Tag Archives: Zia shahid k.jpg

اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ قائد اعظم کی جماعت کا نام استعمال کرتی ہے:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ حکومت بارے شکایت عام ہے کہ تعمیراتی کاموں کے ٹھیکے شفاف طریقے سے نہیں دیئے جا رہے، چین سے جو قرض لیا جا رہا ہے اس بارے بھی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ شریف برادران کئی بار بالواسطہ یا بلاواسطہ کہہ چکا ہے کہ پاکستان اور چین میں معاہدہ کے تحت کسی کام کا ٹینڈر دینے کی اجازت نہیں ہے اور دونوں پارٹیاں مل کر طے کر لیتی ہی ںکہ کام کس کو دینا ہے۔ شہباز شریف سے کہوں گا کہ ایسا معاہدہ ہے تو اسے ختم کرا دیں پوری دنیا میں ٹینڈر سسٹم چلتا ہے۔ تو یہاں بھی اس کے تحت کام دینا چاہئے ورنہ شفافیت پر آوازیں تو اٹھیں گی چین اور پاکستان کے نظام حکومت میں زمین آسمان کا فرق ہے وہاں تو معمولی احتجاج پر لوگوں پر ٹینک چڑھا دیئے جاتے ہیں۔ ہمارے قوانین مختلف ہیں اور ہمیں اپنے قوانین کے تحت کام کرنا چاہئے۔ دنیا کے ایک طاقتور اور ترقی یافتہ ملک برطانیہ کا وزیراعظم 10 ڈاﺅننگ سٹریٹ میں عام فلیٹ میں رہتا ہے جبکہ ہمارے ہاں وزیراعظم ہاﺅس اور ایوان صدر ایکڑوں پر قائم ہیں انہیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ اس ملک پر کھربوں کے قرضے ہیں۔ شریف خاندان کو آج تک عدالتوں سے سزا نہیں ہوئی اس لئے سندھی اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم کے ساتھ اور پنجاب کے وزیراعظم کے ساتھ مختلف سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف کا ایک ہی جیسے کیس میں سپریم کورٹ نے مختلف فیصلے دیئے بینظیر بھٹو ٹھیک کہتی تھیں کہ یہ سب چمک کا نتیجہ ہے۔ صنعتکار میاں منشاءنے کس طرح بنک خریدا، سارے پراجیکٹ کلیئر ہوتے رہے اور جب انکوائری کی بات شروع ہوئی تو شور مچا دیا کہ تنگ کیا جا رہا ہے۔ شاہی خاندان غصہ میں آیا اور ایف آئی اے، ایف بی آر کو جھڑکیاں پڑیں۔ میاں منشاءخاندان کی ایک مل تھی آج دولت کا کوئی شمار نہیں ہے۔ ہمارے اداروں میں اتنا دم خم نہیں کہ کسی بھی کرپٹ شخص کے خلاف کارروائی کر سکیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ نوازشریف کو ٹھوس بنیادوں پر کیسز لڑنے چاہئیں، تاخیری حربوں کے بجائے سنجیدگی سے کیسز کا سامنا کرنا چاہئے لیکن وہ چھکے لگانے سے باز نہیں آتے، پورا شریف خاندان عدالتوں کو برا بھلا کہہ رہا ہے یہ کیا روایت بنائی جا رہی ہے۔ اس طرح تو یہ مجرم عدالتوں کے سامنے کھرا ہو جائے گا، قاتل بھی دھمکی دے گا کہ مجھے پھانسی لگایا تو بدلہ لوں گا شریف خاندان اور اسحاق ڈار بادشاہوں کی طرح عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔ اسحاق ڈار کی پیشی پر وہاں موجود ملزموں کا منہ دیوار کی جانب کرا دیا گیا، ایسے نظام پر تو تین حرف بھیجنے کو دل چاہتا ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ فارورڈ بلاک کی خبریں اڑ رہی ہیں۔ شریف فیملی کا اقتدار جاتا دکھائی دے رہا ہے تو اب سارے فصلی بٹیرے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی جو خوف کے باعث مجبوری میں ن لیگ میں آئے تھے اب مجبوری نہیں رہی تو واپس پیپلزپارٹی میں جا رہے ہیں۔ سینکڑوں ارکان اسمبلی کو جانتا ہوں جو اس وقت کھسر پھسر کرتے پھر رہے ہیں کہ کہیں سے کوئی اشارہ آیا ہے، بقول چودھری شجاعت کچھ ارکان پیپلزپارٹی کچھ ق لیگ اور کچھ تحریک انصاف میں چلے جائیں گے۔ نطریاتی مسلم لیگ تو کب کی ختم ہو چکی اب تو صرف اس کا نام اسٹیبلشمنٹ استعمال کرتی لوگوں کو اکٹھا کرتی اور حکومت سونپ دیتی ہے۔ مسلم لیگ کو ایک عزاز ضرور حاصل ہے کہ ایک مسلم لیگ حکومت میں ہوتی ہے جبکہ دوسری اپوزیشن میں ہوتی ہے۔ کبھی کنونشن لیگ بنی، کبھی ق لیگ اور کبھی ن لیگ بنائی گئی۔ پاکستان میں ظلم کا نظام ہے جو برباد ہو جانا چاہئے، نظام انصاف ایک مذاق اور لعنت بن چکا ہے اور ظلم یہ ہے کہ حکمران مثالیں حضرت عمرؓ کے عدل کی دیتے ہیں وہ حکمران جن کی شاہی سواری میں درجنوں لگژری گاڑیاں گزرتی ہیں تو سارا شہر بند کرنا پڑتا ہے۔ شریف خاندان نے کمال کی مثال قائم کی ہے کہ جو عدالت ان پر الزام دے اس کی ایسی تیسی پھیر دو، پھر لوگوں کا ہجوم عدالت میں گھسا دو، جج صاحب ریٹائرنگ روم میں گھس کر کنڈی چڑھا لیتے ہیں اور چیف جسٹس نوٹس لیتے ہیں نہ آرمی چیف۔ پہلے طالب علم فوج میں جانا پسند کرتے تھے اب سیاستدان بننا پسند کیاں کریں گے ہر شخص سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ حکمرانوں کے دائیں بائیں بیٹھے لوگوں میں کسی طھرح شامل ہو جائے تو وارے نیارے ہو جائیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ سندھ طاق معاہدے کے تحت ستلج اور راوی کا پانی بھارت کو دیا گیا تو طے پایا تھا کہ پینے کا پانی، آبی حیات اور ماحولیات کیلئے تھوڑا پانی چھوڑنا لازمی ہو گا لیکن بھارت سارا پانی روک لیتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کیلئے پیسے رکھے گئے لیکن اسے بھی تنازعات کا شکار بنا دیا گیا۔ ہیڈتریموں سے نہر نکلنا تھی جس کا پانی ستلج میں ڈالنا تھا وہ بھی نہ بن سی۔ جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی نے آج تک ایوان میں یہ بات تک نہیں کی کہ وہ نہر بھی بنا دو۔

”شہید وفا“ اعجاز الحق نے ضیاءالحق کے بارے میں کتاب ضیا شاہد کو پیش کی

