تازہ تر ین

”عمران یا طاہرالقادری ، جم غفیر جمع کر کے حکمرانوں کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنیکا طریقہ میری نظر میں کامیاب نہیں ہو سکتا “ نامور لکھاری ،محقق ضیا شاہد کا مقبول کالم

قارئین ،عمران کے حوالے سے اپنی کچھ یادوں اور کچھ تاثرات پر مبنی سلسلہ مضامین ختم ہونے کو ہے۔ میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ برصغیر میں سب سے بڑی سیاسی جنگ قائد اعظم نے لڑی اور اس کے بعد اپنی بے شمارخامیوں کے باوجود ذوالفقاربھٹو واحد سیاستدان تھا جس نے عوام کو موبلائزکیا اور غریب کے دل تک پہنچا۔یہی وجہ ہے کہ بے شمار بلنڈر کرنے کے باوجود آج بھی آپ کو ہر گلی محلے میں پرانا پیپلیا مل جاتا ہے ۔نواز شریف کا زیادہ دور حکومت میں گزرا لیکن اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بالخصوص بے نظیر کے خلاف تحریک نجات میں میاں صاحب نے بڑی محنت کی اور ساتھیوں کو بھی مشقت پر مجبور کیا۔میں نواز شریف صاحب کی سیاست میں آمد سے آج تک مختلف ادوار میں انہیں قریب سے دیکھتا رہاہوں اور پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہو ں کہ نوازشریف صاحب کبھی ڈر کر یا جھک کر استعفیٰ نہیں دیں گے۔ وہ عزیر ہموطنو والی تقریر کے بعد گرفتارہونا زیادہ پسند کریں گے تاکہ ان کی مستقبل سیاست اور ووٹ بینک محفوظ رہے او ر انہیں جمہوریت کی خاطر قربانی دینے والا شمار کیاجا سکے۔
تجربے اور مشاہدے نے مجھے بہت سکھایاہے ۔عمران ہو یا طاہرالقادری جم غفیر جمع کرکے حکمرانوں کومستعفی ہونے پر مجبور کرنے کا طریقہ میری نظر میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔میں یہاں بھٹو صاحب کی زندگی کے آخری حصے کے بارے میں ایک حقیقت سامنے لانا چاہتا ہوں ۔
یہ روز نامہ نوائے وقت میں میری ڈپٹی ایڈیٹری کا دور تھا جب شاہراہ فاطمہ جناح پر نوائے پرنٹرز کے سامنے بنی ہوئی دفتر کی نئی عمارت میں مجید نظامی صاحب نے جو ہمارے سینئر صحافی اور اخبار کے چیف ایڈیٹر تھے اپنے معتمد خاص منیر کو بھیج کر مجھے کمرے میںبلایاجسے مذاق میں دفتر کے پرانے لوگ منیر نظامی کہا کرتے تھے ۔محترم مجید صاحب کے کمرے میں چوہدری ظہور الٰہی مرحوم موجود تھے انہوں نے بھٹو صاحب کا پھانسی کے حکم پر جس قلم سے دستخط کیے گئے تھے وہ جنرل ضیا الحق سے مانگ کر اپنی جیب میں رکھا اور ملنے والوں کو دکھایا کرتے ،محترم مجید صاحب نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیااور بولے ”چوہدر ی صاحب ،بھٹو صاحب کے آخری دنوں کا واقعہ سنا رہے تھے میں چاہتا ہوں آپ بھی سن لو “چوہدری صاحب نے بتایاکہ جنرل ضیا الحق کے آنے سے پہلے بھی سعودی حکومت نے پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان الیکشن میں دھاندلی کے نتیجے میں احتجاجی تحریک کے اختتام اور مفتی محمود ،نوابزادہ نصراللہ اور پروفیسر غفور احمد سیکرٹری جنرل کی گرفتاری او ر راولپنڈی سے قریب سہالہ کینٹ میں نظر بندی کے زمانے میں پاکستان میں سعودی سفیر ریاض الخطیب کے ذریعے صلح کروانے کی کوشش کی تھی اور انہی کوششوں کے بعد پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے رہنماﺅں میں مذاکرات کا آغاز ہو اتھااور بھٹو صاحب کچھ سیٹوں پر دوبارہ الیکشن کروانے کے لئے تیار ہوگئے ۔
