ضیاشاہد نے زندگی میں بڑے حادثات کا سامنا کیا۔ بیٹا اور داماد دنیا سے رخصت ہوگئے خود انہوں نے طویل بیماری کاٹی مگر کبھی حوصلہ اور ہمیت نہ ہاری اور عزم کے ساتھ صحافتی زندگی کا سفر جاری رکھا۔ معروف کالم نویس اسلم خان نے کہا کہ لندن میں لیگی رہنما اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ نواز شریف کی عدالت سے جان کیسے چھڑائی جائے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو نواز دور میں عدالتوں کے چکر لگوائے جاتے رہے تاہم انہوں نے ہمیشہ عدالتوں کا احترام کیا اور پیشیاں بھگتتی رہیں۔ نواز شریف بھی اب اسی طرح ہمت کریں اور عدالتوں کا سامنا کریں۔ مریم نواز 4 سال تک بغیر کسی عہدے کے حرکت کرتی رہیں ہیں۔ غیر فطری چیزیں نہیں چل سکتیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شاہد خاقان کب تک معاملات کو لیکر چلتے ہیں۔ نواز شریف اللہ کی پکڑ میں آئے ہیں۔ نواز شریف، شاہد خاقان اور جنرل باجوہ کی بھی تثلیث ہے۔ شاہد خاقان کے سسر جنرل (ر) ریاض جنرل باجوہ کا رشتہ لیکر جنرل (ر) اعجاز عظیم کے گھر گئے تھے اور رشتہ کرایا تھا۔ شاہد خاقان کے برادر نسبتی عابد ریاض اور جنرل قمر جاوید میں گہری دوستی ہے۔ نواز شریف نے شاہد خاقان کو وزیراعظم بھی اسی لئے بنایا کہ وہ فوج سے معاملات کو ٹھیک چلا سکتے ہیں۔ ضیاشاہد سے میرا بڑی محبت کا ر شتہ رہا ہے وہ بڑے فراخ دل، محبت کرنے والے اور پناہ دینے والے ہیں۔ موجودہ وقت میں بھی ضیاشاہد ہی ہیں جنہوں نے پاکستان کا جھنڈا تھام رکھا ہے کسی اور میں یہ ہمت دکھائی نہیں دیتی۔ مجید نظامی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو ضیاشاہد نے پر کیا ہے۔ چیئرپرسن پلاک ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کہا کہ لندن میں پہلی بار سیاسی رہنما اکٹھے نہیں ہوئے ماضی میں کئی بار لندن میں پلان بنتے رہے ہیں۔ لیگی رہنماﺅں کا وہاں اکٹھے ہوننا اچنبھے کی بات نہیں ہے ان کا لیڈر وہاں ہے تو اس سے مشاورت تو کرینگے۔ عدالتوں کو ڈکٹیٹروں نے بھی کبھی سنجیدہ نہیں لیا۔ انصاف سب کےلئے برابر ہونا چاہیے۔ احتساب وزیراعظم سے شروع ہوا ہے تو باقی سب کو بھی پکڑا جانا چاہیے۔ پھر ہی عوام کا اعتماد بحال ہو گا صرف ایک شخص کا احتساب ہوا تو عوام میں اس کےلئے ہمدردی پیدا ہوگی۔ عمران کی کوشش ہے کہ حکومت رخصت ہو جائے اور انہیں موقع مل جائے۔ ان کے جلسوں کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔ ضیاشاہد کی کتاب ”امی جان“ پڑھی تو پتہ چلا کہ ان کا تعلق ایک پڑھے لکھے اور معتبر گھرانے سے ہے۔ وہ ایک ذہین و فطین آدمی ہیں جنہیں اپنے اخبار اور چینل سے جنون کی حد تک محبت ہے۔ ضیاشاہد نے بیٹے اور داماد کے غم کے باوجود اپنا صحافتی مشن جاری رکھا۔ وہ جس طرح مختلف محاذوں پر ڈٹے نظر آتے ہیں اس طرح کوئی اور صحافی نظر نہیں آتا۔ ضیاشاہد کی شخصیت میں منافقت نہیں ہے اگر وہ ناراض ہوں تو چھپاتے نہیں ہیں۔ معروف تجزیہ کار سجاد بخاری نے کہا کہ اگر لندن میں بیٹھ کر ہی پاکستان کے فیصلے کرنے ہیں تو پھر آزادی حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ نواز شریف کو بچانے کےلئے نہیں ان سے جان چھڑانے کےلئے لندن میں اکٹھے ہوئے ہیں کیونکہ نواز شریف کی وجہ سے حکومت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اگر لیگی رہنما سرکاری خرچ پر وہاں گئے ہیں تو یہ قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ لندن عالمی سیاست کا مرکز ہے۔ نواز شریف تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو مشکل کا شکار خود ہی کیا ہے۔ الیکشن جلد ہونے کے امکانات موجود ہیں، پیپلز پارٹی کی بیڈ گورننس کے باعث تحریک ا نصاف کو ا بھرنے کا موقع ملا اور اس نے ا پنے لئے چانس پیدا کر لیا ہے۔ ضیاشاہد کو صحافتی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے جرنلزم میں نئے ٹرینڈ متعارف کرائے۔ ایک عام صحافی کو طاقتور بنایا۔ ہمیشہ جرا¿ت و بہادری کا مظاہرہ کیا اور جدوجہد کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ اپنی جرا¿ت بہادری اور دلیری سے جرنلزم کے شعبہ کو عزت دلوائی۔ ان سے پہلے جرنلزم کا تاثر مختلف تھا۔ ضیاشاہد کی تحریریں بڑی جاندار اور پرتاثیر ہوتی ہیں۔ ان کی کتابیں پاکستان کی تاریخ ہیں۔ ضیاشاہد کو اپنی بائیوگرافی بھی لکھنی چاہیے۔ وہ ایک سچے اور کھرے آدمی ہیں جنہوں نے زندگی میں سخت محنت کر کے اپنا ایک مقام بنایا ہے۔ ضیاشاہد نے زندگی کے کٹھن سفر میں عام آدمی کی حیثیت سے سفر شروع کیا۔ معمولی کام بھی کئے تاہم آج جب وہ ایک بڑے مقام پر ہیں پھر بھی کبھی ماضی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی اور یہی ایک بڑے آدمی کی پہچان ہے۔

کشمیر کی تحریک نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے ،ناکام بنانا ممکن نہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی توصیف احمد خان نے کہا ہے کہ این اے 4 کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی جیت غیر متوقع ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں حالات کے تقاضے کے مطابق کیسز کھولے اور بند کر دئیے جاتے ہیں۔ چودھری شوگر ملز کیس میں ایک بات تو طے ہے کہ ریکارڈ میں ٹمپرنگ کی گئی اب کس نے ایسا کیا وہ بھی سامنے آ جائے گا۔ 70 سال پہلے بھارت نے بزور طاقت کشمیر پر قبضہ کیا تھا۔ کشمیری 70 سال سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ایک دن کامیاب ہونگے۔ پاکستان میں کرکٹ کی بحالی خوش آئند ہے تاہم عام آدمی کو ٹکٹ نہ ملنے کی شکایات سامنے آ رہی ہیں جن کا ازالہ ہونا چاہیے۔ معروف صحافی خالد چودھری نے کہا کہ جماعت اسلامی پورے ملک میں کہیں بھی اکیلی ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکتی، پنجاب میں اس نے ہمیشہ ن لیگ کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کر کے اسمبلی سیٹیں جیتی ہیں۔ این اے چار میں اے این پی نے پچھلی بار سے ساڑھے سات ہزار زائد ووٹ حاصل کر کے مذہبی جماعتوں کےلئے الارم بجا دیا ہے۔ کے پی کے میں اگلے الیکشن میں مقابلہ اے این پی اور تحریک انصاف میں ہوگا۔ ظفر حجازی کے بارے میں پچھلے دو سال سے سکینڈل چھپ رہے تھے تب تو نیب یا ایف آئی اے نے نوٹس نہ لیا۔ شریف خاندان کےخلاف کیسز پہلی بار تو نہیں ہوئے۔ اگر انہیں پہلے ریلیف دیا گیا تو اب کیوں نہیں دیا جا رہا یہ سب سوالات اٹھتے رہیں گے۔ یہاں ضرورت پڑنے پر برسوں سے سرد خانوں میں پڑے کیسز بھی باہر نکل آتے ہیں اور اصغر خان جیسے کیس جن کا فیصلہ بھی ہو چکا ہے سرد خانے میں ڈال دئیے جاتے ہیں۔ ایسا صرف اس لئے ہوتا ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ بھارت میں آزادی کی بہت سی تحریکیں چل رہی ہیں، اب آزادی کشمیر تحریک کو طاقت سے دبانا ممکن نہیں رہا۔ پاکستان میں خوراک اور دودھ کے نام پر عوام کو زہر دیا جا رہا ہے۔ ایک چیز بھی ملک میں خالص نہیں رہی۔ 50ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کر کے ایک میچ کرانا تو کرکٹ کی بحالی نہیں ہوسکتا۔ سینئر صحافی امجد اقبال نے کہا کہ این اے چار ضمنی الیکشن میں اے این پی کے ووٹ پچھلی بار کی نسبت بڑھے جبکہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ووٹ کم ہوئے ہیں۔ چودھری شوگر ملز کیس میں ریکارڈ ٹمپرنگ ثابت ہوگئی تو شریف خاندان کےلئے مشکلات بہت بڑھ جائینگی۔ بھارت میں اس وقت علیحدگی کی 17 بڑی تحریکیں چل رہی ہیں۔ آزادی کشمیر تحریک عروج پر ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ اس تحریک کو مکمل اخلاقی اور سفارتی سپورٹ مہیا کرے اور پوری دنیا میں اس ایشو کو اٹھائے۔ کشمیر میں علیحدگی کی نہیں آزادی کی تحریک جاری ہے۔ استصواب رائے ان کا حق ہے جو ملنا چاہیے۔ کرکٹ کی بحالی خوش آئند ہے تاہم عوام کےلئے مشکلات کم از کم ہونی چاہئیں۔ تجزیہ کار ہمایوں شفیع نے کہا کہ تحریک انصاف نے اگلے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اسے کے پی کے میں بہت محنت کرنا ہوگی۔ ظفرحجازی ادارے کے سربراہ تھے کیا ان کے علم میں نہیں تھا کہ ریکارڈ ٹمپرنگ کیا جا رہا ہے۔ ہمارے سراغ رساں اداروں کو اتنی مہارت حاصل ہو گئی ہے کہ وہ کہیں بھی کی گئی ٹمپرنگ کو پکڑ سکتے ہیں۔ کشمیر میں 70 سال سے آزادی کی تحریک جاری ہے۔ بھارت کے اپنے مفاد میں اب یہی بہتر ہے کہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیدے ورنہ اس کےلئے نتائج بڑے خوفناک بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ کشمیر میں آزادی کی تحریک اب نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے، اسے کبھی ناکام نہیں بنایا جا سکتا۔

بھارت میں پٹا خہ بھی چلے تو الزا م حافظ سعید پر لگا دیتا ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار توصیف احمد خان نے کہا ہے کہ حکومت کو دیکھنا چاہئے کہ حافظ سعید امریکہ کو نہیں بلکہ بھارت کو مطلوب ہے، حافظ سعید جذبہ حریت سے سرشار ہیں اور کشمیر کی آمٓدی کی بات کرتے ہیں۔ 2005ءمیں ہولناک زلزلہ آیا اس وقت جس طرح حافظ سعید کی تنظیم نے تباہ حال لوگوں کی مدد کی اس کو دنیا سمیت امریکہ نے بھی تسلیم کیا تھا۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن سے بادل نخواستہ معافی مانگ لی ہے۔ نوازشریف بھی عمران خان جیسا رویہ اختیار کر رہے ہیں اور عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو رہے، نوازشریف انتقام انتقام پکارتے جیل بھی جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں کرکٹ کی بحالی خوش آئند ہے اس کے لئے تھوڑی بہت پریشانی تو اٹھانا ہی پڑے گی۔ معروف صحافی خالد چودھری نے کہا کہ کشمیر کی تحریک آزادی کو نقصان اس وقت نہیں جب دوسرے ملکوں سے جہاد کے نام پر وہاں بندے بھیجے جانے لگے۔ اس سے بھارتی فوج کو بھی کھل کر ظلم و ستم کرنے کا موقع مل گیا۔ کشمیری جب خود اپنی جنگ لڑیں گے تو دنیا اسے تسلیم کرے گی اب بھی وہاں تحریک آزادی اسی لئے عروج پر ہے کہ باہر سے دراندازی نہیں ہو رہی۔ عمران خان نے سیاست میں جس طرح کی زبان کو فروغ دیا اب وہی ان کی جانب لوٹ رہی ہے۔ ادارے جیسے بھی ہیں انہیں چلنے دیں ورنہ ریاست نہیں چل سکے گی۔ الیکشن وقت پر ہوتے نظر نہیں آ رہے 2019ءمیں ہو جائیں تب بھی بڑی بات ہو گی۔ نوازشریف جس طرح معاملات چلانا چاہتے تھے نہیں چل پائے ان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ شہباز شریف بغاوت صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ ووٹ بینک نوازشریف کا ہے۔ ایک کرکٹ میچ کرانے کے لئے سارا شہر بند کرنا پڑے تو اسے کیسے کرکٹ کی بحالی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سینئر صحافی امجد اقبال نے کہا کہ امریکہ نے مطلوب افراد کی جو فہرست دی اس میں ایک بھی پاکستانی شامل نہیں ہے۔ حافظ سعید کو حکومت نے نظر بند اپنے طور پر کیا ہے۔ امریکہ بھارت کے کہنے پر حافظ سعید اوران کی تنظیم پر پابندی کا کہتا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کے سامنے موقف اچھے انداز میں پیش کیا۔ ہرہان وانی کی شہادت کے بعد آزادی کی تحریک اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ نئی حلقہ بندیوں بارے قانون سازی ہو رہی ہے۔ الیکشن 2018ءمیں ہی ہوں گے اس سے پہلے بھی ہو سکتے ہیں۔ عمران خان اور الیکشن کمیشن دونوں نے ہی اپنی جان چھڑائی ہے۔ اداروں کو مضبوط ہونا چاہئے۔ قومی لیڈروں کو دوسروں بارے اچھی زبان استعمال کرنی چاہئے تا کہ ورکرز کے لئے مثال بن سکے۔ نوازشریف نے ساتھیوں کی بات مان لی ہے کہ ٹکراﺅ کی پالیسی ٹھیک نہیں اسی لئے خاموش ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ بحالی کرکٹ کی پاکستان میں واپسی خوش آئند ہے، سری لنکا کی ٹیم قذافی سٹیڈیم کھیلے گی تو بند دروازے مکمل طور پر کھل جائیں گے۔ سینئر صحافی میاں حبیب نے کہا کہ مشرف دور میں کنٹرول لائن پر باڑھ لگا دی گئی تھی اب کشمیر میں باہر سے کوئی مداخلت نہیں ہے۔ تحریک آزادی عروج پر ہے۔ کشمیریوں کو صرف اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔ بھارت نے حافظ سعید کو اپنا دشمن نمبر ون بنا رکھا ہے وہاں پٹاخہ بھی چلے تو ان کا نام لیا جاتا ہے۔ بھارت نے امریکہ سے دباﺅ ڈلوایا تو ہماری حکومت نے حافظ سعید کو بغیر کسی ثبوت کے نظر بند کر دیا۔ حکمران بھارت سے دوستی کے لئے ان کے آگے لیٹنے کو بھی تیار تھے۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن سے معافی مانگ کر اچھا اقدام کیا۔ اداروں کا وقار بڑھانا چاہئے الیکشن کمیشن کو بھی اپنا قبلہ درست کرنا چاہئے اور اپنے اصل کام پر توجہ دینی چاہئے۔ ابھی تک انتخابی اصلاحات کی گئیں نہ حلقہ بندیاں ہوئیں الیکشن کیسے وقت پر ہوں گے۔ نوازشریف تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں، ان کے منصوبے تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ پارٹی اور خاندان میں مخالفت کے باعث پاکستان نہیں آئے۔ بحالی کرکٹ کی بحالی خوش آئند ہے، پاک فوج کو وزیرستان جیسے علاقے میں کرکٹ میچ کرانے پر خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔

خطہ کی صورتحال کے پیش نظر فوج کا کردار بڑھ گیا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی خالد چودھری نے کہا ہے کہ احتساب صرف سیاستدانوں کا ہی نہیں سب کا ہونا چاہیے کوئی ادارہ احتساب سے مبرا نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے آرمی چیف سمیت اہم حکام سے ملاقاتیں کیں۔ وہ ”ڈومور“ اور ہم ”نومور“ کہتے ہیں۔ تاہم تاریخ گواہ ہے کہ سپر پاور کی بات ہی سپیریئر ہوتی ہے ہمیں صرف ایٹمی طاقت ہونے کی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ روس کا جو حال ہوا وہ سامنے ہے۔ بھاری قرضے کسی نے واپس کرنے ہیں۔ مہذب معاشروں میں خارجہ پالیسی سول حکومت بناتی ہے۔ امریکہ جس طرح افغاستان میں بھارت کو گھسیٹ رہا ہے یہ ہماری خارجہ پالیسی اور افغان پالیسی کیلئے امتحان ہے۔ ملک کی سلامتی عوام سے جڑی ہوتی ہے کوئی ایک ادارہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ اکیلا کافی ہے۔ سندھ میں رینجرز نے شرجیل میمن کو گرفتار کیا جبکہ پنجاب میں صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ نواز شریف نے ابھی تک ضمانت نہیں کرائی۔ پنجاب اور سندھ میں کیا قوانین مختلف ہیں اس طرح کے واقعات سے صوبوں کو غلط پیغام دیا جا رہا ہے۔ معروف تجزیہ کار جنرل (ر) زاہد مبشر نے کہا کہ نواز شریف کا کیس چوری کا ہے اس لیے اس کا تجزیہ بھٹو کیس سے نہیں کیا جا سکتا۔ احتساب بلاامتیاز ہونا چاہیے خطے کی صورتحال کے تحت پاک فوج کا کردار بڑھ گیا ہے وہی ملک کی اصل طاقت ہے۔ لیبیا، عراق، شام، افغانستان، چین کی افواج کمزور انہیں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ پاکستان پر دشمن پاک فوج کی وجہ سے گندی نظر نہیں ڈال سکتا۔ امریکی وزیرخارجہ کے استقبال کیلئے وزیرخارجہ کا نہ جانا خوش آئند ہے اچھا سگنل ہے۔ پاکستان کو کسی سے دب کر بات نہیں کرنی چاہیے۔ تمام بڑے ممالک اپنی فوج سے مشاورت کرتے ہیں پاکستان میں بھی اہم ایشوز یہ فوج سے مشاورت ضروری ہے۔ وزیراعظم خاقان بڑی عقل مندی سے معاملات کو چلا رہے ہیں اور ڈومور کی بات نہیں کر رہے۔ قانون سب کیلئے ایک ہونا چاہیے۔ پنجاب اور سندھ میں ملزمان کے ساتھ الگ الگ سلوک نہیں ہونا چاہیے اس طرح ملک نہیں چل سکتے۔ الیکشن کمیشن کا کام شفاف الیکشن کرانا ہے اسے عدالتوں کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ لیڈرشپ کے اداروں کی عزت کرنی چاہیے۔ سینئر صحافی خالد فاروقی نے کہا کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحت دیکھتی ہیں کہ کون شخص ان کیلئے کیا رول ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ ریاست سے ریاست کا تعلق ہے۔ نواز شریف آج عوام کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ انہوں نے عوام کیلئے بھی کام کیا لیکن سرمایہ دار کیلئے زیادہ کام کیا۔ بھٹو اور نواز کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری سول وملٹری لیڈرشپ کا خود کو صرف امریکہ اور مغربی ممالک کے کیمپ تک محدود رکھنا غلط تھا۔ پاکستان کے تمام ممالک کے ساتھ تعلق توازن کے ساتھ رکھنا ہو گا۔ ٹلرسن کے ساتھ افغان صدر بھی بھارت جانے کا جہاں مودی کے ساتھ مشترکہ ملاقات ہو گی ہمیں ان خطرات کا ادراک کرنا ہو گا۔ احتساب میں دو رخی نہیں ہونی چاہیے۔ ادارے اگر کسی ایک سیاسی پارٹی سے امتیازی سلوک کرینگے تو نتیجہ ملک میں انتشار کی شکل میں سامنے آئے گا۔ گلا لئی کسے بتاتی ہے کہ قانون میں کوئی رقم موجود ہے عدالتیں اپنی ماضی خوب جانتی ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں سب ملزمان سے ایک ہی قانون کے تحت نمٹا جانا چاہیے۔ صحافی طاہر ملک نے کہا کہ نواز شریف پاکستان کی ریاست کو خوب سمجھتے ہیں۔ ذہین آدمی میں خوب جانتے ہیں کہ یہاں اپنے اور لڑنے کیلئے عالمی طاقتوں سے مل کر چلنا ہو گا۔ نواز شریف بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب جانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ گنجائش پیدا کی جائے نواز شریف کو بھٹو کی باقیات سمجھتا ہوں اب اس بار وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے، یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ صرف فوج ہی تمام مسائل حل کر سکتی ہے۔ یہی امریکہ کو یقین دلانا ہے کہ بھارت افغانستان میں کوئی رول ادا نہیں کر سکتا۔ احتساب کے نام پر ملک میں جمہوریت اور سیاستدانوں کیلئے نفرت پھیلائی جا رہی ہے ساری لیڈر شپ کو گندا کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی سیاسی ارتقا عدالتوں کے باعث نہیں ہوا۔

انٹری ٹیسٹ منسوخی ،65ہزار میڈیکل طلباءرُل گئے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) نیب عدالت کے سامنے طلال چودھری نے احسن اقبال کو فون کر کے بلایا تھا۔ رینجرز کو آرٹیکل 245 کے تحت پہلے سے اسلام آباد میں موجود تھی۔ تجزیہ کار و کالم نگار مکرم خاں نے چینل ۵ کے پروگرام ”کالم نگار‘’ میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کی گونج دیر تک سنی جائے گی۔ وہ بڑے معنی خیز الفاظ تھے۔ ”خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے“ لوگ اس خاموشی کو بہت معنی خیز کہہ رہے ہیں یقینا یہ طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ نیب عدالت کے سامنے پیش آنے والے واقعہ سے قبل طلال چودھری نے احسن اقبال کو فون کر کے وہاں بلایا تھا۔ احسن اقبال کو وزیر داخلہ کے منصب کیلئے جچتے ہی نہیں۔ وہ سی پیک پر ہی رہتے تو ٹھیک تھا۔ نہ جانے کس نے انہیں اس طرف دھکیل دیا ہے۔ رینجرز آرٹیکل 245 کی رو سے پہلے ہی اسلام آباد میں موجود ہیں۔ پچھلی پیشی پر ہنگامہ آرائی کی کیفیت ہو چکی تھی۔ خبریں نے سینما کے خلاف ہے نہ فلموں کے لیکن غیر معیاری فلمیں دکھانا درست نہیں آئی بی کی لسٹ میں آنے والے 37 افراد کے متعلق خط کی پہلے تصدیق ہونا چاہئے۔ کہ آیا وہ خط درست تھا یا ”فیک“ اس لسٹ میں زیادہ تر جنوبی پنجاب کے لوگ شامل ہیں۔ اکثر لوگ تو اتنے سادہ ہیں کہ آج تک میڈیا پر آئے ہی نہیں تھے۔ لیکن وہ اب چیخ اٹھے ہیں۔ میڈیکل ٹیسٹ کے منسوخ ہونے سے 65 ہزار امیدواروں کا کردار داﺅ پر لگ گیا؟ 20 لاکھ روپے فی پرچہ وصول کر کے انہیں پرچے حل کروائے گئے۔ میرٹ کی دھجیاں بکھیر دیا گیا۔ بچے رل گئے۔ معروف تجزیہ کار، توصیف احمد خاں نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان بہت معنی خیز ہے۔ طوفان آنے سے قبل ایک سکوت طاری ہوتا ہے۔ وہی خاموشی یہاں محسوس ہو رہی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ صفائی ہونے والی ہے۔ طاقتور لوگ 7 گھنٹے خاموشی سے بیٹھے رہیں۔ ایسا ممکن نہیں۔ رینجرز قطعی اپنی مرضی سے وہاں نہیں آئے یقینا انہیں کسی نے بلایا ہو گا۔ ریاض پیرزادہ اور دیگر لوگوں نے اسمبلی سے واک آﺅٹ کیا۔ وہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ چیئرمین سینسر بورڈ فلم دیکھتے ہی نہیں۔ یہ نچلے طبقے والے ہی دیکھ کر اسے پاس کر دیتے ہیں۔ آئی بی کی لسٹ سامنے آتے ہی، آئی بی والوں نے تردید کر دی تھی۔ میڈیکل کالج میں داخلے میں سامنے آنے والے سکینڈل نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم کو اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے کہ غریب تو اپنے بچوں کو پڑھا نہیں سکتا۔ تجزیہ کار، خالد چودھری نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے ”کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے“ عسکری اور سول قیادت کے درمیان اختلافات بہت زیادہ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک پیج پر ہیں حالانکہ ایسا نہیں۔ میاں نوازشریف پیشی پر گئے تو وہاں ہنگامے کی کیفیت تھی۔ ویسے ہی جیسے سپریم کورٹ پر حملے کے وقت تھا۔ کورکمانڈر کا 7 گھنٹے طویل اجلاس ہوا۔ اس کا بہت بڑا مطلب ہے۔ احسن اقبال کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔ یہی بھی وہی کہانی ہے مجھے کیوں نکالا۔ ہمارے اکثر ٹی وی چینل ہمسایہ ممالک کی فلمیں دکھاتے ہیں۔ یہ فلم تو چند لاکھ لوگوں نے دیکھنی تھی جبکہ ٹی وی چینل تو کروڑوں لوگ دیکھتے ہیں۔ آئی بی کی لسٹ ٹیسٹ کے طور پر کھیلی گئی۔ اس کی ٹائمنگ بہت اہم ہے نوازشریف اگر 9 تاریخ کو آ جاتے ہیں تو ٹھیک ورنہ اس لسٹ کے حوالے سے دیکھئے گا کہ موسمی پرندے کس طرح ڈالی بدلتے ہیں۔ ہم نے یہ ملک بے ایمانیوں کیلئے نہیں بنایا تھا۔ یہاں لوگوں کو ہیلتھ، ایجوکیشن کی سہولتیں دینے کیلئے آزاد ملک حاصل کیا تھا۔ سرمایہ داروں نے ہمارے سسٹم کو تقسیم کر دیا ہے۔ پرائیویٹ سکول، کالجز زہر قاتل ہیں۔ غریب کا بچہ وہاں پڑھ ہی نہیں سکتا۔ غریب لاکھوں روپے خرچ کر کے پیپر خرید نہیں سکتا۔ تجزیہ کار امجد اقبال نے کہا ہے ریاض حسین پیرزادہ نے اسمبلی سے واک آﺅٹ کیا۔ اگر ان کا تعلق کسی بھی تنظیم سے نہیں تو انہیں لسٹ میں کیوں شامل کیا گیا۔ آئی بی کی لسٹ کی سازش میں وہی لوگ ہیں۔ جو فارورڈ بلاک کے تحت پہلے بھی سامنے آ چکے تھے۔ یہ حکومت کے خلاف سازش ہو سکتی ہے۔ لیٹر کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئے۔ اس سے بہت نقصان ہوا ہے۔ اس پر عدالت کا کمیشن بنانا چاہئے اور تفتیش ہونی چاہئے۔ اس کے ذمہ داروں کو منظر عام پر آنا چاہئے۔ صرف ارکان اسمبلی کو ذلیل و خوار کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی بینک کی چھٹیوں کی سکینڈل بھی سامنے آیا تھا۔ حکومت کو اس کا شدید نقصان ہوا ہے۔ پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخلے کیلئے لاکھوں روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ داخلے سکینڈل کے بعد حکومت نے کیا کیا۔ چیف رپورٹر خبریں طلال اشتیاق نے کہا ہے فلم ”نامعلوم افراد“ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہیں۔ خبریں کے ایشو اٹھانے پر صوبہ پنجاب کے ترجمان نے کل چینل ۵ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ سینسر بورڈ نے اگر درست سینسر نہیں کی تو فلم اب بھی ہٹوائی جا سکتی ہے اس پر کارروائی کرتے ہوئے آج صوبہ پنجاب کے بیشتر سینماﺅں پر اسے روک دیا گیا علاوہ ازیں سینسر بورڈ کے ارکان کی بھی کھنچائی متوقع ہے۔ ایم پی اے سعدیہ سہیل نے کہا ہے کہ میں خبریں کو تحسین پیش کرتی ہوں جس نے اس فلم کے بارے آواز اٹھائی۔ فلم میں جس قسم کے مناظر، کلچر اور زبان دکھائی گئی۔ وہ ہمارے معاشرے کو سوٹ ہی نہیں کرتی۔ میں نے اسمبلی میں اس فلم کے خلاف قرارداد جمع کروا دی ہے۔ ہم فلم، سینماﺅں کے خلاف نہیں۔ لیکن معیافی فلمیں دکھائی جانی چاہئیں۔ اپنے ہمسایہ ملک کی پیروی میں حد سے آگے بڑھنا درست نہیں۔ سنسر بورڈ کا کام ہے کہ ننگ دھڑنگ سین، نازیبا جملوں اور گھٹیا ڈائیلاگ کو نکالے۔ چیئرمین زیبا شاید علیل ہیں لیکن ان کے علاوہ جتنے لوگ تھے وہ قصور وار ہیں۔ اگر وہ یہ کام نہیں کر سکتے تو عہدے چھوڑ کر گھر چلے جائیں۔