گوا (اے این این) بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے پاکستان پردہشت گردوں کی حمایت کا روایتی الزام دہراتے ہوئے کہاہے کہ ہمارے پڑوس میں ایک ملک دہشت گردی کی” ممتا“ ہے جہاں نہ صرف دہشت گردوں کو پناہ ملتی ہے بلکہ ایک ایسی ذہنیت پروان چڑھائی جارہی ہے جو سیاسی مقاصدکے حصول کےلئے دہشت گردی کو جائز قرار دیتی ہے، آج کی دنیامیں اگرہم اپنے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو سیکورٹی اور انسداددہشت گردی کےلئے تعاون ناگزیر ہے۔ اتوار کو گوا میں برکس سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نریندرمودی نے کہا کہ ہمارے خطے میں دہشت گردی امن، استحکام اور ترقی کےلئے سنگین خطرہ ہے جس نے ہماری ترقی اور اقتصادی خوشحالی کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کا نام لئے بغیرالزام عائد کیا کہ المیہ یہ ہے کہ بھارت کے پڑوس میں ایک ملک دہشت گردی کی ممتا ہے اور دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات کی کڑیاں یہی ملتی ہیں۔ ہمارا پڑوسی ملک نہ صرف دہشت گردوں کو پناہ فراہم کرتا ہے بلکہ ایک ایسی ذہنیت کو پروان چڑھاتا ہے جو سیاسی مفادات کے حصول کےلئے دہشت گردی کو جائز قرار دیتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے حوالے سے مخصوص سوچ لاحاصل اور نقصان دہ ہے، اس ناسور کے خلاف ردعمل مخصوص نہیں ہونا چاہیے دہشت گردی کی سیاسی ومالی حمایت، دہشت گردوں کو ہتھیاروں اور تربیت کی فراہمی منظم طریقے سے ختم کی جانی چاہیے۔ بھارتی وزیراعظم نے کہاکہ دہشت گردی اور اس کی حمایت کرنے والوں سے نمٹنا برکس کی ترجیح ہونی چاہیے، برکس کے رکن ممالک دہشت گردی کے ناسورکے خاتمے کےلئے ایک جتھا ہو کر اقدامات کرےں۔ انہوں نے کہاکہ آج کی دنیا میں اگر ہم اپنے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو سیکورٹی اور انسداددہشت گردی کے شعبوں میں تعاون ناگزیرہے۔ دہشت گردی کے خلاف ردعمل جامع ہونا چاہیے اور ملکوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اس سے نمٹنا چاہیے دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے افراد اور تنظیموں کےخلاف سخت اقدامات کی ضرورت ۔انہوں نے دہشت گردی کے بارے میں جامع کنونشن کے مسودے کی جلد منظوری دینے پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ عالمی معیشت کی بحالی کےلئے ایک واضح لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔بھارت کی طرف سے حال ہی میں ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں پیرس معاہدے کی توثیق کاذکرکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم ترقی اورماحولیاتی تبدیلی کے درمیان توازن قائم کرنے کےلئے پرعزم ہیں۔ انہوں نے سائبرکرائم اور قراقی سے بھی نمٹنے پر زور دیاہے۔ برکس کے رکن ملکوں میں برازیل، روس چین، بھارت اور جنوبی افریقہ شامل ہیں یہ تنظیم دوہزار نو میں قائم ہوئی تھی۔ اس گروپ کی تشکیل کا مقصد عالمی اقتصاد میں توازن قائم کرنا اور مغربی ملکوں کے اقتصادی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ برکس کانفرنس میں برازیل کے صدر مائیکل ٹیمر، روس کے صدر ولادی میر پوتن، انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی، چین کے صدر شی جن پنگ اور جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما شرکت کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات گذشتہ چند ماہ سے شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔ گذشتہ ماہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں انڈین فوج کے کیمپ پر شدت پسندوں کے حملے میں 19 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد انڈیا نے پاکستان پر ان حملہ آوروں کی سرپرستی کا الزام لگایا تھا۔ پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا ماضی میں بھی بغیر ثبوت کے الزام تراشی کرتا رہا ہے اور اس قسم کی الزام تراشی سے اپنے زیرانتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی دگرگوں صورتحال سے عالمی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مودی کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف برکس کو مل کر آواز اٹھانے اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انڈیا نے اس کے بعد پاکستان کے زیرِانتظام کشمیری علاقے میں ‘سرجیکل سٹرائیکس’ کرنے کا بھی دعویٰ کیا تھا جسے پاکستان نے یکسر مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر انڈیا نے ایسا کوئی اقدام کیا تو پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سے چین کے قریبی تعلقات کے سبب انڈیا برکس کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف اس سلسلے میں کوئی چیز مشترکہ بیان شامل کرنے میں شاید ہی کامیاب ہو سکے۔ سنیچر کو برکس اجلاس سے قبل چین کے صدر شی جن پنگ نے مودی کے ساتھ جو دو طرفہ بات چیت کی تھی اس میں بھی دہشت گردی پر کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