Tag Archives: national assembly

”نااہل شخص “پر بڑی پابندی ۔۔؟ قومی اسمبلی میں میدان سج گیا

اسلام آباد (نیااخبار رپورٹ) اپوزیشن کا نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے پر پابندی کا بل آج قومی اسمبلی میں پیش ہوگا۔ نوازشریف نے لیگی ارکان کو آج ایوان میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کر دی ہے تاکہ بل کو ناکام بنایا جا سکے۔ دوسری طرف اپوزیشن بل منظور کرانے کیلئے متحرک ہو گئی ہے۔ الیکشن بل 2017ءکی شق 203میں ترمیم کا یہ بل سینٹ سے پہلے ہی منظور ہو چکا ہے اور آج قومی اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر ڈے کے موقع پر منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔ مجوزہ بل کے تحت کوئی بھی نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ ذرائع کے مطابق حکومت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہونے کے باوجود مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ 70سے زائد ناراض حکومتی ارکان بتائے جا رہے ہیں۔ ایک اہم حکومتی رہنما نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ یہ بل قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے مسترد کر دیا جائے گا۔ حکومت نے اس حوالے سے مکمل تیاری کر لی ہے۔ ناراض ارکان کے ایوان میں نہ آنے کی باتیں صرف افواہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں کوئی رکن ناراض نہیں ہاں البتہ ان کی رائے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے تمام ارکان نوازشریف کی قیادت میں متحد ہیں۔ دریں اثنا سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نوازشریف نے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور مذکورہ بل سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا اور انہیں ن لیگ کے ارکان قومی اسمبلی کی آج کے اجلاس میں حاضری یقینی بنانے کا ٹاسک دیا۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم نے ہدایت کی کہ لیگی ارکان کی حاضری یقینی بنائی جائے اور پارٹی صدارت پر پابندی کا بل مسترد کروانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنے تمام ارکان کو آج کے اجلاس میں شرکت کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی رہنماﺅں نے ہر صورت اپوزیشن ارکان کی ایوان میں حاضری کو یقینی بنانے کیلئے اہم رہنماﺅں کو متحرک کر دیا ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے پیپلزپارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا ہنگامی اجلاس آج سہ پہر تین بجے طلب کر لیا۔ اجلاس میں مذکورہ بل کی منظوری کیلئے حکمت عملی طے کی جائے گی۔
بل آج پیش

 

ارکان اسمبلی کوبڑی خوشخبری مل گئی

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے سیکرٹری مذہبی امور خالد مسعود چودھری کی مزاحمت کے باوجود سرکاری خرچ پر کمیٹی کا 10رکنی وفد ربیع الاول کو روضہ رسول پر حاضری کے لیے سعودی عرب بھجوانے کی منظوری دیدی، وزارت مذہبی امور کو آئندہ دس روز کے اندر وفد کے دورے کے تمام انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت، وزیر مملکت مذہبی امور نے ہدایت پر عمل کیلئے تحریری حکم کے مطالبے پر وفد کے تمام تر اخراجات اٹھانے کی حامی بھرلی۔ کمیٹی کے تمام ارکان وزارت مذہبی امور کے سرکاری خرچے پر سعودی عرب جانے کیلئے یک زبان ہوگئے اوراپنے نام وفد میں شامل کرانے کیلئے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتے رہے، پیپلزپارٹی کے اقلیتی رکن رمیش لال کی جانب سے سرکاری خرچے کی بجائے ذاتی خرچے پر دورے کی تجویز پر کسی بھی رکن نے کان نہ دھرے۔ کمیٹی کی چیئرپرسن سمیت جماعت اسلامی کے صاحبزادہ یعقوب، جے یو آئی کے مولوی آغا محمد سمیت تمام ارکان وفد کا دورہ سرکاری خرچے پر کرنے پر زور دیتے رہے۔

