Tag Archives: cpec

انتشار بڑھے گا اصل نشانہ سی پیک ایٹمی پاور ہے: شاہد مسعود

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں حالات کو اسی نہج تک پہنچانے کیلئے سالہا سال سے کام جاری تھا۔ سازش کے تحت ادارے تباہ کئے۔ قرض لئے گئے ٹرمپ نے کوئی ایسی نئی بات نہیں کی ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان میں انتشار بڑھے گا۔ اصل نشانہ سی پیک اور نیوکلیئر پاور ہے۔ یہ انکشافات سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر شاہد مسعود نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں ہنگامے شروع کردیئے جو افغان سرحد کے قریب ہے ۔ ہنگامے مہنگائی سے شروع ہوکر حکومت کیخلاف ہوچکے ہیں۔ ایرانی ہنگاموں سے پورا مشرق وسطی لزر رہا ہے، پاکستان میں قیادت کو سلجھانے کی کوشش کی گئی مختلف لیگی رہنماﺅں نے بھی نوازشریف کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن کوئی اثر نہ ہوا۔ دنیا میں کوئی بڑا واقعہ کرا کر اس کے ڈانڈے پاکستان سے ملائے جاسکتے ہیں۔ ریاست اور قوم بیدار ہے اور مقابلہ کیلئے تیار ہے تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ بات کرنے کیلئے لیڈر شپ نہیں ہے۔ وہ سیاسی دنیا جن کی بیرون ممالک میں جائیدادیں ہوں وہ کسی سے کیا بات کرسکتے ہیں۔ جس طرح الطاف حسین بات نہ سنتا تھا اور آخر میں انکشاف ہوا کہ اس کے پیچھے عالمی کھلاڑی تھے اس طرح نوازشریف کی بھی صورتحال ہے اور وہ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔پاکستانی عوام باشعور ہے پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی ہے اس کا مشرقی وسطی سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کرائمز سے نکل جائے گا۔ تاہم عوام کو پتہ چل جائے گا کہ ان ملک کو یہاں تک لایا ہے۔

 

