نئی دہلی( ویب ڈیسک ) بھارتی ایوان بالا راجیہ سبھا میں ‘اینیمی پراپرٹی ایکٹ 1968’ میں ترمیم کا بل پیش کیا گیا جسے اپوزیشن کے واک آو¿ٹ کے باوجود منظور کرلیا گیا۔ پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے متنازع بل کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بل سے غیر منصفانہ طور پر زیادہ تر مسلمان متاثر ہوں گے۔بھارت نے 1968 میں یہ قانون نافذ کیا تھا جس کے تحت حکومت کو اختیارات دیے گئے تھے کہ وہ ان بھارتی شہریوں کی جائیدادیں ضبط کرسکتی ہے جو جنگ کے دوران چین یا پاکستان چلے گئے تھے۔بھارت نے ان جائیدادوں کو ‘دشمن کی جائیداد’ کا نام دیا تھا۔برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ا±س وقت پاکستان نے بھی اسی طرح کا ایک قانون اپنایا تھا اور ان لوگوں کی جائیدادیں حکومتی تحویل میں لے لی تھیں جو ملک چھوڑ پر بھارت چلے گئے تھے، ترمیمی بل پراطلاق اس وقت سے ہوگا جب اصل قانون منظور ہوا تھا۔ترمیمی بل میں ‘دشمن’ کی تعریف کو مزید وسیع کردیا گیا ہے اور اس میں دشمن قرار دیے گئے شخص کے قانونی وارثوں کو بھی شامل کرلیا گیا ہے چاہے وہ وارث بھارت کا شہری ہو یا کسی ایسے ملک کا جسے بھارت دشمن نہیں سمجھتا۔بھارتی راجیہ سبھا کے ایک رکن حسین دلوائی استفسار کرتے ہیں کہ ‘جب کوئی خاندان بھارتی شہری ہے تو پھر حکومت کیسے انہیں دشمن تصور کرسکتی ہے اور ان سے جائیداد کی جانشینی کا حق چھین سکتی ہے؟’انہوں نے کہا کہ ‘یہ آئین کے خلاف ہے اور اس سے مسلمانوں کو غیر منصفانہ طریقے سے نشانہ بنایا جارہا ہے’۔تاہم بھارتی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ یہ ترامیم ‘عوام کے وسیع تر مفاد’ میں ہیں اور ‘اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ کھربوں روپے مالیت کی دشمن کی جائیدادیں دوبارہ دشمن یا دشمن کمپنی کے پاس نہ چلی جائیں’۔خیال رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 2005 میں یہ فیصلہ سنایا تھا کہ بھارت چھوڑ کر جانے والوں کے وہ قانونی وارث جو بھارتی شہری ہیں وہ ‘دشمن کی جائیداد’ کی حوالگی کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ محمود آباد کے سابق راجہ کے خاندان کی جانب سے دائر درخواست پر سنایا تھا جو کہ 1947 میں تقسیم ہند کے دوران بھارت چھوڑ گئے تھے۔بھارتی این ڈی ٹی وی کے مطابق اگر یہ قانون منظور ہوگیا تو سب سے زیادہ نقصان محمود آباد کے سابق راجہ کے خاندان کو ہوگا جنہوں نے 2005 میں اپنی 900 جائیدادوں کے حق میں سپریم کورٹ سے فیصلہ حاصل کیا تھا۔بھارتی ٹی وی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ قانون کی منظوری کی صورت میں نواب آف بھوپال کی جائیداد بھی حکومتی تحویل میں جاسکتی ہے اور یوں بولی ووڈ اداکارہ شرمیلا ٹیگور اور ان کے بیٹے فلم اسٹار سیف علی خان بھی جائیداد سے محروم ہوسکتے ہیں کیوں کہ سیف علی خان کے والد منصور علی خان پٹودی کے خاندان کے بھی کچھ لوگ کئی دہائیوں قبل پاکستان منتقل ہوئے تھے۔راجیہ سبھا میں پیش کیے جانے والے ترمیمی بل میں یہ شق بھی رکھی گئی ہے کہ ‘دشمن کی جائیداد’ سے متعلق معاملے کی سماعت سول عدالت نہیں کرسکے گی۔خیال رہے کہ بھارت کی کل آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 13 فیصد کے قریب ہے اور انہیں زمینوں کے حقوق، جائیداد خریدنے اور کرائے وغیرہ پر دینے کے معاملے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بھارتی حکومت ‘دشمن کی جائیداد’ کے قانون کے تحت اب تک 2100 املاک اپنے قبضے میں لے چکی ہے اور یہ جائیدادیں زیادہ تر مسلمان خاندانوں سے واپس لی گئی ہیں اور ان کی مالیت کا تخمینہ 10 کھرب بھارتی روپے (15 ارب ڈالر) بتائی جاتی ہے۔انسانی حقوق کے لیے سرگرم وکیل آنند گروور کہتے ہیں کہ ‘اس ترمیمی بل کا مقصد بظاہر مسلمانوں کو ان کے آبائی جائیداد کے حق سے محروم کرنا لگتا ہے، کوئی نہیں جانتا اب کیا ہوگا’