تازہ تر ین

عمران کے لیے دوستانہ مشورہ

میں نے اپنی زندگی میں عمران خان کو بہت فون کئے‘ ایس ایم ایس بھی کرتا رہا میں نے دھرنوں‘ کینٹینروں اور جلسوں میں بھی اپنی رائے ضرور اس تک پہنچائی لیکن میں سیاست کی بھول بھلیوں میں گم ہونے کے بجائے اپنے موضوع کی طرف پلٹتا ہوں۔
عمران خان کے بارے میں میرے کچھ تاثرات چھپے تو بہت سے قارئین نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ میں اٹھارہ برس میں عمران خان کی سیاست کے دلچسپ واقعات بیان کروں‘ لیکن میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ بہت کچھ جاننے کے باوجود میں اس موضوع پر اپنا اور اپنے قارئین کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا۔ ہاں 2013ءکے الیکشن اور اس کے بعد سے اب تک اپنے خیال میں عمران خان نے جو اچھے کام کیے یا اس سے جو سیاسی غلطیاں ہوئیں اس پر سرسری انداز میں کچھ باتیں ضرور کروں گا۔
2013ءکے الیکشن میں منظم دھاندلی ہوئی تھی یا بقول جوڈیشل کمیشن منظم تو نہیں تھی مگر بے قاعدگی بہت ہوئی تھی۔ میں اس ”شاندار“ فیصلے پر جوڈیشل کمیشن کے فاضل جج صاحبان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے اگرچہ جج صاحبان اگر خود پڑھیں یا کوئی انہیں بتائے تو ان کی تسلی کیلئے یہ ضرور کہوں گا کہ یہ محض لطیفہ نہیں بلکہ واقعہ ہے ویسے اس کا جوڈیشل کمیشن کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں۔
جب میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور ایم اے عربی کرنے کے بعد ایم اے اردو کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو اردو کے دو معروف ترین مرثیہ نگار شعراءمیر انیس اور میر دبیر کے بارے میں ایک واقعہ پڑھا‘ اہل تشیع ہی نہیں اہل سنت و الجماعت کے عقیدے کے لوگوں کو بھی ان دو عظیم شعراءکے متعلق اس بحث سے بہت دلچسپی تھی کہ انیس اور دبیر میں کون بڑا مرثیہ گو ہے‘ مشکل یہ تھی کہ کسی ایک کو بڑا قرار دینے والے سے دوسرے کو بڑا سمجھنے والے کے حامی ناراض ہو جاتے تھے آخر ایک سیانے نے یہ یوں فیصلہ دیا کہ :
”ان دونوں عظیم مرثیہ گو شاعروں کی کیا بات ہے‘ جناب ایک آہ ہے تو دوسرا واہ۔“
یہ جواب سن کر دونوں اطراف کے لوگوں کو خوشی ہوئی کچھ اسی طرح کا فیصلہ ہمارے یہاں جوڈیشل کمیشن کے فاضل جج صاحبان نے دیا۔ اب مسلم لیگ ن خوش کہ عمران کا ان کے خلاف الزام کہ منظم دھاندلی ہوئی ہے غلط قرار پایا (ہمارے دوست نجم سیٹھی پر عمران خانی الزام) وغیرہ کہ منظم دھاندلی نہیں ہوئی تو دوسری طرف عمران خانیے بھی خوش کہ بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں ہوئی ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں تک پہنچتے پہنچتے ہمارے جج حضرات انتہائی ذہین اور فطین ہوجاتے ہیں‘ انصاف مانگنے کیلئے آنے والے دونوں فریقوں کو خوش کر دیا۔ دونوں فریقوں کو ایک ایک جھنجھنا تھمادیا اور دونوں اسے بجاتے ہوئے عدالت سے اپنے اپنے ٹھکانوں تک پہنچ گئے۔ قربان جایئے اس ٹربیونلز کے فیصلے پر۔