75ارکان اسمبلی کیخلاف نواز شریف نے ایکشن لے لیا ،سنگین صورتحال

لاہور (خصوصی رپورٹ) مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک بننے کی صورت میں شریف خاندان کا سینٹ کے الیکشن سے پہلے اسمبلیاں توڑ دینے پر غور شروع کردیا۔ سینٹ انتخابات میں اسی صورت میں جایا جائے گا اگر پارٹی کے اندر بڑا فارورڈ بلاک نہ بنا۔ فارورڈ بلاک بننے کی صورت میں سینٹ انتخابات سے پہلے ہی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق دو حکومتی خفیہ اداروں نے اپنی رپورٹ میں یہ کہا کہ حدیبیہ کیس کھلنے کی صورت میں ارکان قومی اسمبلی کی طرح پنجاب کے اندر بھی پنجاب اسمبلی کے بہت زیادہ ارکان حکومت کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں اور وہ کسی اور پارٹی میں جانے کی بجائے بڑا فارورڈ بلاک بناسکتے ہیں اور یہ فارورڈ بلاک بناسکتے ہیں اور یہ فاروڈ بلاک سینٹ انتخابات میں حکومتی امیدوار کو ووٹ نہیں دے گا۔ جس سے سینٹ میں (ن) لیگ کی اکثریت نہیں بن سکے گی۔ رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف پنجاب ہی نہیں اس حوالے سے بلوچستان کے اندر بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ اسی وجہ سے ارکان پنجاب اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں حکومتی ہدایات کے باوجود حصہ نہیں لے رہے۔ رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے جلد فارورڈ بلاک کی صورتحال سامنے آ جائے گی اور بہت سے ارکان نپجاب اسمبلی جن کی تعداد 100 سے زائد ہو چکی ہے، کھل کر سامنے آ سکتے ہیں اور وہ پارٹی چھوڑنے کی بجائے پارٹی کے اندر ہی نئی قیادت کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اور ایسی صورت بننا شروع ہو جائے گی کہ سینٹ انتخابات کی صورت میں حکمران جماعت کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا اپنے ہی ارکان کا کرنا پڑے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اچانک اتنے زیادہ استعفے بھی آ سکتے ہیں کہ جس سے غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ن لیگ نئی حکمت عملی کے تحت ان رپورٹس اور موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اس تجویز پر عملدرآمد کا فیصلہ حالات کو دیکھ کرے گی۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان کے اندر بھی اس پر کام ہو چکا ہے اور بہت سے ارکان اسمبلی جو بظاہر ن لیگ کے حمایتی نظر آتے ہیں وہ کسی بھی وقت کھل کر مخالفت میں جاسکتے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ایک اہم لیگی رہنما نے ایک نجی محفل میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ اگر پنجاب میں ارکان کی زیادہ تعداد ہمارا ساتھ چھوڑ گئی تو پھر فوری اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی۔ دریں اثناءمسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک کی تیاری کے شواہد منظر عام پر آنے لگے ہیں اور پارٹی میں توڑ پھوڑ شروع ہوگئی ہے جبکہ ارکان کی ناراضی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ وزیراعظم، وفاقی وزراءاور پارٹی رہنماﺅں کی جمعرات کو اسمبلی پہنچنے کی کالز، ضلعی انتظامیہ کی طرف سے دباﺅ،اعلیٰ سطح کے رابطوں اور منت سماجت کے باوجود گزشتہ روز 78 ارکان قومی اسمبلی نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی ، بعد میں انتظامیہ کے دباﺅ اور پارٹی رہنماﺅں کی منت سماجت کے بعد بھی صرف مزید 16ارکان قومی اسمبلی میں آئے اور ووٹنگ میں حصہ لیا۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں 110اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں 126 لیگی ارکان آئے۔ ذرائع کے مطابق نوازشریف کی نااہلی کے باوجود پارٹی صدر بننے کیخلاف سینیٹ سے پاس ہونیوالی ترمیم کے قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے وقت بھی (ن) لیگ کے 70 سے زائد ارکان اسمبلی حاضر نہیں ہونگے کیونکہ ان ارکان کا ماننا ہے کہ نوازشریف کو اب پارٹی کی سربراہی چھوڑ دینی چاہئے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اس صورتحال کو پارٹی کے اندر ایمرجنسی کے طور پر لیا جارہا ہے ، کچھ ارکان کا کہنا ہے کہ خطرے کی گھنٹی بج چکی، ن لیگ کو اندر سے ہی مزاحمت کا سامنا ہے۔ ارکان وزیر خزانہ اور گزشتہ 4سال میں رکھے گئے رویے سے نالاں ہیں۔ کچھ کا ماننا ہے کہ پارٹی کو شدت پسند نہیں بلکہ مفاہمتی اور مصالحتی پالیسی کی ضرورت ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکمران جماعت کے پاس قومی اسمبلی میں 188 ارکان ہیں لیکن پارلیمانی پارٹی میں صرف 110 نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے غیر حاضر ارکان کی حاضری یقینی بنانے کیلئے وزراءکی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ان کو فون کریں، زیادہ تر غیر حاضرارکان کے فون بند پائے گئے جبکہ جن سے رابطہ ہوا انہوں نے بتایا کہ وہ راولپنڈی آئے تھے دھرنے کی وجہ سے پہنچنے میں تاخیر ہوگئی۔کچھ نے کہا وہ ضروری کام سے شہر سے باہر ہیں، جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے حلقہ میں ہیں۔ وزیراعظم نے پارلیمانی امور کے وزیر مملکت آفتاب شیخ کو ارکان سے رابطہ کرنے اور ان کی غیر حاضری کی وجہ جاننے کیلئے ہدایت جاری کردی۔ اجلاس میں ن لیگ کے ارکان کل اتنی بڑی تعداد میں اہم بل پاس ہونے کے دن ایوان سے غیر حاضری پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔ ن لیگ کے غیر حاضر رہنے والے ارکان قومی اسمبلی سے وزیر کھیل ریاض پیزادہ، خسروبختیار، وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ، وزیر خارجہ آصف، وزیر تجارت پرویز ملک، وزیر دفاع خرم دستگیر،شائستہ پرویز، نجف سیال، اظہر شاہ گیلانی، محمد خان ڈاھا، جعفر لغاری، حفیظ الرحمن خان دریشک، مخدوم علی حسن گیلانی، سیدایازعلی شاہ، طاہر چیمہ، ممتاز ٹمن، خادم حسین سمیت دیگر کئی ارکان کو خفت اٹھانی پڑی۔ دوسری جانب ن لیگی ارکان کے علاوہ کئی اہم ترین سینئر ارکان اسمبلی جن میں اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ ، سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی غیر حاضر رہے۔