پاکستان میں اقتصادی ترقی کی نئی تاریخ رقم ہو گئی

لاہور(پ ر) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف اسلام آباد میں چین کے سفارت خانے گئے اور چین کے سفیر یاﺅ جنگ (Mr. Yao Jing) سے ملاقات کی۔ وزیراعلیٰ نے چین کے سفیر کو گلدستہ پیش کیا اور پاکستان میںتعیناتی پر چین کے سفیر یاﺅ جنگ کے لئے نیک تمناﺅں کا اظہار کیا۔ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، دو طرفہ تعلقات کے فروغ، سی پیک کے منصوبوں اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔ چینی سفیریاﺅ جنگ نے وزیراعلیٰ پنجاب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور چین کی دوستی اور دو طرفہ معاشی تعاون ہر گزرتے لمحے فروغ پا رہا ہے اورپاک چین دوستی کو فروغ دینے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔چینی سفیر نے کہا کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف ویژنری لیڈر ہیں اور©” پنجاب سپیڈ “کا اعزاز شہباز شریف کی انتھک محنت اور غیر معمولی کارکردگی کا نتیجہ ہے اور”پنجاب سپیڈ“ ایک حقیقت بن چکی ہے ۔ ”پنجاب سپیڈ“ کے ذریعے بجلی کے منصوبوں کو مکمل کرکے توانائی بحران پر قابو پانے کا کریڈٹ ان کو جاتا ہے۔ چینی سفیر نے کہاکہ وزیر اعلی محمد شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب حکومت کی کارکردگی عوامی امنگوں کے مطابق ہے اور پاک چین دوستی کے فروغ او رسی پیک کے منصوبوں پر عملدرآمد کے حوالے سے شہبازشریف نے انتھک محنت سے کام کیا ہے اوراس حوالے سے ان کا عزم او رخدمات نا قابل فراموش ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی قیادت میں پنجاب میں سی پیک کے منصوبوں کو انتہائی تیز رفتاری سے مکمل کیا جا رہاہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان او رچین انتہائی با اعتماد دوست ہیں اور چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور دونوں ممالک کی قیادت کے ترقیاتی ویژن کا عکاس ہے اور سی پیک سے پاک چین تعلقات کو نئی جہت ملی ہے۔ چینی سفیر نے وزیر اعلی پنجاب کے عوامی خدمت کے جذبے کی تعریف کی اور کہاکہ حکومت جس انداز سے عوامی خدمت اور معاشی ترقی کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے وہ قابل تحسین ہے اور دونوں ملک اسی جذبے کے ساتھ پیش رفت جاری رکھیں گے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس موقع پر گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ پاک چین دوستی دنیا میں امن ، محبت، تعاون اور والہانہ جذبوںکی روشن مثال ہے ۔سی پیک کے عظیم منصوبے نے معاشی و اقتصادی ترقی کی نئی تاریخ رقم کی ہے اورخطے کے دیگر ممالک بھی سی پیک سے مستفید ہو ں گے۔سی پیک سے پاکستان میں ترقی کی نئی راہیں کھلی ہیں۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پاکستان میں سی پیک کے تحت منصوبوں کی تیز رفتار اور شفاف تکمیل کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈورنے دونوں ملکوں کے تعلقات کو نئی بلندےوں تک پہنچاےا ہے ۔سی پیک ایک عظیم الشان منصوبہ ہے جس کے ثمرات سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ توانائی منصوبوں کی ریکارڈ مدت میں تکمیل سے پاکستان میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوا ہے۔1320میگا واٹ کا ساہیوال کول پاور پلانٹ مقررہ مدت سے 6ماہ قبل مکمل کیا گیاہے۔انہوں نے کہاکہ چین کے صدر شی جن پنگ نے بیلٹ اور روڈ کا شاندار ویژن دیاہے ۔ پاکستان اور چین کے مابین برادارنہ دوستی کا سفر چھ دہائیوں پر مشتمل ہے اور اب دونوں ملکوں کی دوستی کی مثال اپنی مثال آپ ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی نئی منزلوں کو چھو رہی ہے ۔انہوںنے کہا کہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی چین پاکستان کےساتھ چٹان کی طرح کھڑا رہاہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں پاکستان اور چین کےساتھ تعلقات مزید وسیع اور مضبوط ہوئے ہیں اور پاکستان اور چین باہمی احترام ، محبت اور پیار لازوال رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ چین نے مشکل حالات میں پاکستان کا ہاتھ تھام کر سچے دوست کا ثبوت دیاہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے رضا کارانہ خدمات سر انجام دینے والے افراد اور تنظیموں کے عالمی دن کے موقع پراپنے پیغام مےں کہا ہے کہ انٹرنیشنل والنٹیئرز ڈے قدرتی آفات کے دوران انسانی جانیں بچانے کےلئے موثر،جامع اور مشترکہ کاوشےں بروئے کارلانے کے حوالے سے اےک پلےٹ فارم فراہم کرتا ہے۔انہوںنے کہاکہ مشکلات میں گھرے افراد کی مدد کیلئےرضا کارانہ خدمات سر انجام دینے والے افراد اور تنظیمیںمبارکباد کی مستحق ہیں کےونکہمشکلات میں گھرے افراد کی مددکرنا انسانیت کی اعلیٰ اقدار ہے اور کسی لالچ اور مفاد کے بغیر رضاکارانہ خدمات کا فریضہ سرانجام دینے والے دین اور دنیا دونوں کما تے ہیں۔وزےراعلیٰ نے کہا کہ رضاکارانہ خدمات سر انجام دینے والے قدرتی آفات میں اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر انسانیت کی مدد کیلئے آگے بڑھتے ہیںاوررضاکار سچے جذبے کےساتھ کام کرتے ہیںجو کہ ایک نیک مقصد ہے ۔ انہوںنے کہاکہ والنٹیئرز ثقافت ، زبان اور جغرافیائی حدود سے ماورا ہو کر کام کرتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار رہتے ہیںاورےہی وجہ ہے کہ رضا کارانہ خدمات سرانجام دینے والی تنظیمیں،ادارے اور افراد کا کردار معاشرے کےلئے ایک مثالی حیثیت کا حامل ہوتاہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اشتیاق احمد اسسٹنٹ کمپٹرولر، دفتر وزیر اعلیٰ پنجاب کی والدہ کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہارکیا ہے۔وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کےلئے پوری قوم کو متحد ہونا ہوگا۔ اتحاد کی قوت سے سماج دشمن عناصر کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانا ہے۔ باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کی ترقی اور خوشحالی کےلئے ملکرکام کرنا ہوگا۔ ملک کسی صورت انتشار کی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا اور ہمےںاپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے ملک کی ترقی کےلئے آگے بڑھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی خدمت کو ہمیشہ عبادت کا درجہ دیا ہے اور گزشتہ ساڑھے چار برس سے صوبے کے عوام کی بے لوث خدمت کی ہے۔ شہبازشرےف نے کہا کہ صوبے کی تیز رفتار ترقی کےلئے ٹھوس حکمت عملی اپنائی ہے اورصوبے مےں شفافیت اور میرٹ کی پالیسی کو فروغ دیا گیاہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر شعبہ میں میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا ہے۔ کرپشن کےخلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی گئی ہے اور صوبہ بھر میں ترقیاتی منصوبوں کی بر وقت اور معیاری تکمیل کو یقینی بنایا ہے۔ پسماندہ علاقوں کی ترقی ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ خادم پنجاب دیہی روڈز پروگرام دیہی علاقوں کی ترقی میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر منصوبوں کو تیز رفتاری سے مکمل کیا ہے۔

