اسلام آباد (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے کہا ہے کہ شریف خاندان کی ایک ا ور چوری پکری گئی ، ریاستی طاقت کو ذاتی شوگر ملز بنانے کے لئے استعمال کیا گیا تاہم سپریم کورٹ نے ان کو بے نقاب کر دیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعے کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ”ٹوئٹر“ پر اپنے ایک پیغام میں کیا۔ چیئر مین تحریک انصاف نے کہا کہ شریف خاندان کرپشن کے ریکارڈ توڑ رہا ہے، پانامہ لیکس کا مقدمہ زیر سماعت ہونے کے باوجود ریاستی طاقت استعمال کر کے خاندانی شوگر ملز بنائے جا رہے ہیں تاہم ان کی یہ چوری بھی پکڑی گئی اور عدالت عظمیٰ نے ان شوگر ملوں پر کام روکنے کا حکم دے کر ان کو عوام کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ جس کے بعد عوام میں ان کی پوزیشن مزید کمزور ہو جائے گی۔ خیال رہے کہ 1روز قبل سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے 3ملوں کو کام سے روک دیا تھا جن میں اتفاق، حسیب، اور وقاص شوگر مل شامل ہے۔
Tag Archives: supreme-court-of-pakistan
شریف خاندان کی ملز کو تالے ….سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
اسلام آباد (ویب ڈیسک ) وزیراعظم نواز شریف کو پانامہ لیکس کے فیصلہ آنے سے پہلے بڑا دھچکا لگ گیا ،سپریم کورٹ آف پاکستان نے شریف خاندان کی تین شوگر ملز کو فوری بند کرنے کا حکم دیدیا ہے ،یہ فیصلہ عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف جے ڈی ڈبلیو شوگر مل کی درخواست پر سماعت سمیٹتے ہوئے دیا ہے، جبکہ عدالت عظمیٰ نے کیس لاہور ہائی کورٹ کو منتقل کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو سات روز میں کیس کا فیصلہ سنانے کی ہدایت کر دی ہے۔ جمعرات کو اتفاق شوگر مل کی شمالی سے جنوبی پنجاب متعلق درخواست کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی ۔ مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو جے ڈی ڈبلیو شوگر مل کی جانب سے سینئر وکیل اعتزاز احسن پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ہائیکورٹ نے اتفاق شوگر مل کو ابتدائی ریلیف فراہم کیا ہے اور کیس ابھی جاری ہے لیکن اتفاق شوگر مل نے ابتدائی ریلیف کی آڑ میں کرشنگ جاری رکھی ہوئی ہے،پاور پلانٹ کی آڑ میں شوگر مل لگائی گئی ہے ،جبکہ سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ موجود ہے کہ نئی شوگر مل نہیں لگائی جا سکتی، کپاس کی کاشت کے علاقوں میں شوگر مل نہیں لگائی جا سکتی، اتفاق شوگر مل فنکشنل نہیں تھی، منتقلی قانون کی خلاف ورزی ہے، قانون میں صرف فنکشنل شوگر مل منتقل کی جا سکتی ہے، اس پر چیف جسٹس نے اعتزاز احسن کو ہدایت کی کہ آپ اپنے آپ کو کیس کے دائر کار تک محدود کریں، جبکہ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اتفاق شوگر مل معاملے پر عدالت کو گمراہ کیا جا رہا ہے،جس پر چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ آپ یہ باتیں کر چکے، کیا اب بھی کوئی تشنگی رہ گئی ،آپ کہنا چاہتے ہیں کہ پاور پلانٹ کی جگہ شوگر مل لگی، منتقلی بھی غیر قانونی ہے، جبکہ اعتزاز احسن نے کہا کہ کرشنگ بند ہونی چاہیے، ہائیکورٹ سے ایک ماہ فیصلہ ہو جائیگا، جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے ابتدائی فیصلے میں مداخلت نہیں کر سکتے،آپ اپنے اصل چار نکات واضح کریںاس پر اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ اتفاق شوگرمل انتظامیہ نے عدالت کے ساتھ غلط بیانی کی ،عدالت کو بتایا گیا کہ شوگرمل نہیں پاور پلانٹ لگایا جارہا ہے، لاہورہائی کورٹ نے ہرقسم کی تعمیرات پرپابندی عائد کی ہے ،ڈی پی او، ڈی سی او نے تعمیراتی کام