انہیں راضی کرو، نواز شریف نے اسپیکر قومی اسمبلی کو اھم ٹاسک سونپ دیا

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی آئینی ترمیم پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا، پارلیمانی جماعتوں کے قائدین سے حتمی جواب مانگ لیا گیا، پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے مردم شماری کے عبوری نتائج پر تحفظات دور کئے بغیر آئینی ترمیم کی حمایت سے انکار کر دیا، اپوزیشن کی بعض جماعتوں نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ پارلیمنٹ کو دونوں بڑی جماعتوں کی غفلت کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ سپیکر سردار ایاز صادق نے توقع ظاہر کی ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں جائے گا اور پارلیمنٹ میں اسے حل کر لیا جائے گا۔ پارلیمانی جماعتوں کے رہنما¶ں کا اجلاس منگل کو سپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں پارلیمنٹ ہا¶س میں ہوا۔ مردم شماری کے عبوری نتائج پر تحفظات ظاہر کرنے والی جماعتیں اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل میں حل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اجلاس کی کارروائی کے دوران سپیکر اور حکومتی جماعت نے آئینی ترمیم پر سابقہ اتفاق رائے سے پیچھے ہٹنے پر متعلقہ جماعتوں سے گلے شکوے کئے۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے یہ جماعتیں کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکیں۔ اجلاس ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا، پارلیمانی جماعتوں میں اختلافات برقرار ہیں تاہم ان تمام جماعتوں نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ عام انتخابات بروقت ہونے چاہئیں۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ تمام ارکان اپنی اپنی پارلیمانی جماعتوں کی قیادت سے رابطہ کریں گے۔ ان سے مشاورت کے بعد بدھ کو (آج) اپنے حتمی جواب سے یہ اراکین آگاہ کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں سپیکر نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ پارلیمنٹ اس معاملے کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں جائے گا۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے کہا کہ حکومت کی طرف سے ہمیں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں یہ بات ہوئی تھی جس پر اس معاملے کو بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا اور وہاں یہ معاملہ طے پا گیا تھا جبکہ سندھ حکومت نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ سی سی آئی میں قطعاً یہ معاملہ نہیں اٹھا تھا۔ بین الصوبائی رابطہ کمیٹی میں جب اس پر بات ہوئی تو سندھ نے موقف اختیار کیا کہ اسے پہلے مشترکہ مفادات کونسل میں لے جائیں۔ سید نوید قمر نے کہا کہ میں اپنے ساتھیوں پر اس طرح کی بات کر کے بار بار کیچڑ نہیں اچھالنا چاہتا۔ مسئلے کو سی سی آئی میں لے جائیں وہاں جو فیصلہ ہو جائے ہمیں قبول ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں حل ہو اس کا کوئی راستہ نکلنا چاہئے لیکن یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کسی بھی موقع پر حکومت یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے نہیں لائی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت، کوئی ادارہ انفرادی طور پر بھی سپریم کورٹ جا سکتا ہے کسی پر قدغن تو نہیں لگائی جا سکتی۔ عبوری نتائج پر ہمارے تحفظات موجود ہیں۔ آئین پر بات کریں۔ سید نوید قمر نے واضح کیا کہ نااہل شخص پر سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کی پابندی کے بل کے معاملے پر حکومتی شکست کو دیکھ کر گذشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ حکومت اس معاملے میں ملوث ہے اور سمری بھجوا کر صدارتیفرمان منگوا لیا۔ حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت ہے اور نہ کورم پورا کرنے کے لئے مطلوبہ تعداد میں ارکان ایوان میں موجود ہوتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دوبارہ بات چیت ہوئی ہے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے اپنا موقف بیان کیا۔ پاکستان تحریک انصاف واضح کر دینا چاہتی ہے کہ ہم جمہوریت کے تسلسل اور بروقت انتخابات چاہتے ہیں۔ قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ بھی آئینی اور جمہوری ہے۔ جب حکومتیں غیرفعال ہو جائیں تو قبل ازوقت انتخابات میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہمیں مورد الزام ٹھہرا رہی تھی کہ اپوزیشن آئینی ترمیم میں رخنہ نہ ڈالے۔ تاخیر سے معاملات الجھ جائیں گے۔ اب حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس اچانک ملتوی کرا کے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے پاس مطلوبہ ارکان ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 228 ارکان آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے چاہئیں۔ ہمارے تو 30 ارکان اگر ہم اپنے سارے ارکان لے آئیں تو کیا حکومت ترمیم منظور کرا لے گی۔ بات یہ ہے کہ نہ دوتہائی اکثریت نے کے پاس ہے اور نہ کورم پورا کرنے کے لئے حکومت کے پاس مطلوبہ ارکان موجود ہوتے ہیں۔ حکومت کے 10 فیصد ارکان بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے اور ہماری اطلاعات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ کے اکثریتی ارکان حکومتی پالیسی سے متفق نہیں ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اداروں کے درمیان کسی بھی قسم کی محاذ آرائی ہو اور یہ بہت بڑا گروپ ہے جو کہ حکومتی طرز عمل سے نالاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ روز ہم پرائیویٹ ممبر ڈے کے موقع پر پارلیمنٹ کے لئے نااہل شخص پر سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کے بل جو کہ سینیٹ سے منظور ہو چکا ہے لانا چاہتے تھے۔ حکومت شکست کے خوف سے دوچار ہے اور اجلاس ہی ملتوی کروا دیا۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ 2008ءمیں مردم شماری ہونا تھی پیپلزپارٹی کے دور میں مردم شماری ہو سکی نہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت آغاز ہی میں اس حوالے سے کوئی اقدام کر سکی۔ دونوں بڑی جماعتوں کی غفلت کا بوجھ پارلیمنٹ کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ بالخصوص کراچی کی آبادی کم ظاہر کرنے پر تمام سٹیک ہولڈرز میں مشاورت ہوئی ہے انہوں نے عبوری نتائج کو مسترد کر دیا ہے، ہمارے تحفظات موجود ہیں جب نتائج کے حوالے سے تحفظات دور نہیں کئے جا رہے تو حلقہ بندیاں کیسے ہو سکیں گی۔ تاہم انتخابات بروقت ہونے چاہئیں۔ گذشتہ روز اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، اے این پی، ایم کیو ایم، جے یو آئی(ف)، عوامی مسلم لیگ، مسلم لیگ (زیڈ) اور دیگر جماعتوں کے ارکان شریک تھے۔ شیخ رشید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سارے پارلیمانی رہنماﺅں کا سپیکر سے مطالبہ تھا کہ انہوں نے گزشتہ روز اجلاس کیوں منسوخ کیا اس لئے کیونکہ منگل کو نا اہلی کا بل اسمبلی میں آنا تھا، جس پر سپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے صدارتی احکام کی روشنی میں اجلاس منسوخ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن تاخیر سے ہونے کا خدشہ ہے، سپیکر نے الیکشن کمیشن کو کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں جائیں، کیونکہ 10نومبر تک حلقہ بندیاں مکمل نہیں ہو سکتیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پنجاب کی 11سیٹیں متاثر ہو رہی ہیں، جس کا مقصد 33قومی اسمبلی کے حلقے متاثر ہوں گے، اگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ گیا تو الیکشن بروقت نہ ہو سکیں گے۔ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ بنیادی طور پر ہمیں مردم شماری پر اعتراض ہے، ہم اس معاملے میں ہائی کورٹ گئے ہوئے ہیں اور سپریم کورٹ میں بھی جائیں گے کیونکہ سندھ کی تعداد کم کرنے کا مطلب سیٹیں کم کرنا ہے، جتنی آبادی ہو گی، اتنے ہی فنڈز ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانیوں کو مردم شماری میں شمار کرنے سے اس حلقے کی تعداد میں اضافہ تو ہو جائے گا لیکن کیا یہ منصفانہ تقسیم ہو گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ بروقت حلقہ بندیاں نہ ہوئیں تو وقت پر الیکشن نہیں ہو سکیں گے، بروقت الیکشن کرنا مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی ذمہ داری ہے، انہوں نے 9سال کی تاخیر سے کیوں مردم شماری کرائی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق مشترکہ مفادات کونسل سے اجازت نہیں لی، نمبرز میں فرق ہونے کی وجہ سے سیٹوں کی تعداد میں بھی فرق آئے گا، انہوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بارے میں کہا کہ وہ ایک ادارہ ہے، سپریم کورٹ کو جانے سے کوئی کسی کو نہیں روک سکتا۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس اس لئے منسوخ کیا کیونکہ نا اہل شخص کو پارٹی سربراہ کے روکنے کا بل اسمبلی میں آتاتھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی پارٹی سے اجلاس کے حوالے سے معاملہ رکھیں گے اور آج اس بارے میں اجلاس میں دیکھیں گے۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی ہے، ملاقات پنجاب ہاو¿س میں کی گئی، جس میں ایاز صادق نے نواز شریف کو حلقہ بندیوں پر ہونے والے پارلیمانی رہنماوں کے اجلاس سے متعلق بریف کیا۔ ملاقات میں ایاز صادق نے آئینی ترمیم کے معاملے پر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے موقف سے پیدا ہونے والے ڈیڈلاک سے آگاہ کیا ،اس موقع پر نواز شریف نے اکثریتی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے ایاز صادق کو ہدایت جاری کیں کہ دیگر سیاسی جماعتوں سے معاملات طے کرنے اور مردم شماری کے عبوری نتائج پر رائے عامہ ہموار کی جائے۔اس سے قبل سابق وزیراعظم نوازشریف سے نیشنل پارٹی کے میر حاصل بزنجواورڈاکٹرعبدالمالک پر مشتمل وفد نے پنجاب ہاس میں ملاقات کی ، جس میں ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس کے علاوہ نئی حلقہ بندیوں اورمجوزہ آئینی ترمیم پربھی مشاورت ہوئی ،ملاقات میں بلوچستان حکومت کی کارکردگی پربھی بات چیت کی گئی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف سے وزرائے مملکت جنید انوار چودھری،ارشد لغاری اورسینیٹر سعود مجید نے بھی ملاقات کی جس میں ملکی سیاسی صورتحال پر بات چیت کی گئی تھی۔