 

امریکا سی پیک کے خلاف کُھل کرسامنے آگیا

 واشنگٹن: امریکا پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف کھل کر سامنے آگیا۔بھارت کوسی پیک منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ بہانے بہانے سے اسے متنازع اور ناکام بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ سی پیک کو ناکام بنانے کی اس مہم میں امریکا بھی کھل کر بھارت کا ہمنوا بن گیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی راہداری متنازع علاقے سے گزر رہی ہے۔امریکی وزیر دفاع جم میٹس اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور ارکان کانگریس کو پاک افغان خطے کی موجوہ صورتحال سے آگاہ کیا۔وزیر دفاع جم میٹس نے کہا کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ متنازع علاقے سے بھی گزرتا ہے جو بجائے خود کسی نئے تنازعے کو جنم دے سکتا ہے، امریکا اصولی طور پر ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ایک سے زیادہ سڑکیں اور گزرگاہیں موجود ہیں لہذا کسی بھی ملک کو صرف ’ایک گزرگاہ اور ایک سڑک‘ کے ذریعے اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرنی چاہیے، امریکا پاکستان میں اس منصوبے کی مخالفت اس لیے بھی کرتا ہے کیونکہ وہ متنازع علاقے سے گزرتا ہے۔امریکی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو ہم انسداد دہشت گردی کے حوالے سے چین کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں تاہم جہاں چین کی سمت غلط ہے وہاں ہمیں اس کی مخالفت بھی کرنی ہوگی۔ سی پیک پر امریکا کا نیا موقف دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے کشیدہ مزید خراب ہونے کا خطرہ ہے جب کہ پاکستان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں بھارت کو زیادہ بڑا اور اہم کردار دینے کی بھی مخالفت کرتا ہے۔

سی پیک کے حساس علاقوں میں کون سرگرم ،کے پی کے حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی معاونت