قانون کے لکھے ہوئے الفاظ کہتے ہیں کہ چھ ماہ میں انتخاب کا فیصلہ ہو جانا چاہئے جبکہ آج ساڑھے تین سال گزرنے پر بھی اگر فیصلہ ہو جاتا ہے تو سپریم کورٹ میں اپیل کر دی جاتی ہے جہاں سے اسٹے مل جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر واقعی کسی امیدوار نے دھاندلی کی ہے تو بھی وہ آسانی سے پانچ سال اسمبلی میں گزار سکتا ہے‘ تب تک 2018ءکا الیکشن آ جائے گا۔ اللہ اللہ خیر صلا‘ تارہ ترین خبروں کے مطابق سپریم کورٹ نے بہرحال فیصلہ سنا دیا کہ تحریک انصاف کے عثمان ڈار کی خواجہ آصف کے خلاف دھاندلی کی شکایت غلط، خواجہ صاحب اس الزام سے بری الذمہ ہوگئے۔ کسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت کے بغیر میں سمجھتا ہوں ویسے میرے دوست اسحاق ڈار صاحب کی سربراہی میں انتخابی اصلاحات پر کام کرنے والی کمیٹی کی کارکردگی معلق نہیں رہنی چاہئے بلکہ 2018ءکے الیکشن سے پہلے اہم فیصلے نہ ہوئے‘ الیکشن کمیشن کی تطہیر ممکن نہ ہو سکی اور دیگر خرابیوں کا تدارک نہ کیا جا سکا جن میں سے بعض کی طرف توجہ خود جوڈیشل کمیشن بھی دلا چکا ہے اور پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی بھی جن پر بحث کر چکی ہے۔ اگر ان کے بغیر نئے الیکشن ہوئے تو انکا حشر بھی 2013ءکے الیکشن والا ہو گا۔ ستم بالائے ستم کہ جب کبھی مردم شماری کی بات چلتی ہے‘ پتا چلتا ہے سرکاری عملہ اس کام کیلئے نااہل ہے اور اس کی غیرجانبداری پر کسی کو یقین نہیں جبکہ فوج دہشت گردی کے خلاف مصروفِ عمل ہے اس لیے وقت نہیں دے سکتی۔ لہٰذا برسوں سے مردم شماری نہ ہونے کے باعث الیکشن کی اس ”شاخِ نازک“ پر جو ”آشیانہ“ بنے گا ناپائیدار ہوگا۔
میرا مشورہ عمران خان کے اسلام آباد کنٹینرز کے دور میں یہی تھا کہ آپ اپنی سیاسی جنگ کو ڈاکٹر طاہرالقادری کی نظریاتی جنگ برائے خلافت و اسلامی انقلاب سے الگ رکھیں‘ جو ہو گیا اسے چھوڑیں‘ کم از کم 2018ءکے الیکشن سے پہلے مردم شماری‘ انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کی تطہیر کا کام کروا لیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی مگر نجانے عمران کے ایسے کون سے دوست اور مشیر تھے جنہوں نے اسے مشورے دیے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے ساتھ مل کر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سے استعفیٰ لیں‘ پارلیمنٹ ہاﺅس پر قبضہ کر لیں‘ وزیراعظم ہاﺅس کا گھیراﺅ کر کے نہ کسی کو اندر جانے دیں نہ باہر آنے دیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میں ایسے کسی مشورے میں بحیثیت دوست بھی شریک نہیں تھا کہ بجلی کا بل بھی ادا نہ کرو نہ دنیا بھر سے بینکوں کے ذریعے پیسے بھیجو‘ یا پاکستان ٹیلی ویژن پر قبضے کے بعد امپائر کا انتظار کرو جو آ کر اعلان کر دے کہ عزیز ہم وطنو ……..
جاننے والے جانتے تھے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا ایجنڈا ہرگز سیاسی نہیں انقلابی ہے اور وہ بھی یوٹوپیئن‘ عمران کی جماعت سیاسی ہے اسے یوٹوپیئن‘ انقلاب کیلئے کسی مار دھاڑ میں شامل نہیں ہونا چاہئے تھا اور نہ اپنے ورکروں بالخصوص خواتین کو جسمانی طور پر مہینوں ”ٹیکس “ نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ اللہ جانے وہ کون لوگ تھے جو عمران کے گرد جمع تھے اور اس بنیادی حقیقت سے واقف نہ تھے کہ انسانی جسم کی بہرحال قوت برداشت محدود ہوتی ہے اور اسے پتھر اور فولاد نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ دھرنوں میں عمران کے حامیوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے چند سو تک رہ گئی۔
(جاری ہے)


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain