اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی‘نیوز رپورٹر) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ انگریزی اخبار کی خبر سیکورٹی لیک نہیں، جھوٹی خبر ہے، چاہتا ہوں اس معاملہ پر انکوائری کے نتائج جلد عوام کے سامنے آئیں تاکہ سیاسی مقاصد رکھنے والے بے نقاب ہوں، ہر الزام وزیراعظم پر لگادیا جاتا ہے، وزیراعلیٰ اور ڈی جی آئی ایس آئی میں تلخ کلامی تو درکنار اختلاف رائے بھی نہیں ہوا، غیر ریاستی عناصر کے بارے میں پالیسی متفقہ ہے، سیاسی مقاصد کیلئے دھرنے دینے والے کوئی اور کام ڈھونڈیں، بلاول غیر سنجیدہ بچہ ہے جس کو سیاست کی ”الف ب“ کا بھی پتہ نہیں۔ جمعہ کو یہاں نادرا ہیڈکوارٹرز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یوم اقبال پر چھٹی تھی ہی نہیں اس لئے چھٹی نہ ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، پہلے ہی چھٹیوں کی بہتات ہے، ہمیں کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ ایف آئی اے کو ہدایت کی ہے کہ چھٹی کا جعلی نوٹیفکیشن جاری ہونے کے معاملہ کی تحقیقات کرے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جھوٹ، فریب اور بہتان تراشی کا طوفان برپا ہے، ایف آئی اے اس کی روک تھام کیلئے اقدامات کرے اور جہاں سے یہ اپ لوڈ کئے جاتے ہیں اس کا سراغ لگانے کی ہدایت کی ہے تاکہ یہ سلسلہ بند ہو۔ انہوں نے کہا کہ یوم اقبال کا درست طریقہ یہ ہے کہ ہم اقبال کے حوالہ سے سیمینار کریں اور طلباءاور نئی نسل کو اقبال کی فکر اور سوچ سے روشناس کرائیں۔ پرویز خٹک کے بیان کے حوالہ سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس ملک میں انتشار پھیلانا اور تشدد کی سیاست کرنا چاہتے ہیں ان کیلئے قانون کو ڈکٹیٹر ہونا چاہئے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں غلط جگہ کھڑا ہوں تو میں ان سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میں تو 32 سالوں سے ایک ہی جگہ (ایک ہی جماعت میں) کھڑا ہوں، وہ اپنا جائزہ لیں وہ کہاں کہاں کھڑے رہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں کوئی ڈکٹیٹر ہوتا تو وزیراعلیٰ خٹک اور ان کی ٹیم کو اسلام آباد میں جمع نہ ہونے دیتا، وہ یا کوئی اور اگر انتشار، تشدد، لاک ڈاﺅن کیلئے آئیں گے تو قانون حرکت میں آئے گا لیکن اگر سیاسی اجتماع، احتجاج اور دھرنے کیلئے آئیں گے تو ان کیلئے گلیاں اور سڑکیں کھلی ہیں، 31 اکتوبر کو ان کے ساتھ جو ہوا وہ ان کے لاک ڈاﺅن کے اعلان کی وجہ سے تھا، جب یہ اعلان واپس لے لیا تو آئین کے مطابق اور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے تحت ان کے جلسہ کیلئے سارے راستے کھول دیئے۔ افغان خاتون شربت گلہ کے حوالہ سے سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ اس کو گرفتار کرنے اور اسے جعلی شناختی کارڈ جاری ہونے کے معاملہ کی ان ہاﺅس انکوائری کی جا رہی ہے کیونکہ جعلی شناختی کارڈ کی حامل کسی خاتون کو گرفتار کرنے سے میں نے منع کر رکھا ہے، اس کے باوجود شربت گلہ کو گرفتار کیا گیا، وہ ایک لاچار عورت ہے، نہ وہ جاسوس تھی نہ کوئی بڑی مجرم۔ وزیر داخلہ نے بلاول بھٹو زرداری کے بیانات کے حوالہ سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بلاول ایک غیر سنجیدہ بچہ ہے جس کو سیاست کی ”الف ب“ کا بھی نہیں پتہ، اسے تو اردو تک نہیں آتی، چاچا چاچا کرکے اپنے والد کی عمر کے لوگوں کی تضحیک کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس طرح اس کی سیاست چمکے گی۔ وزیر داخلہ نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پیپلز پارٹی جو ایک بڑی سیاسی جماعت تھی آج اس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ 27، 28 سال کا ایک لاعلم بچہ جو اپنے ملک کی زبان تک نہیں سمجھتا اور رومن اردو میں لکھ کر تقریریں کرتا ہے، وہ گری ہوئی باتوں میں دوسروں کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو ملک کے قابل احترام سیاستدان تھے، معلوم نہیں بلاول کو کون فیڈ کر رہا ہے، کچھ لوگوں کو میں جانتا ہوں لیکن اس معاملہ پر فی الحال تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، پی پی پی کے معاملہ پر الگ سے ایک پریس کانفرنس کروں گا۔ گورنر سندھ کی تبدیلی کے حوالہ سے سوال پر انہوں نے کہا کہ کسی نہ کسی وقت پر سیاسی اننگز ختم کرنا ہوتی ہے، گورنر کی تبدیلی کا فیصلہ کئی ہفتے پہلے کر لیا گیا تھا۔ شربت گلہ کی گرفتاری پر آواز اٹھانے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے بات نہ کرنے کے این جی اوز کے دوہرے معیار کے حوالہ سے سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ امریکہ میں زیر حراست ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے میں نے اور وزیراعظم نے ہر ممکن کوشش کی، وزیراعظم نے امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات میں بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دنیا کا دوہرا معیار ہے، افغان خاتون کا شناختی کارڈ طریقہ کار کے مطابق بلاک ہونا چاہئے تھا لیکن اسے گرفتار نہیں کیا جانا چاہئے تھا، میں ان کو ویزہ میں توسیع دینے کے حق میں بھی تھا لیکن معلوم ہوا کہ وہ جانا چاہتی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ جعلی شناختی کارڈ بنانا بہت بڑا جرم ہے، ماضی میں شناختی کارڈز پیسوں کے عوض بنا کر دیئے جاتے رہے، بلاک کئے گئے شناختی کارڈز کو لمبے عرصہ تک بلاک نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ یہ بھی جرم ہے۔ انہوں نے نادرا حکام کو ہدایت کی کہ بلاک کئے گئے شناختی کارڈز پر تین ماہ کے اندر فیصلے کئے جائیں اور اس معاملہ کو جلد سے جلد نمٹانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ شیخ رشید کی طرف سے ملنے والے خط کے سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ ان کا خط مجھے ابھی ملا ہے، نان ایشو کو ایشو بنانے کا میرے پاس کوئی علاج نہیں ہے، شیخ رشید کے خط میں انگریزی اخبار کی خبر کے معاملہ پر تشکیل دی گئی کمیٹی کے دو تین ممبران پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، شیخ رشید کو غلط فہمی ہوئی ہے، وہ جس عثمان انور کو کمیٹی کا رکن سمجھ رہے ہیں وہ کوئی اور ہیں، کمیٹی کے رکن عثمان انور ایک نیک نام پولیس آفیسر ہیں اور ایف آئی اے کے دو سال سے آفیسر آف دی ایئر ہیں جبکہ کمیٹی کے ایک اور رکن سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کے دور میں سی ڈی اے میں لائے گئے تھے، ہم ان کو نہیں لائے، سپریم کورٹ نے ان کو ریکوزیشن کیا اور وہ تین سال تک رجسٹرار رہے، محتسب اعلیٰ پنجاب اور نیک نام جج کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے جاتے ہیں، وزیراعظم ان کا نام تک نہیں جانتے تھے، نہ کسی کو پتہ تھا کہ ان کی صاحبزادی کسی