لاہور (خصوصی رپورٹ) سی پیک والے حساس علاقوں میں امریکی اداروں کی جگہ برطانوی این جی اوز سرگرم عمل ہیں۔ سیودی چلڈرن کو حساس علاقوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سنگی اور ایس آر ایس پی کا ایبٹ آباد میں این او سی معطل کردیا گیا ہے جبکہ کئی این جی اوز کو اپنے پراجیکٹ مکمل کرنے کے بعد این او سی جاری نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے برطانوی این جی اوز کو حکمت عملی کے تحت آگے لایا گیا۔ کئی این جی اوز کو سکیورٹی اداروں سے کلیئرنس حاصل کیے بغیر این او سی جاری کئے گئے۔ گیم چینجر منصوبہ سی پیک پر بڑی تیزی سے کام جاری ہے۔ انتہائی محدود پیمانے پر کاروباری مال کی گوادر رپورٹ پر ترسیل بھی شروع ہوگئی ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سی پیک منصوبے کے بڑی حصے اس سال کے آخر تک مکمل کرلیے جائیں گے۔ واضح رہے بھارت سی پیک منصوبے کی کھل کر مخالفت کر چکا ہے، جبکہ امریکہ کو بھی اس پر خدشات ہیں، جس کی بڑی وہ امریکہ کا بھارت کے ساتھ اتحاد اور مشترکہ مفادات ہیں۔ سی پیک والے علاقوں کو حساس قراردیا جا رہا ہے اور یہاں پر سکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان میں مشکوک کردار والی بین الاقوامی غیر سرکاری این جی اوز/ اداروں پر بھی خصوصی نظر رکھی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کئی امریکی این جی اوز کو نہ صرف یہ کہ این او سی جاری نہیں کیا گیا، بلکہ اناین جی اوز کو فی الفور علاقہ چھوڑے کے احکامات بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔ سیو دی چلڈرن کو سی پیک والے علاقوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسی طرح ایس آر ایس پی اور سنگی کے ایبٹ آباد میں این او سی معطل کر دیئے گئے ہیں۔ حساس اداروں کی جانب سے امریکی این جی اوز کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے پر سی پیک کے علاقوں میں حکمت عملی کے تحت امریکی این جی اوز کی جگہ برطانوی این جی اوز کو فعال کردیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبہ خیبر پختون میںبرطانیہ کا سرکاری خیراتی ادارہ ڈیپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (ڈی ایف آئی ڈی) انتہائی سرگرم عمل ہےے۔ یہ ڈونر ادارہ ہے اور یہ اس وقت آکسفورڈ پالیسی مینجمنٹ (او پی ایم)، ایڈم اسمتھ انٹرنیشنل (اے ایس آئی) اور انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) کو مختلف پراجیکٹ کے لیے فنڈنگ کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ او پی ایم اور اے ایس آئی تعلیم کے میدان میں کام کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان دونوں اداروں نے حکومت پاکستان کی جانب سے اکتوبر 2013ءکے نوٹیفکیشن کے مطابق قانونی تقاضے پورے نہیں کیے سب سے اہم یہ کہ ان اداروںکو اکنامک افیئر وزارت خارجہ میں رجسٹریشن کروانا ہوتی ہے ، مگر ان تینوں نے یہ رجسٹریشن نہیں کروائی۔ صوبائی حکومت کی اس جانب توجہ بھی نہیں دلائی گئی مگر اس نے نہ صرف ان تینوں کو صوبہ بھر میں کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے، بلکہ پورا تعاون بھی کیا جا رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً سکیورٹی اداروں کے اٹھائے جانےوالے اعتراضات کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ سکیورٹی سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ تعلیم کے فروغ کے نام پر ان برطانوی اداروں نے اساتذہ اور دیگر شعبوں میں ٹیبلٹ کمپیوٹر تقسیم کیے ہیں، حالانکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایسی کوئی ڈیوائس جو وائرلیس ہو، تقسیم کرنے پر پابندی ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے توجہ دلائی گئی تو پہلے تو یہ تقسیم وقتی طور پر روک دی گئی تھی مگر بعد میں دوبارہ صوبائی حکومت کی ایما پر تقسیم کر دیئے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر ٹیبلٹ لاکھوں کی تعدد میں تقسیم ہوئے ہیں۔ تحقیقاتی اداروں سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت متعدد این جی اوز سرگرم ہیں، جن میں سپارک کے علاوہ رائٹ ٹو پلے، آئی آر سی، جی آئی، ایس آر ایس پی اور دیگر شامل ہیں۔ یہ سب بغیر این او سی او مقامی انتظامیہ کے علم میں لائے بنا اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان این جی اوز کو تعلیم کے نام پر جرمن حکومت، یو ایس ایڈ، برطانوی اداہ ڈی ایف آئی ڈی، برٹش کونسل فنڈنگ کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق آئی آر سی نے خیبر پختون کے مختلف علاقوں میں جن میں ایبٹ آباد، ہری پور، مانسہرہ اور دیگر شامل ہیں، میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران 44 سیمینار اور میٹنگز منعقد کی ہیں جبکہ سیو دی چلڈرن نے 55 سیمینار اور میٹنگز منعقدکی تھیں۔