 

37ارکان اسمبلی کا دہشتگردوں سے رابطہ ،نام سامنے آنے پر سراپا احتجاج

لاہور (خصوصی رپورٹ)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اراکین نے دہشت گردوں سے تعلق کے حوالے سے 37 اراکین پارلیمنٹ کی فہرست مبینہ طور پر انٹیلی جنس بیورو(آئی بی) کی جانب سے جاری ہونے پر احتجاج کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی بی کو طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا۔محمد قاسم نون کی صدارت میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قوائد ضوابط و استحقاق کا اجلاس ہوا جہاں اراکین کمیٹی نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ڈی جی آئی بی کو طلب کرنے کا مطالبہ کیا۔کمیٹی ارکان نے سوال اٹھایا کہ کیا آئی بی صرف ارکان پارلیمنٹ کے لئے بنی ہے؟ اگر لیٹر آئی بی نے جاری نہیں کیا تو ڈی جی آئی بی آ کر وضاحت پیش کریں۔ارکان کمیٹی نے کہا کہ ایک فہرست کے ذریعے ہم شرفا کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے اور اس مبینہ فہرست میں 7 وزرا کے نام بھی شامل ہیں جن پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔خیال رہے کہ دو ہفتے قبل ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اس حوالے سے دعوی کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے آئی بی کو رواں سال 10 جولائی کو چند اراکین اسمبلی پر نظر رکھنے کی ہدایت کی تھی جن میں اکثریت حکمران جماعت مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھتی تھی۔موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں رواں ہفتے کے آغاز میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے کو اٹھایا گیا تھا۔بعدا زاں آئی بی نے اس دعوی کو مسترد کرتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ وزیراعظم ہاس سے ایسی کوئی فہرست نہیں بھیجوائی گئی تھی۔مبینہ فہرست میں وزیر قانون زاہد حامد، ریاض حسین پیرزادہ، بلیغ الرحمن، سکندربوسن اور حافظ عبدالکریم جیسے اہم وزرا کےعلاوہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مرتضی جاوید عباسی اور طاقتور سینیٹرزکے نام شامل تھے۔

اب تک کی سب سے بڑی خبر ،قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد

اسلام آباد (آئی این پی) متحدہ اپوزیشن کا وزیراعظم پر پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر استعفے کے لئے دباﺅ بڑھانے کا فیصلہ‘ سینٹ اجلاس میں جے آئی ٹی رپورٹ کو بنیاد بنا کر حکومت پر کڑی تنقید کی حکمت عملی تیار کرلی گئی‘ پارلیمنٹ سے باہر حکومت مخالف جماعتوں سے رابطے تیز کرنے کا فیصلہ‘ وزیراعظم کی تبدیلی کے حوالے سے پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد لانے سمیت استعفیٰ دو تحریک شروع کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا گیا۔ ذرائع کے مطابق متحدہ اپوزیشن کے رہنماﺅں کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ مختلف اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم پر استعفے کے لئے دباﺅ بڑھانے کی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں پی پی پی‘ پی ٹی آئی ‘ متحدہ قومی موومنٹ‘ جماعت اسلامی اور دیگر ہم خیال جماعتوں کو ساتھ ملا کر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا۔ سینٹ کے (آج) ہونے والے اجلاس میں متحدہ اپوزیشن وزیراعظم پر کڑی تنقید کرے گی۔ متحدہ اپوزیشن کو سینٹ میں عددی اکثریت حاصل ہے۔ دوسری جانب حکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کے لئے کوشاں ہے تاکہ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ذرائع کے مطابق ایوان بالا میں جے آئی ٹی رپورٹ پر اپوزیشن کے اہم رہنماﺅں نے اپنی اپنی تقاریر میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے کمر کس لی ہے۔

قومی اسمبلی: آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2017ء منظور کر لیا گیا

اسلام آباد (ویب ڈیسک) طویل مشاورتوں، متعدد مذاکراتی نشستوں اور اختلافات کے بعد بالآخر قومی اسمبلی نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2017ءکو منظور کر لیا ہے جس کے تحت فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع کی گئی ہے۔اس سے قبل آج شام جب قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2017ءکا مسودہ منظوری کے لئے ایوان میں پیش کیا گیا۔ آئینی ترمیم سے پہلے آرمی ایکٹ بل میں ترمیم کی منظوری کا عمل شروع ہوا تو نعیمہ کشور، شیر اکبر، جمشید دستی اور اقبال قادری نے ترامیم پیش کیں۔ تاہم، جے یو آئی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور جمشید دستی کی ترامیم مسترد کر دی گئیں۔ جے یو آئی ف نے مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کا لفظ نکالنے کی ترمیم پیش کی تھی جبکہ جماعت اسلامی نے بھی مذہب اور مسلک کا لفظ نکالنے کی ترمیم پیش کی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی۔