لاہور (خصوصی رپورٹ) رکن قومی اسمبلی اور ضیاءالحق شہید فاﺅنڈیشن کے سربراہ محمد اعجاز الحق نے گزشتہ روز خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد کو اپنی کتاب ”شہید وفا“ پیش کی جو ان کے والد جنرل محمد ضیاءالحق کے حوالے سے ہے۔ کتاب شہید صدر کے حوالے سے مختلف شخصیات کی آراءکے حوالے سے ہے۔ کتاب کے پانچ باب ہیں۔ پہلے باب میں جنرل ضیاءالحق کے اقربا، دوسرے میں مذہبی رہنماﺅں اور اساتذہ، تیسرے میں صحافتی وادبی شخصیات، چوتھے میں سیاسی، عسکری اور سماجی شخصیات جبکہ پانچویں باب میں غیرملکی شخصیات کے علاوہ معتبر عالمی اخبارات وجرائد کی آراءشامل ہیں۔ یہ کتاب کے آخر میں انہیں منظوم ہدیہ عقیدت بھی پیش کیا گیا ہے۔ 425 صحفات پر مشتمل یہ کتاب ضیاءالحق شہید فاﺅنڈیشن نے شائع کی ہے۔

عدلیہ سے جنگ ،جمہوری حکومت چلتی نظر نہیں آتی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نوازشریف کی نظرثانی اپیل پر جو کچھ ہوا اس کا پہلے سے اندازہ تھا۔ عدالت کے مسترد کرنے کے بعد اب دیکھتے ہیں کہ ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سعد رفیق نے جس ردعمل کا اظہار کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ براہ راست جنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔ نون لیگ میں اکثریت ایسے ہارس کی ہے۔ ایک خواجہ آصف ہیں وہ اب زیادہ ملک سے باہر ہی رہیں گے، وزیرخارجہ ویسے بھی زیادہ باہر ہی رہتے ہیں لیکن ان کو گھومنے پھرنے کا شوق بھی بہت ہے۔ ملک نازک مرحلے سے گزر رہا ہے، لگتا ہے کہ اب کوئی حملہ ہو گا یا کوئی ٹوٹ پھوٹ ہو گی مجھے سول حکومت چلتی نظر نہیں آ رہی۔ جوشیلے وزیر نے کہا کہ ہمیں بھی تحفظ کرنا آتا ہے ہم دیکھ لیں گے۔ کیا یہ مارپیٹ کریں گے اگر ایسا ہو گا تو پھر وردی والے ہی چھڑانے آئیں گے جو سب سے پہلے سسٹم کو اٹھا کر ایک طرف رکھیں گے۔ موجودہ حکومت نے اگر کوئی غلط رویہ اختیار کیا تو یہ چلتی دکھائی نہیں دیتی۔ عدلیہ کے خلاف بیان دینے والے پر توہین عدالت لگنی چاہئے اگر سپریم کورٹ نے ایسا نہیں کیا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خود یہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجم سیٹھی بہت تبدیل ہو گئے ہیں، وہ جب سے نوازشریف کے یا وہ ان کے کیمپ میں آئے ہیں، دونوں پر ایک دوسرے کا رنگ چڑھا ہے۔ نجم سیٹھی اب دانشور یا اخبار نویس نہیں ہیں بلکہ حکومت و اقتدار کا حصہ ہیں۔ جہاں لوٹ بار بھی ہوتی ہے۔ پی سی بی قومی ادارہ ہے، نجم سیٹھی کا خاندانی نہیں۔ حکومت وقت نے رعایت کرتے ہوئے سابق نگران وزیراعلیٰ کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا دیا۔ معلوم نہیں کہ نوازشریف کو ایسے مشورے کون دیتا ہے۔ عمران خان نے پہلے ہی ان پر 35 پنکچر کا الزام لگایا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر آدمی کو اطلاعات کے ذرائع تک پہنچنے کا یکساں حق حاصل ہے۔ نجم سیٹھی کسی کو بھی اطلاعات کے ذرائع تک پہنچنے سے نہیں روک سکتے۔ یہ قومی ادارہ ہے۔ نجم سیٹھی کی جاگیر نہیں ہے جو کسی تقریب کی کوریج کے لئے نیلامی کرتے ہیں۔ اخبارات میں ٹینڈر دیتے تو میں خود عدالت میں جاتا کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ قومی تقریب کو نیلام کرے۔ ان کا حشر بھی ان کو بنانے والے نوازشریف جیسا ہی ہو گا۔ میڈیا کے لئے پورا ملک اوپن ہے۔ یہ کسی بھی جگہ جا کر کوریج کر سکتا ہے۔ پی سی بی قومی ادارہ جو گرانٹ اور عوام کے تعاون سے چلتا ہے اس کو مخصوص کر کے نیلامی کی گئی۔ ابھی یہ ایک مسئلہ ہے۔ دوائیں ہونے کے بعد باقی بہت سی چیزیں سامنے آئیں گی۔ نجم سیٹھی جس اخبار یا ٹی وی سے منسلک تھے اس بارے بہت کچھ جانتا ہوں۔ ایسے ادارے بھی ہیں کہ جہاں کوئی ملازم ہو جائے تو وہ وزیر بھی بن جاتا ہے۔ ذاتی معلومات ہیں کہ اس ادارے سے جو وزیر بنے یا مختلف بڑے عہدوں پر گئے ان سے کہا گیا کہ ہمارا خیال رکھئے گا۔ ادارہ سے جانے کے باوجود ان کی تنخواہ و مراعات ختم نہیں ہوتیں۔ نجم سیٹھی کو بھی تمام سہولیات مل رہی ہوں گی لہٰذا وہ بھی اس کا خیال رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں خود الیکشن کمیشن پر بہت سارے الزامات کو درست سمجھتا ہوں، یہ حکومت کا بغل بچہ ہے۔ اس کی موجودگی میں کبھی آنے والے الیکشن شفاف نہیں ہو سکتے۔ اس کی ساخت ہی یہ ہے کہ چار حکومتوں کے منتخب ارکان ہیں۔ 2013ءکے انتخابات میں جب فحر الدین جی ابراہیم آئے تو کراچی میں بڑی واہ واہ ہوئی۔ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے پہلا حکم یہ دیا کہ اتنی صحت نہیں ہے کہ بار بار اسلام آباد جا سکوں لہٰذا ایک دفتر کراچی میں ہی بنا دیں۔ اپنے سٹاف کو کہتے تھے کہ ضروری کاغذات پر دستخط کر جاﺅں گا باقی ضروری فیصلے خود کر لیا کریں میں وہاں بیٹھ کر اولے کر دوں گا۔ اس قسم کے لولے لنگڑے چیف الیکشن کمشنر کے ماتحت ہونے والے انتخابات کو جیتنے والی پارٹی کے علاوہ کسی نے نہیں مانا۔ پیپلزپارٹی نے کہا کہ یہ آر او کے الیکشن ہیں جبکہ عمران خان نے کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ آج تک اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ ماہر قانون احسن بھون نے کہا ہے کہ نون لیگ کے پاس نطرثانی اپیل مسترد ہونے کے بعد عدالتوں کا کوئی آپشن نہیں ہے۔ سپریم کورٹ اب تفصیلی فیصلہ دے گی۔ عدالت کا مذاق اڑایا گیا، ججز ہمیشہ احتیاط برتتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج و عدلیہ کے خلاف بات کرنے پر 5 سال پابندی لگ سکتی ہے لیکن نون لیگ کے معاملات کافی سنگین ہیں، تاحیات پابندی والا معاملہ ہی لگتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواجہ سعد رفیق کے بیان سے لگتا ہے کہ وہی عمل دوبارہ دہرایا جانے والا ہے جو 1997-98ءمیں ہوا تھا۔ سعد رفیق کہتے رہے ہیں کہ لوہے کے دانت ہیں۔ عدالت نے نوٹس لے لیا تو ان کے ہوش بھی ٹھکانے آ جائیں گے۔ انہوں نے ززید کہا کہ نون لیگ واحد جماعت ہے جب بھی ان کے خلاف فیصلہ آیا یہ بدلہ لینے پر اُتر آتے ہیں۔