یہ سیمینار اور میٹنگز پانچ پانچ روز تک بھی جاری رہیں، جن میں پرائمری سکول کے مرد و خواتین اساتذہ موجود ہوتے تھے، اس کے بعد ہی سیودی چلڈرن کو اپنی سرگرمیاں روکنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی آر سی کا حالیہ پراجیکٹ جو جرمن حکومت کی جانب سے دیا گیا ہے ، کم از کم سو کروڑ روپے پر مشتمل ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد پہلی اور دوسری جماعت کے بچوں کو اردو پڑھنا اور لکھنا اور سکھانا ہے مگر اس وقت مذکورہ این جی اوز کا زیادہ فوکس مردو خواتین اساتذہ کی تربیتی ورکشاپ منعقد کروانا ہے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ این جی اوز کا ہدف ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے اور مختلف حساس علاقوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا بھی رہی ہوتی ہے۔ اس میں حدود اربعہ بھی شامل ہے جبکہ ایک این جی او کے اہلکاروں کو سمارٹ فون فراہم کیے گئے ہیں جس کا مقصد وہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایک اور این جی او نے اساتذہ میں موبائل فون ، سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ جس کے بارے میں مقامی انتظامیہ کو آگاہ نہیں کیا جا رہا۔ ذرائع کا کہناہے کہ ان این جی اوز کی سرگرمیوں کا مرکز پیک والا علاقہ ہے اور اس علاقے ہی میں یہ اپنی زیادہ سرگرمیاں کر رہی ہیں۔ ان علاقوں میں این این جی اوز نے کئی ایک سروے اور ڈیٹا کولیکشن کی ہے، حالانکہ کوئی بھی سروے اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح ڈیجیٹل میپنگ بھی کی گئی ہے۔ ذرائع کے بقول مذکورہ سروے، ڈیٹاکولیکشن اور ڈیجیٹل میپنگ کا ڈیٹا سکیورٹی اداروں کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا اور اس کے لیے صرف صوبائی حکومت ہی کے ساتھ رابطے کیے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل میپنگ،بالخصوص سی پیک والے علاقوںمیں کسی بھی صورت قابل قبول نہیں اور نہ ہی اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ ڈیجیٹل میپنگ کی اطلاعات ملنے کے بعد صوبائی حکومت سے رابطہ قائم کیا گیا ہے اور اس پر وضاحت طلب کی گئی ہے مگر ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا جا رہا ہے۔ او پی ایم سے رابطہ قائم کیا اور پوچھا کہ آپ نے وفاقی حکومت سے مناسب طریقے سے این او سی حاصل نہیں کیا ہے؟ تو اس پر ان کا موقف تھا کہ او پی ایم کو ڈی ایف آئی ڈی فنڈنگ کر رہی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی ایک کمیٹی جس کی صدارت چیف سیکرٹری کرتے ہیں، نے او پی ایم کو سرگرمیوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ وزارت خارجہ کے اکنامک افیئر سے رجسٹریشن پر ان کا کہنا تھا کہ او پی ایم پرائیویٹ کنسلٹنٹ ادارہ ہے اور یہ سکیورٹی ایکسچینج آف پاکستان سے رجسٹرڈ ہے جبکہ ڈی ایف آئی ڈی کا اکنامک افیئر ڈویژن کے ساتھ ایم او یو دستخط ہو چکے ہیں۔ اس سوال پر کہ او پی ایم ڈیجیٹل میپنگ میں مصروف ہے، کہنا تھا کہ او پی ایم ڈیجیٹل میپنگ نہیں کر رہی، بلکہ جی آئی ایس ہو رہی ہے۔ یعنی صوبہ خیبر پختون کی جیوگرافیکل معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں اور او پی ایم ازخود یہ سارا کام نہیں کر رہا، بلکہ اس کے لیے صوبائی اور ضلعی حکومتوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ او پی ایم یہ کام ڈی ایف آئیڈی اور صوبائی حکومت کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے تحت کر رہا ہے اور یہ سب معلومات متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے دفاتر اور ضلعی حکومتوںکے پاس ہیں۔ اس سوال پر کہ بغیر اجازت کے ڈیٹا اور سروے کیا جا رہا ہے اور یہ ڈیٹا حکومتی اداروں کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا؟ ان کا موقف تھا کہ ہم مقامی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر سروے اورڈیٹا اکٹھا نہیں کرتے، سروے کا سوال نامہ حکومتی اداروں کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا؟ ان کا موقف تھاکہ ہم مقامی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر سروے اور ڈیٹا اکٹھا نہیں کرتے۔ سروے کا سوال نامہ حکومتی اداروں کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے اور جس ادارے کے لیے سروے ہوتا ہے، اسے بھی دیاجاتا ہے اور اگر سکیورٹی ادارے گزارش کریں تو ان ک بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ سارے عمل میں مقامی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ اس حوالے سے صوبائی حکومت کے ترجمان مشتاق احمدغنی نےرابطہ کرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