اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) بھارتی سیکرٹری خارجہ نے نئی دہلی میں تعینات جرمن سفیر سے ملاقات میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بھارتی فوج نے آزاد کشمیر میں کوئی سرجیکل سٹرائیک نہیں کی تھی۔ یہ چشم کشا انکشاف حال ہی میں جرمن حکام نے برلن میں پاکستانی سفارتی عہدیداروں کے ساتھ ہونے والی حالیہ ملاقات کے دوران کیا۔ سرجیکل سٹرائیک کا جو ڈرامہ بین الاقوامی سطح پر ایک مذاق بن چکا تھا، اسے بھارتی سیکرٹری خارجہ کے اس اعتراف کے بعد اب شدید دھچکا لگا ہے کہ یہ سب محض ایک ڈھونگ تھا۔ ایک باخبر ذریعے نے کہا کہ برلن میں جرمن وزارت خارجہ کے عہدیداروں نے باضابطہ طور پر پاکستان کے سفارتی حکام کو بھارت کے سرجیکل سٹرائیک کے جعلی ہونے کے متعلق آگاہ کیا۔ ذریعے نے کہا کہ پاکستان کے سفارتی عہدیداروں کو بھارتی سیکرٹری خارجہ مسٹر سبرامنیم جئے شنکر اور نئی دہلی میں تعینات جرمن سفیر ڈاکٹر مارٹن نے کے درمیان پاک بھارت کشیدگی کے موضوع پر ہونے والی بات چیت کے متعلق بتایا گیا کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے دوٹوک انداز میں تردید کی اور کہا کہ بھارتی فوج نے آزاد کشمیر میں کوئی سرجیکل سٹرائیک نہیں کی۔ ذریعے کے مطابق 4اکتوبر 2016ءکو برلن میں پاکستانی سفارتخانے کی منسٹر پولیٹیکل مس رخسانہ افضل کو جرمن وزارت خارجہ کا پہلے سے طے شدہ دورہ کر کے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا معاملہ اٹھانا تھا۔ اس طے شدہ ملاقات میں مس رخشانہ کو ایچ اور جینڈر پالیسی اینڈ ایف پاک (افغانستان پاکستان) ڈویژن کے حکام سے ملاقات کرنا تھی۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، مس رخسانہ نے اڑی میں ہونے والے جعلی حملے اور بھارت کے جعلی سرجیکل سٹرائیک کے دعووں اور ان سے جڑے اہم پہلوﺅں سے بھی پردہ اٹھایا۔ مس رخسانہ کی ملاقات ایف پاک ڈویژن کی سینئر ڈیسک افسر مس سیمون اسٹیملر سے ہوئی اور ملاقات کے دوران مس کیرین گوئبلز اور جرمن وزارت خارجہ کے مسٹر جینز واگنر بھی موجود تھے۔ پاکستانی سفارتی مشن کے حکام نے حکومت پاکستان کو بتایا ہے کہ بات چیت کے دوران مس رخسانہ نے جرمن حکام کو بھارتی فوج کے مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم سے آگاہ کیا جس کے نتیجے میں تقریباً 100 معصوم کشمیری شہید اور پیلیٹ گن کے حملوں میں ہزاروں افراد زخمی اور بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ملاقات کے دوران مس کیرین گوئبلز نے کہا کہ جرمن دفتر خارجہ اس صورتحال سے آگاہ اور پاکستان کے اس موقف کی تائید کرتا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ مس رخسانہ نے مزید واضح کیا کہ بھارت کشمیری عوام پر دباﺅ ڈال کر اور مظالم ڈھا کر انہیں ان کے حق خود ارادیت سے محروم نہیں کر سکتا۔ اس حق کا وعدہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کیا گیا ہے۔ جب مس رخسانہ نے اڑی کے جعلی حملے اور جعلی سرجیکل سٹرائیک کی کہانی کا موضوع اٹھایا تو اس موقع پر مس سیمون اسٹیملر نے پاکستانی سفارتکار کو بتایا کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ مسٹر سبرامنیم جئے شنکر اور نئی دہلی میں تعینات جرمن سفیر ڈاکٹر مارٹن نے کے درمیان پاک بھارت کشیدگی کے موضوع پر ہونے والی بات چیت میں بھارتی سیکرٹری خارجہ نے دو ٹوک انداز میں تردید کی اور کہا کہ بھارتی فوج نے آزاد کشمیر میں کوئی سرجیکل اسٹرائیک نہیں کی۔ ایک اور سرکاری ذریعے کے مطابق، سرجیکل اسٹرائیک کا راگ الاپ کر بی جے پی کی بھارتی حکومت کئی مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھی تاکہ دنیا کے سامنے یہ باور کرا سکے کہ پاکستان دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک اور بھارت کے پاس اتنی فوجی قوت ہے کہ وہ اسے دبا سکے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک پاکستان کی اسپانسرڈ دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے عوام کو یہ اطمینان بھی دلانا چاہتا تھا کہ اڑی حملے کا بدلہ لے لیا گیا ہے اور اس کے علاوہ وہ اتر پردیش کے ریاستی الیکشن میں اپنے سیاسی مخالفین کا مقابلہ بھی آسانی سے کرنا چاہتا تھا۔ تاہم، مذکورہ بالا اعتراف کے بعد لگتا ہے کہ بھارتی حکومت کو اڑی حملے اور سرجیکل سٹرائیک کے متعلق اپنے جھوٹ کی ناکامی کا اندازہ ہو چکا ہے۔ مودی حکومت کو عام آدمی پارٹی اور کانگریس سے شدید دباﺅ کا سامنا ہے کہ وہ سرجیکل سٹرائیک کے ثبوت سامنے لائے۔ اس بات کی اطلاعات تھیں کہ بی جے پی کی حکومت شاید جعلی ویڈیو سامنے لائے لیکن ایسا کوئی بھی اقدام تکنیکی جانچ پڑتال کے مراحل سے کامیابی نہیں ہو پائے گا کیونکہ ویڈیو جعلی ہوگی۔ ذرائع کا ماننا ہے کہ ایسی صورتحال میں ایسا کوئی بھی اقدام فوج کے مورال کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا جو مقبوضہ کشمیر میں زبردست شورش کو کنٹرول کر رہی ہے۔ یہ حقیقت کہ بھارتی حکومت اپنی فوج سے جو کردار مقبوضہ کشمیر میں ادا کرانا چاہتی ہے اس کیلئے فوج کو حکومت کی حمایت کی ضرورت ہے اور ایسا کوئی اقدام شاید ممکنات میں شامل نہ ہو۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت ایک اور آپشن پر بھی غور کر رہا ہے کہ ایک اور حملہ کرا کے اصل سٹرائیک کرائی جائے۔ ذریعے کے مطابق، یہ اقدام بھی اندھیرے میں تیر چلانے کے متراد ف ہوگا کیونکہ اس کے نامعلوم اور سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ مزیدبرآں، ایسے کسی بھی اقدام کی بھارت کے زبردست حامی ممالک بھی حمایت نہیں کریں گے کیونکہ اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ بھارت پاکستان کے اندر کوئی بڑا دہشت گرد حملہ کرا سکتا ہے۔
بھانڈا پھوڑ دیا