لاہور (خصوصی رپورٹ) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے آرٹیکل 18کے تحت آئندہ انتخابات کے لئے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لئے ضابطہ اخلاق مرتب کر لیا ہے۔ اس میں 2008 ءاور 2013ء کے ضابطہ اخلاق کو بھی مد نظر
رکھا گیا اور ماضی کی تمام بے قاعدگیوں، بے ضابطگیوں اورخامیوں کو دور کرتے ہوئے پہلی بار عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 50-49 کے تحت انتخابی اخراجات کے لئے امید واروںکوکسی شیڈولڈ بینک میں نیا مخصوص اکاونٹ کھولنے کے پابند بنایا گیا ہے۔ تمام عطیات اور امداد اسی اکاونٹ میں جمع ہو گی اورانتخابی اخراجات اسی اکاونٹ سے ہی کئے جائیں گے۔ انتخابی اخراجات سے متعلق تمام لین دین، جہاں تک ممکن ہو، جی ایس ٹی سے اندراج شدہ تجارتی اداروں / اشخاص کے ساتھ ہی کیا جائے گا۔ اگر کوئی شخص یا ادارہ کسی امیدوارکے انتخابی اخراجات بشمول سٹیشنری، ڈاک، اشتہارات، ٹرانسپورٹ یا کسی دوسری مد میں خرچ کرے گا تو وہ اسی امیدوارکا انتخابی خرچ تصور ہوگا۔ اگر کوئی امیدوار الیکشن کمیشن کی مجوزہ حد سے زیادہ اخراجات کرے گا تو اس کے خلاف عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 49 کے تحت کارروائی ہوگی اور اس کا الیکشن کالعدم قرار دیا جا سکے گا، اس کے علاوہ اسے تین سال قید سخت کی سزا بھی دی جا سکے گی۔ ضابطہ اخلاق کی تفصیل الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری اور ممتاز کالم نگار کنور دلشاد نے اپنے 17 نومبر کے کالم میں کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق میں یہ اہم شق شامل کی ہے جس کے تحت سیاسی جماعتوں اور انتخابی امیدواروں کے نجی میڈیا چینلز پر اشتہارات پر مکمل پابندی عائد ہوگی۔ صرف سیاسی اور انتخابی عمل کی تقویت / فروغ کے لئے سرکاری میڈیا کو استعمال کیا جائے گا۔ پیمرا اس بات کو یقینی بنانے کا پابند ہوگاکہ تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروںکو یکساں وقت دیا جائے۔ اس سلسلہ میں وہ تمام امیدواروں کے لئے حلقہ وار شیڈول مرتب کرے گا۔ ضابطہ اخلاق کی اس شق پر عملدرآمد سے اربوں روپے کا ضیاع روکا جا سکے گا۔ یاد رہے کہ 2013 ءکے انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں نے تقریبا سات ارب روپے کے اشتہارات الیکٹرانک میڈیا میں جھونک دیئے تھے۔ اب الیکشن کمیشن نے ان خامیوں کو دورکرتے ہوئے یہ اہم فیصلہ کیا ہے کہ وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ میں سرکاری خزانے سے اشتہارات جاری نہیں کر سکیں گی اور انتخابی مہم کے دوران سیاسی خبروں اور جانبدارانہ تشہیر کے لئے سرکاری ذرائع ابلاغ کے استعمال پر مکمل پابندی ہوگی۔ میڈیا، سیاسی جماعتوں،، امیدواروں،سیاسی رہنماوں یا کارکنوں کی ذاتی زندگی کے ایسے معاملے پر تنقید سے اجتناب کرے گا جس کا ان کی عوام سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ایسی تنقید سے بھی پرہیز کیا جائے گا جس کی بنیاد غیر مصدقہ الزامات یا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر ہو۔ اس کی خلاف ورزی عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 78 کے تحت قابل سزا ہوگی۔ الیکشن کمیشن نے آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے یہ اہم شقیں ضابطہ اخلاق میں شامل کر کے خوش آئند قدم اٹھایا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز، ریٹرننگ آفیسرزکو میجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات تقویض کیے ہوئے ہیں جن کی رو سے ضلعی انتظامیہ، مقامی انتظامیہ، پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے ضابطہ اخلاق پر عملدر آمدکو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہوںگے۔کسی امیدوار یا سیاسی جماعت کی طرف سے اس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی انتخابی بے ضابطگی تصور ہوگی، جس کی بنیاد پر ان کے خلاف قانون و قواعد کے مطابق کارروائی کی جاسکے گی جس میں امیدوار کا نا اہل ہونا بھی شامل ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے ضابطہ اخلاق کے ذریعے شفاف طریقے واضح کر دیے ہیں۔ ضابطہ اخلاق کو آئین و قانون کے دائرے میں ضم کر دیا گیا ہے کیونکہ آئین کا آرٹیکل 218 الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ بد عنوانیوں کے خلاف تادیبی اقدامات کرے، جس میں رشوت، تحائف، ناجائز اثر و رسوخ، پولنگ اسٹیشن یا پولنگ بوتھ پر قبضہ، کاغذات میں تحریف، جھوٹا بیان یا اشاعت ، انتخابی اخراجات کا مقررہ حد سے تجاوز، ووٹروںکو پولنگ سٹیشن پر لانے اور لے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کی فراہمی اور ووٹروں کو حق رائے دہی استعمال کرنے سے منع کرنا شامل ہیں۔ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، انتخابی بد عنوانی یا غیر قانونی افعال، قابل سزا ہوںگے، جن کی بنا پر الیکشن کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے ضابطہ اخلاق کو قانونی پوزیشن سے ہمکنارکرتے ہوئے انتخابی امیدواروںکو آرٹیکل 218 کے تابع کر دیا ہے اور کسی کو نااہل قرار دینے کے لئے آئین کے آرٹیکل 218 کا سہارا لیا گیا ہے، جسے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کے باب آٹھ کے تحت اپنے ضابطہ اخلاق میں یہ باور کرایا ہے کہ سیاسی جماعتیں، امیدوار اور ان کے حمایتی یا دیگر افراد نہ تو کسی ایسے رسمی یا غیر رسمی معاہدے، انتظام یا مفاہمت کی حوصلہ افزائی کریں گے نہ ہی اس میں شامل ہوںگے جس کا مقصد مردوں/خواتین کو کسی بھی انتخاب میں امیدوار بننے یا انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کرنا ہو۔ سیاسی جماعتیں خواتین کے انتخابی عمل میں شمولیت پر زور دیںگی اور ان کی انتخابی عمل میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کریںگی اور خلاف ورزی کی صورت میں ایسے حلقے کے انتخابات کو کالعدم قرار دیا جا سکے گا۔