کی نگرانی کی،جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اعتزاز احسن سے استفسار کیا کہ عدالت عبوری حکم میں کس طرح مداخلت کرسکتی ہے ،ہائیکورٹ نے اتفاق شوگرمل کو کام جاری رکھنے کا عبوری حکم دیا ہے ، اس پر اعتزا ز احسن نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کرشنگ فوری طور پر روکنے کا حکم دے سکتی ہے،لاہور ہائیکورٹ نے لوکل کمشنر کو بھی تعینات کیا تھا،لوکل کمشنر نے رپورٹ دی کہ شوگرمل کا 70فیصد کام مکمل ہوچکا ہے،عدالت کے 9 سٹے آرڈر کی دھجیاں اڑائی گئیں ہیں ، اس پر چیف جسٹس نے اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اعتزاز صاحب آپ ایک ہی بات بار بار کررہے ہیں،لگتا ہے آپ بزرگی آ گئی ہے، میرے والد ایک بات باربار دہراتے تھے، پوچھنے پر والد صاحب کہتے تھے پترمیں یاد کروا رہا تھا، جس پر اعتزاز احسن نے مسکراتے ہوئے کہا کہ چیف صاحب میں تو آپ کو پتر بھی نہیں کہہ سکتا جس پر عدالت میں قہقے گونج اٹھے جبکہ اعتزا ز احسن نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ اتفاق شوگر مل انتظامیہ عدالتی احاکامات کی توہین کر رہی ہے اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شوگر مل انتظامیہ کی طرف سے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ثابت ہوئی تو توہین عدالت کی کاروائی کریں گے ،یہ نہیں دیکھیں گے کہ کس عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی ہوئی ،آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کی کاروائی سپریم کورٹ کرے گی۔ جبکہ اتفاق شوگر مل کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ2006 کے عدالتی حکم کے تحت مل کے ٹرانسفر پر کوئی پابندی نہیں تھی،جولائی 2015 میں شوگر مل لگ چکی تھی ،شوگر مل کے آپریشن پر عدالت نے کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ،ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی کہ شوگر مل نہیں لگ رہی،پاور پلانٹ شوگر مل کے ساتھ نیا منصوبہ ہے ،کسی کو اسکی زمین پر تعمیر کے بنیادی حق سے نہیں روکا جا سکتا،پنجاب حکومت نے شوگرملزکی منتقلی کی اجازت دی ہے عدالت نے شوگرملزکےاآپریشنزپرکوئی پابندی نہیں لگائی،اس پر چیف جسٹس نے نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کا مطلب ہے وزیراعلیٰ نے سمری کی منظوری اپنے خاندان کیلئے دی؟اس پرسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جس پر میرے کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے ، اس پر چیف جسٹس نے اتفاق شوگر مل کے وکیل سے استفسار کیا کہ اتفاق شوگرملزکے شیئرہولڈرزکون ہیں؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ طارق شفیع اوران کاخاندان شوگرملزکے شیئرہولڈرزہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حمزہ شہبازکا اتفاق شوگرملزسے کوئی تعلق نہیں؟جس پر سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز اوران کاخاندان اتفاق شوگرملزمیں شیئرہولڈرنہیں،جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا آپ یہ دوٹوک الفاظ میں کہ سکتے ہیں حمزہ شہبازکاشوگرملزمیں شیئرنہیں؟ بہترہوگا خود کوکیس تک محدود رکھیں،ہمیں اس طرف نہ لےجائیں جہاں آپ کیلئے مشکلات پیداہوں، حکم امتناع کے باوجود شوگرملزپرکام کیسے جاری رہا؟،توہین عدالت ثابت ہوئی تو کارروائی کریں گے، جبکہ جسٹس عمر عطاءبندیا ل نے ریمارکس دیئے کہ مفادات کے ٹکراﺅ کو ضرور مد نظر رکھیں گے ،ایک صوبے کا چیف ایگزیکٹو ایسی پالیس کا اعلان کرتا ہے جو بلواسطہ یا بلاواسطہ اس کے خاندان سے متعلق ہے، ،جبکہ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کا عبوری حکم بالکل مناسب ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بغیر وجہ بتائے دیا گیا حکم مناسب کیسے ہوگیا۔ وکلاءکے دلائل سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے اتفاق ،چوہدری اور حسیب وقاص شوگر ملز کے کرشنگ آپریشن سات روز کے ر وکنے کا حکم دیتے ہوئے کیس دوبارہ لاہور ہائی کورٹ بھجوا دیا ، عدالت نے کہا ہے کہ جب تک ہائیکورٹ حکم امتناعی کا معاملہ نہیں نمٹاتی شوگرملزکے آپریشنز بند رہیں گے، چیف جسٹس ہائیکورٹ منگل 16 فروری کو تمام فریقین کو سن کرمناسب فیصلہ دیںاورلاہورہائی کورٹ 7 دن کے اندر فیصلہ یقینی بنائے جبکہ تمام فریقین کو اجازت ہے کہ تمام نئے دستاویزات عدالت عالیہ میں جمع کرائیں، عدالتی فیصلہ میں میں کہا گیا ہے کہ بیشتردستاویزات جوسپریم کورٹ کے سامنے آئے، ہائیکورٹ کے سامنے نہیں تھے۔
پاناما لیکس :سپریم کورٹ نے بند گلی کو کھول دیا ….اہم انکشاف
لاہور(ویب ڈیسک) سینئر قانون دان اور سینیٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس کیس میں سپریم کورٹ نے بند گلی کو کھول دیا ہے ‘ دیوار چین بھی اب پانامہ کی حقیقت کو چھپا نہیں سکتی‘ پانامہ لیکس کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کے رکن جسٹس عظمت سعید کی بیماری کی وجہ سے بنچ تحلیل نہیں ہوا‘سماعت اب سوموار کے روز ہوگی ‘نیوز لیک والے مسئلے پر مٹی ڈالی گئی تو سب کے چہرے پر مٹی پڑے گی حکمرانوں کو اس کا حساب اور جواب دےنا ہی پڑ ےگا ۔ لاہور ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر بابر اعوان نے کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز کا مک مکا سب کے سامنے آگیا ہے پانامہ کا کیس عمران بمقابلہ نواز شریف نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان بمقابلہ کرپشن ہے‘ منی ٹریل کے بغیر میاں برادران کی پانامہ لیکس سے جان نہیں چھوٹے گی جہاں تک نےوزلےک کا تعلق ہے تو نیوز لیک والے مسئلے پر مٹی ڈالی گئی تو سب کے چہرے پر مٹی پڑے گی۔ایک سوال کے جواب میں بابر اعوان نے کہا کہ پانامہ لیکس کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کے رکن جسٹس عظمت سعید کی بیماری کی وجہ سے بنچ تحلیل نہیں ہوا۔
پاناما کیس؛ وزیر اعظم کی تقریر اعتراف جرم ہے، وکیل جماعت اسلامی
اسلام آباد: پاناما کیس میں جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے لندن میں اپنے اثاثے چھپائے اور ان کی تقریر اعتراف جرم ہے۔پاناما لیکس کیس کی 13 ہویں سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے بطورممبر قومی اسمبلی اور بطور وزیراعظم جو حلف اٹھایا اس کی پاسداری نہیں کی، نوازشریف نے اپنے لندن کے اثاثے چھپائے اس لئے وہ نا اہل ہو گئے ہیں، وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ فلیٹ 1993 سے 1996 میں خریدے گئے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ بات کہاں مانی گئی، ایسا ہوتا تو ہم کیس کیوں سن رہے ہیں۔جماعت اسلامی کے وکیل کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے اپنی تقریرمیں بتایا کہ اتفاق فاؤنڈری 1980 میں خسارے میں تھی، اتفاق فاؤنڈری 3 سال میں خسارہ ختم کر کے 60 کروڑ منافع میں چلی گئی اوراتفاق فاؤنڈری کا دائرہ کئی کمپنیوں تک پہنچ گیا، دبئی میں گلف اسٹیل مل قائم کی گئی جو 9 ملین ڈالرز میں فروخت ہوئی، یہ نہیں بتایا گیا کہ کارروبار کی رقم کہاں سے آئی، وزیراعظم کی تقریرکو درست مان لیا جائے کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کا الزام یہ ہے کہ جان بوجھ کرلندن کے اثاثے چھپائے گئے؟ آپ کہہ رہے ہیں حلف کی پاسداری نہیں کی اس لئے نااہل قراردیا جائے، جس پر توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریربطورشواہد استعمال ہو سکتی ہے اور نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے۔جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف نے کاغذات نامزدگی اورگوشواروں میں لندن اثاثوں کا ذکر نہیں کیا، کیا نواز شریف کی قومی اسمبلی میں تقریر قانون شہادت کے زمرے میں نہیں آتی، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کو 183 تین کے مقدمے میں ڈکلریشن دینے کا اختیار ہے؟ توفیق آصف نے کہا کہ سپریم کورٹ 184 تین کے تحت ڈکلیریشن دے سکتی ہے کیونکہ نوازشریف نے لندن فلیٹس کی ملکیت سے انکارنہیں کیا، وزیراعظم نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔توفیق آصف نے کہا کہ میرا زیادہ انحصاروزیراعظم کی تقریرپر ہے، وزیر اعظم کی تقریر اسمبلی کی معمول کی کارروائی نہیں تھی، وزیر اعظم نے اسمبلی میں کوئی پالیسی بیان نہیں دیا جواستحقاق بنتا ہو۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا وزیر عظم کی تقریر ایجنڈے کا حصہ تھی؟ کیا ذاتی الزامات کا جواب دینے کے لیے اسمبلی کا فلور استعمال ہو سکتا ہے؟ ایسا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ ہے جس کے تحت وزیر اعظم عہدے کے ساتھ کاروبار نہیں کر سکتے؟ جماعت اسلامی کے وکیل نے جواب دیا کہ ایسی کوئی پابندی نہیں، جس پرجسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ مفروضوں پر ہمیں کہاں گھسیٹ کرلے جا رہے ہیں، مفادات کے ٹکراؤ کا کوئی مواد اور شواہد ہمارے سامنے نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ نے ایکشن لے لیا ….نوٹس جاری
اسلام آباد (ویب ڈیسک)پاناما کیس میں دوران سماعت سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کی وزیر اعظم سے متعلق نااہلی کی دوخواست کو باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے وزیر اعظم سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرنے کا حکم کیا ہے جبکہ دوران سماعت دوران سماعت جسٹس توفیق آصف سے استفسار کیا ہے کہ آپ کی دوخواست پر دلائل دینے کیلئے تیار ہیں
پاناما کیس:وزیراعظم کی تقاریر اور عدالتی موقف میں تضاد پر وضاحت طلب
اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں وزیراعظم نواز شریف کی تقاریر اور عدالتی موقف میں تضاد پر وضاحت طلب کر لی۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے بینک ٹرانزیکشن کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام ٹرانزیکشن بینک کے ذریعے ہوئیں اور بچوں کو تمام تحائف بینک کے ذریعے دیئے گئے جبکہ ٹیکس بینک کے علاوہ ادائیگیوں پر لاگو ہوتا ہے۔ مخدوم علی خان نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ حسین نواز ٹیکس دیتے ہیں اور ان کا نیشنل ٹیکس نمبر بھی موجود ہے اور اس حوالے سے ان پر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں۔ مریم نواز والد کے زیر کفالت نہیں ہیں جبکہ وزیراعظم نے مریم نواز کو تحائف بینکوں کے ذریعے دیئے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کے موکل پر الزام ہے انہوں نے رقوم غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجیں، رقوم کی منتقلی کے حوالے سے آپ کو تفصیلات دینا ہوں گی۔ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ کسی تیکنیکی نکتے کے پیچھے چھپنے کی کوشش نہیں کروں گا، درخواست گزار نے ویلتھ ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا لیکن تحقیقات کی عدم موجودگی میں آرٹیکل 184 کے تحت سماعت نہیں ہو سکتی جبکہ منی لانڈرنگ تحقیقات میں نامزد ملزمان کو شامل نہیں کیا گیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے کی پہلے بھی تحقیقات ہو چکی ہیں اور تحقیقات میں بعض افراد کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لیے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے، منی لانڈرنگ کر کے وہی رقم واپس پاکستان بھجوائی جاتی ہے، بلیک منی کو وائٹ کرنے والی بات نواز شریف کے حوالے سے نہیں کی بلکہ رحمان ملک کی رپورٹ میں حوالہ اور ہنڈی سے رقم باہر بھیجنے کا ذکر ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ منی لانڈرنگ بیرون ملک بھی ہو تو حکام یہاں رابطہ کرتے ہیں، درخواست گزار نے خود تحقیقات کا مطالبہ کیا لیکن تحقیقات سے قبل آرٹیکل 63 کے تحت نااہلی کیسے ہو سکتی ہے؟
منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیق تو بہت ہوئی لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا
اسلام آباد(ویب ڈیسک) پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیق تو بہت ہوئی لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ پاناما لیکس کیس کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے کہ انہیں گزشتہ روز آرٹیکل باسٹھ ،تریسٹھ سے متعلق آبزرویشن نہیں دینا چاہئے تھی، انہیں اپنے الفاظ پر ندامت ہے اور وہ ان الفاظ کو واپس لیتے ہیں۔عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسحاق ڈار کی منی لانڈرنگ کے بارے میں رپورٹ تیار ہوئی تھی، جسے ستمبر 1998 میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ، چیف جسٹس آف پاکستان اور نیب کو بھیجا گیا تھا ، اس رپورٹ کو ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر رحمان ملک نے تحریر کیا تھا۔ اس دوران جسٹس گلزار نے نعیم بخاری کو تن بیہہ کی کہ عدالت جب کوئی سوال پوچھے تو اس کا جواب دیا جائے۔جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ پاناما کیس لندن فلیٹس تک محدود ہے، اسحاق ڈار کے بیان کی کیا اہمیت ہے کیا وہ شریک ملزم ہے؟، ہمیں مطمئن کریں کہ نیب کو حدیبیہ کیس میں اپیل کرنا چاہیے تھی، اگر آپ دوسری جانب دلائل دیں گے تو معاملہ کہیں اور نکل جائے گا، سپریم کورٹ کا تقدس ہر حال میں برقرار رکھنا ہوگا، ہمیں اپنے دائرہ کار سے باہر نہ نکالیں، ہائی کورٹ مقدمہ ختم کر دے تو اس کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے۔ محض پولیس ڈائری کی بنیاد پر حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، تفتیشی ادارے جو اقدامات کریں انہیں قانونی طور پر پرکھنا ہوتا ہے، نیب کو تحقیقات کا کہہ سکتے ہیں لیکن ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہیں گے، سپریم کورٹ نیب اور ٹرائل کورٹ کا کام نہیں کر سکتی، آپ نیب کے پاس جائیں اور درخواست دیں، ہم ٹرائل کورٹ نہیں۔نعیم بخاری نے کہا کہ اسحاق ڈار نے بیان میں منی لانڈرنگ میں کردار کا اعتراف کیا، ماضی میں تو عدالت عظمی اخباری تراشوں پر بھی فیصلے کرتی رہی۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بخاری صاحب عدالت کو مطمئن کریں قوم سے خطاب نہ کریں، آپ کہتے ہیں کہ رائے کی بنیاد پر بغیر ثبوت فیصلہ کریں، یہ رپورٹ ایف آئی اے خود مسترد کر چکی ہے اس پر فیصلہ کیسے دیں، رحمان ملک کا نام شاید پاناما لیکس میں ہے۔ کیا عدالت فیصلہ کرنے کا اختیار رحمان ملک کو دے دے۔ اپنے دوست رحمان ملک کو جرح کے لئے کب لا رہے ہیں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ ایف آئی اے کا مقدمہ اپنی طبعی موت مر گیا، وہ اپنے جواب الجواب میں رحمان ملک کو جرح کے لئے بلائیں گے۔
حدیبیہ ملز کیس: پی ٹی آئی کومشورہ مل گیا
اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے پاناما کیس کی چوتھی سماعت کے دوران حدیبیہ ملز کیس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو نیب ریفرنس دائر کرنے کی تجویز دے دی۔دورانِ سماعت پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت سے چیئرمین نیب کو عدالت بلاکر حدیبیہ پیپیرز مل کیس میں اپیل دائر نہ کرنے کی وجہ پوچھنے کا مطالبہ کیا۔جسٹس کھوسہ کا نعیم بخاری کے دلائل پر کہنا تھا کہ اب تک حدیبیہ پیپر ملز کے الزامات موجود ہیں، ان کا کہنا تھا کہ نیب کو حکم دے دیتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے۔جس پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ اگر نیب اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا تو آرٹیکل 187 کے تحت عدالت براہ راست احکامات جاری کر سکتی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیوں نہ چیئرمین نیب کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جائے؟ساتھ ہی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پی ٹی آئی وکیل نعیم بخاری سے سوال کیا کہ پہلے آپ نے مقدمہ میں لندن فلیٹس کے بارے میںبات کی اب چھلانگ لگا کر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کی طرف چلے گئے ہیں۔عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ہم حدیبیہ پیپرز ملز کیس دوبارہ بھیج دیتے ہیں تو پھر آرٹیکل 184 کے تحت مقدمے کا فیصلہ نہیں کر سکتے، اگر پاناما کیس کو حدیبیہ کیس کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تو مقدمے کی تصویر واضح نہیں ہوگی۔نعیم بخاری نے عدالت میں حسین نواز اور مریم نواز کے درمیان ہونے والی ٹرسٹ ڈیڈز پر بھی سوال اٹھائے، ان کا کہنا تھا کہ لندن میں مقامی سولسٹر نے بیان دیا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ اس کے سامنے ہوئی تھی اور ایک فریق نے جدہ اور دوسرے نے مے فیئر لندن کی ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کیے۔جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اگر سرٹیفکیٹ حسین نواز کے پاس ہیں تو وہ بطور مالک ٹرسٹ ڈیڈ کرسکتے ہیں۔جسٹس عظمت سعید شیخ کا یہ بھی کہنا تھا کہ شریف خاندان کے کاغذات نامکمل ہیں اور ان کے وکلائ کو بہت سے معاملات کا جواب دینا ہوگا۔
چار متضاد بیانات سے دلدل میں پھنس گئے….
لاہور (ویب ڈیسک)پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما عابد حسین صدیقی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم چار متضاد بیانات دے کر پاناما لیکس کی دلدل میں پھنس چکے ہیں وزیر اعظم کو لاکھوں ڈالر کا دبئی، سعودی عرب، قطر اور لندن پہنچنے کا جواب دینا ہو گا۔ یہاں سے جاری ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن متعدد اراکین اسمبلی کو بیرو ن ملک کی جائیدادیں ظاہر نہ کرنے پر نا اہل کر چکا ہے وزیر اعظم نے گوشواروں میں اپنی اہلیہ کی بیرون ملک جائیداد کا ذکر نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ صادق اور امین نہیں رہے اور آرٹیکل 62-63 کے زمرے میں آتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نے پاناما پیپرزکے منظر عام پر آنے کے بعد قوم سے خطاب اور بعد ازاں پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ملک سے ہر قسم کے احتساب کے لئے خود کو پیش کر دیں گے۔ اخلاقیات کا یہی تقاضا ہے وزیر اعظم مستعفی ہو کر عدالتوں کا سامنا کریں اور اپنے خلاف لگے الزامات کا جواب دیں۔
ملکیت ثابت ہوئی تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہوگا
اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کیس میں وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے جمع کرائے گئے ضمنی جواب اور تقاریرمیں تضاد ہے جب کہ 2006سے پہلے آف شورکمپنیوں کی ملکیت ثابت ہوگئی تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہوگا۔پاناما لیکس کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ کر رہا ہے۔ سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ حامد خان بہت سینئر وکیل ہیں اور انہوں نے قانون پرکتاب بھی لکھ رکھی ہے لہذا میڈیا کو ان کے حوالے سے احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ ریکارڈ سے ثابت کروں گا کہ وزیراعظم نے غلط بیانی کی اورٹیکس چوری کے مرتکب ہوئے، وزیراعظم نے 13 اپریل 2016 کو قوم سے خطاب کیا اورقوم سے جھوٹ بولا، دوسرے خطاب میں بھی وزیراعظم نے سچ نہیں بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے بیٹے سے پیسے لئے جب کہ وزیراعظم کے صاحبزادے کا این ٹی این نمبرہی نہیں ہے، مریم نوازوزیراعظم کی زیرکفالت ہیں اورلندن فلیٹس کی بینیفیشل آنرہیں، وزیراعظم کو یہ بات گوشواروں میں ظاہرکرنا چاہیے تھی جب کہ قطری شہزادے کا خط وزیر اعظم کے موقف سے بالکل مختلف ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ نیب اور دیگر ادارے اپنا کام کرنے میں ناکام رہے، نیب وزیر اعظم کو بچانے میں لگا رہا جس پر نیب چیئرمین کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کیس میں اعترافی بیان دیا، جس پر جسٹس عظمیت سعید شیخ نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ آ چکا ہے۔ نعیم بخاری نے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم نے اپریل 1980 میں 33 ملین درہم میں فیکٹری فروخت کرنے کا بتایا، یہ رقم کل ملا کر90 کروڑڈالربنتی ہے، دبئی میں فیکٹری کب بنائی گئی وزیراعظم نے اپنے بیان میں نہیں بتایا جب کہ دبئی حکومت کے خط پرکوئی دستخط بھی نہیں ہیں، شیئرز کی فروخت کا معاملہ وزیراعظم کی ذہنی اختراع ہے۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم نے جدہ فیکٹری کے لئے بینکوں سے قرضہ لینے کا ذکر کیا، جدہ فیکٹری جون 2004 میں ایک کروڑ70 لاکھ ڈالرڈالرمیں فروخت کرنے کا کہا گیا جب کہ لندن فلیٹس 1993 سے 1996 کے درمیان خریدے گئے، جس پرجسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ دبئی اسٹیل مل کی طرح جدہ اسٹیل مل کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا جب کہ جسٹس اعجازالحسن نے استفسارکیا کہ سعودی بینکوں سے قرضہ کیسے لیا؟، جدہ فیکٹری کتنے میں اور کیسے فروخت کی گئی۔ عدالت میں پیش کئے گئے ضمنی جواب اور تقاریر میں تضاد ہے، دونوں مواقع پر کی گئی تقاریر میں بھی تضاد ہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ وزیراعظم کے بقول تمام دستاویزات موجود ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ دستاویزات ہر جگہ موجود ہوں گی لیکن عدالت میں موجود نہیں ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ وہ ذرائع ہیں جن سے لندن فلیٹس خریدے گئے، دستاویزات سے لگتا ہے کہ طارق شفیع میاں شریف کے لیے کام کرتے تھے، دستخط طارق شفیع نے کیے تو شہباز شریف وہاں نمائندگی کس بات کی کررہے تھے؟، طارق شفیع کے 2 دستاویزات میں کیے گئے دستخطوں میں کوئی مماثلت نہیں۔نعیم بخاری نے کہا کہ گلف اسٹیل مل2 کروڑ 10 لاکھ درہم میں فروخت ہوئی لیکن مل کی فروخت سے طارق شفیع کو ایک روپیہ تک نہیں ملا، طارق شفیع نے اپنے بیان میں آدھا سچ بولا، انہوں نے بیان حلفی میں کہا کہ دبئی کا کاروبار بے نامی تھا جب کہ شہباز شریف نے طارق شفیع بن کر دستاویزات پر دستخط کیے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ لگتا ہے سب کچھ میاں محمد شریف نے کیا ہے، جدہ اور دبئی میں فیکٹریوں کے حوالے سے میاں شریف کے بچوں اور آگے سے ان کے بچوں نے کیا کردار ادا کیا؟۔نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ حسن نواز 21 جنوری 1976 میں پیدا ہوئے، حسین نواز 20 اکتوبر 1972 کو پیدا ہوئے اور مریم نواز 28 اکتوبر 1973 کو پیدا ہوئیں، لندن میں جائیدادیں میاں شریف نے خریدیں تو بھی ان کی جائیداد ثابت ہوتی ہے۔ جسٹس عظمت شعید شیخ نے کہا کہ قطری شہزادے نے خط میں بڑے بھائی کا ذکر کیا لیکن نام نہیں بتایا، قطری شہزادے نے انگلینڈ میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کا ذکر بھی نہیں کیا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ دبئی سے پیسہ کب، کیسے اور کس بینک اکاو¿نٹ کے ذریعے منتقل ہوا اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قطر سے پیسہ لندن کیسے گیا یہ بھی نہیں بتایا گیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کو 2006 سے پہلے شریف خاندان کی آف شور کمپنیو ں کی ملکیت ثابت کرنا ہوگی، اگر یہ ثابت ہوجائے تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہوگا۔نعیم بخاری نے کہا کہ 21 جولائی 1995 کو فلیٹ نمبر 16 اور 16 اے خریدے گئے جب کہ فلیٹ 17 اے 2004 میں خریدا گیا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ فلیٹس کتنے میں خریدے گئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حماد بن جاسم کی تاریخ پیدائش بھی انٹر نیٹ سے ڈھونڈیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ الثانی فیملی کے مردوں کے نام ایک جیسے ہیں اس لئے جاسم کی تاریخ پیدائش جاننا مشکل ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ قطری شہزادے کو یہ سب کس نے بتایا کہ خط کے مطابق میاں شریف نے رقم حسین نواز کو دینے کا کہا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قطری شہزادے نے خط کس کو لکھا، قطری شہزادے کا خط تصدیق شدہ نہیں، کیا اس خط کی قانونی حیثیت ہے، نعیم بخاری نے جواب دیا کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگرخط کی کوئی حیثیت نہیں تو اس کو کیوں پڑھیں۔نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں قطری سرمایہ کاری کی بات کرنا بھول گئے تھے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ سرمایہ کاری اگر وزیر اعظم نے کی ہوتی تو شاید ان کو یاد ہوتا۔ عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ والد کے ساتھ رہتی ہوں لیکن جائیداد سے تعلق نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی ٹرسٹی ہیں، لندن فلیٹس حسین نواز کی ملکیت میں تسلیم کئے گئے ہیں، یونہی زور نہ لگائیں اور کچی دیواروں پر پیر نہ جمائیں، ہم سیاسی بیانات کا جائزہ نہیں لے سکتے، آپ سونے میں کھوٹ کیوں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے کیس میں اخباری خبروں کو کیوں لاتے ہیں، غیر ملکی اخباروں کی خبروں پر عمران خان نے بھی تنقید نہیں کی، کیا آپ کے موکل کے بارے انگریزی اخباروں میں جو 30 سال تک چھپتا رہا اسے بھی مان لیں، آپ کہتے ہیں کہ اخبار جو چھاپتا ہے اسے مان لیں، اخباری خبروں پر فیصلہ سنایا تو آپ کے موکل کے لئے بھی پریشانی ہو سکتی ہے۔عمران خان کے وکیل نے موقف اختیار کہ کہ مریم نواز کے مطابق ان کی ملک اور بیرون ملک جائیداد نہیں اور وہ والد کے ساتھ رہتی ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ مریم شادی شدہ ہے تو وہ والد کے ساتھ کیسے رہتی ہے؟، کیا ان کے شوہر بھی اپنے ساس سسر کے پاس رہتے ہیں؟، نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز نے اپنا پتہ جاتی عمرہ لکھا ہے اور ان کے شوہر اپنی بیوی کے ساتھ نہیں رہتے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ زیادہ آگے نہیں جانا چاہیئے کیونکہ معاملہ ذاتی حیثیت کا ہے لیکن مریم نواز کے انٹرویو کا دوسرا حصہ اہم ہے۔