1554دہشتگردوں کی تفصیلات پیش قومی اسمبلی میں نیا پنڈوراباکس کھل گیا

اسلام آباد (ویب ڈیسک) قومی اسمبلی میں جمعہ کو ملک میں گزشتہ سال 2016 میں گرفتار 1554 دہشت گردوں کی تفصیلات پیش کردی گئیں‘ مفرور دہشت گردوں کے ڈیٹا کی عدم موجودگی کا بھی اعتراف کیا گیا ہے ۔گزشتہ روز ثریا جتوئی کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری داخلہ افضل ڈھانڈلہ نے بتایا کہ 2016 میں گرفتار 1554 دہشت گردوں میں پنجاب میں 418 دہشت گرد گرفتار ہوئے‘ سندھ میں 178‘ خیبرپختونخوا میں 799‘ بلوچستان میں 40‘ اسلام آباد میں 7‘ آزاد کشمیر میں10 اور گلگت بلتستان میں 14 دہشت گرد گرفتار ہوئے۔ سوال میں 2016 میں فرار ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد کے بارے میں بھی پوچھا گیا تھا پارلیمانی سیکرٹری کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ مفرور دہشت گردوں کی تعداد کا تعین کیا جائے انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے کبھی کسی صوبے کا خصوصی طور پر نام نہیں لیا کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ پنجاب میں دہشت گردی نہیں ہورہی ہے۔ تمام صوبوں کو یکساں طور پر دیکھتے ہیں اور اس حوالے سے اقدامات لئے جاتے ہیں مسرت رفیق کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ اسلام آباد میں جرائم کی شرح کم ہوئی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں جرائم سے متعلق علاقوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ تمام جرائم کا تجزیہ کیا گیا ہے کار چوروں اور اغواءبرائے تاوان راہزنی اور ڈکیتیوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں۔ چھپے ہوئے مجرموں کو نکالنے کے لئے کچی آبادیوں کا سروے کیا گیا ہے ضمنی سوال پر ایوان میں پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی اور اس سے منسلک علاقے میں منشیات کے استعمال کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں قائد اعظم یونیورسٹی میں زیادہ منشیات استعمال ہورہی ہے تحقیقات کی جارہی ہیں۔ (ن غ/ ا ع)

کھلم کھلا قانون کی دھجیاں اُڑا نے والے اسمبلی اراکین بارے اہم انکشاف

کراچی(ویب ڈیسک ) سندھ اسمبلی میں قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے معطلی کے باوجود 17حکومتی و اپوزیشن اراکین مسلسل اسمبلی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، فنکشنل لیگ اور مسلم لیگ ن کے 17 اراکین سندھ اسمبلی کی رکنیت معطل کر رکھی ہے لیکن اس کے باوجود یہ اراکین اسمبلی کے اجلاس میں تواتر کے ساتھ شرکت کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے جن راکین کی رکنیت معطل ہے ان میں مکیش چالہ، جاوید ناگوری، ریحانہ لغاری، غزالہ سیال رخسانہ پروین، شہناز بیگم اور محمد علی بھٹو شامل ہیں۔الیکشن کمیشن کے مطابق ایم کیو ایم کے محفوظ یار خان، قمر عباس، سلیم بندھانی اور محمد کامران کی رکنیت بھی معطل ہے جبکہ فنکشنل لیگ کی نصرت سحر عباسی اور ن لیگ کے سرور تھیبو کی رکنیت بھی معطل ہے۔صوبائی الیکشن کمشنر کے مطابق گوشوارے جمع نہ کرانے کے باعث جن اراکین کی رکنیت معطل ہوتی ہے وہ سندھ اسمبلی سمیت کسی بھی حکومتی اجلاس میں شرکت نہیں کر سکتے۔