جگہ پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریٹائر جسٹس کو کمیٹی کا رکن بننے پر شدید تحفظات تھے، ان کا مو¿قف تھا کہ انہوں نے دیانتداری سے نیک نامی کمائی ہے اور کبھی کسی نے ان پر انگلی نہیں اٹھائی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے کیوں کمیٹی کا سربراہ بنانا چاہتے ہیں جس پر میں نے کہا کہ آپ کی نیک نامی کی وجہ سے ہم آپ کو سربراہ بنانا چاہتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ دشمنی حکومت کے ساتھ تھی لیکن غصہ جسٹس صاحب پر نکالا۔ انہوں نے کہا کہ انگریزی اخبار کی خبر کے معاملہ پر میں نے انکوائری کی اور میں اس کے نتائج جلد عوام تک پہنچانا چاہتا ہوں، کسی کو ٹھوکر بھی لگتی ہے تو وزیراعظم پر الزام لگایا جاتا ہے، بہتان اور الزام تراشی بہت بڑا گناہ ہے اس سے بچنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 6 ماہ پہلے پیشکش کی تھی کہ سپریم کورٹ پانامہ لیکس کے معاملہ پر کمیشن بنا لے، سپریم کورٹ ہی ٹی او آرز بنائے اور جو بھی فیصلہ سپریم کورٹ کرے وہ قبول ہے۔ انہوں نے ہی پیشکش کی کہ سب سے پہلے ان کا احتساب کیا جائے، ہماری طرف سے کوئی چیز چھپائی نہیں جا رہی اور اگر اس معاملہ پر کوئی تاخیر ہوئی ہے تو وزیراعظم کی وجہ سے نہیں بلکہ مخالفت کرنے والوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انگریزی اخبار کی خبر کا معاملہ نیشنل سیکورٹی لیک نہیں ہے، یہ جھوٹی خبر ہے، سیکورٹی لیک تب ہوتی اگر کوئی ایسی بات لیک ہوئی ہوتی جو اجلاس میں کی گئی ہوتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور ڈی جی آئی ایس آئی کے مابین تلخ کلامی تو دور کی بات اختلاف رائے بھی نہیں ہوا۔ سیکرٹری خارجہ نے کسی بریفنگ میں پاکستان کے تنہا ہونے کی بات نہیں کی، البتہ یہ کہا کہ دشمن پاکستان کو تنہا کرنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان تنہا نہیں ہو رہا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ انگریزی اخبار کی خبر کی بنیاد ہی غلط ہے۔ تیسری بات خبر میں یہ کی گئی کہ سویلین نے غیر ریاستی عناصر کے معاملہ پر یہ کہا کہ اور عسکری قیادت نے یہ کہا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ساڑھے تین سال کے دوران 34 اعلیٰ سطحی سیکورٹی اجلاس ہوئے اور ہر اجلاس میں، میں موجود تھا، ان میں غیر ریاستی عناصر کے حوالہ سے تلخی تو دور کی بات کبھی کوئی اختلاف رائے بھی سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں 39 شرکاءتھے ان میں وزراءاعلیٰ اور سول آفیسرز بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ غیر ریاستی عناصر کے حوالہ سے پاکستان کی پالیسی واضح ہے اور ہماری اس حوالہ سے ایک ہی پالیسی ہے، کشمیر میں آزادی کے متوالے کوئی بھی کارروائی کرتے ہیں تو بھارت اسے ہم پر تھوپتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انگریزی اخبار کی خبر کے معاملہ پر کمیٹی تحقیقات کر رہی ہے اور ڈان کے ایڈیٹر سے بات کی ہے کہ صحافی کو وطن واپس بلائے، آئندہ ہفتے وہ وطن واپس آ جائیں گے اور کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ جو لوگ اس کی آڑ میں سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ کوئی اور کام ڈھونڈیں، کمیٹی کی تحقیقات میں سب صورتحال سامنے آ جائے گی اور جن کے سیاسی مقاصد ہیں وہ بے نقاب ہوں گے۔
چودھری نثار