بعد ازاں ایسانہ ہو سکا اور جنرل ضیا الحق نے بھٹو صاحب کا تختہ فوج کی مدد سے الٹ دیا ۔چوہدری ظہور الٰہی نے بتایاکہ اس کے بعد بھٹو گرفتار ہوئے ‘احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کے الزام میں ان پر مقدمہ چلا،ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزا دی ،سپریم کورٹ نے برقرار رکھی ۔اس وقت بھی سعودی عرب نے کوشش کی کہ اگر بھٹو صاحب مان جائیں اور پانچ سال کے لئے بیماری کے بہانے انہیںباہر بھیج دیا جائے اور پھانسی کا عمل رک جائے تو مسئلے کاحل تلاش کیاجا سکتا ہے ،چوہدری ظہور الٰہی نے اس واقعہ کی تفصیلات بیان کیں کہ کس طرح ضیا الحق کے ایک معتبر جرنیل پنڈی جیل کے سپرنٹنڈنٹ یارمحمد دردانہ کے ساتھ جیل میں بھٹو صاحب کی کوٹھری تک پہنچے اور انہیں سعودی عرب کی پیش کش سے آگاہ کیا گیاجسے ضیاالحق کی پشت پناہی حاصل تھی لیکن بھٹو صاحب نے انتہائی غصے کا اظہار کیا،پیش کش کرنے والے جرنیل کو موٹی موٹی گالیاں دیں ۔جنرل ضیا الحق کو صلواتیں سنائیں او رکہا جاﺅ اسے کہہ دو کہ مجھے پھانسی پر چڑھا دے میں ہرگز سیاست چھوڑنے او ر باہر جانے کا فارمولا قبول نہیں کروں گا ۔چوہدری ظہور الٰہی کی روداد سننے کے بعد اگلے کئی ہفتے میں نے بھٹو صاحب کے انکار کی سٹوری پر کام کیااور کئی حوالوں سے مجھے پتا چلاکہ یہ سٹوری درست ہے ۔
واضح رہے کہ برسوں بعد یہ ڈرامہ ایک بار پھر دہرایاگیااور پرویز مشرف نے نواز شریف کے خلاف سزاﺅں کے اعلان کے بعد سعودی عرب کی مداخلت ہی سے دس سال سیاست سے الگ رہنے کی شرط پر نواز شریف اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اٹک کی جیل سے نکلے اور سعودی طیارے پر جدہ پہنچ گئے جہاں سعودی حکمرانوں نے ان کے لئے ایک آرام دہ محل مخصوص کر رکھا تھا ۔بعد ازاں نواز شریف آٹھ سال بعدکس طرح لندن پہنچے اور پھر پاکستان واپس آئے کس طرح الیکشن جیتا۔یہ تاریخ کاحصہ ہے جس سے پڑھنے والے مکمل طور پر آگاہ ہیں لیکن یہ امر واضح ہے کہ سیاست دان کو یقین ہوتا ہے کہ وہ پھر لوٹ کر آئے گا اور اگر اس نے اپنے پتے ٹھیک کھیلے ہیں تو اقتدا ر کے ایوان ان کے لئے کھول دئیے جائیں گے ۔میں نے یہ واقعات اس لئے بیان کئے کہ آپ اسلام آباد کا گھیراﺅ کر کے منتخب وزیر اعظم جن کی اسمبلی میں اکثریت ہے کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کر سکتے ۔ہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی تو یوسف رضا گیلانی ہوں یا راجہ پرویز اشرف انہیں عدالتی حکم پر گھر بھیجا جاسکتاتھا ۔میاں صاحب خوش قسمت ہیں کہ انہیں ہمیشہ عدالتوں سے مدد ہی ملی تاہم آئندہ کے لئے کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر وہ عوامی دباﺅ کے آگے کبھی نہیں جھکیں گے اور اس امر کو ترجیح دیں گے کہ برا وقت آجائے تو بھی وہ گرفتارہونا اور جیل جانا زیادہ پسند کریں گے جو عوام میں ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ کرے گا ۔
اگر عمران اور اس کے ساتھی ٹھنڈ ے دل سے اس حقیقت پر غور کریں تو انہیں اپنا سیاسی پروگرام بدلنا پڑے گا ۔کسی بھی اپوزیشن پارٹی کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ برسراقتدار لوگوں کو حکومت سے نکالے لیکن میرے دوست شیخ رشید جن کی ذہانت ،محنت اور جرات اظہار کامیں ہمیشہ قائل رہا ہوں لیکن باربار ان کی طرف سے نئی تاریخ دینے کے بعد عمران اور اس کے ساتھیوں کو پھر مایوسی ہوگی کیونکہ جی ایچ کیو کے جس گیٹ نمبر 4کاباربار میرے پیارے شیخ رشید حوالہ دیتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ راست اقدام کے لئے تیار ہوں ۔باربار کے مارشل لاءسے ہمارے حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ ایک بار پھر ایڈونچر کے لئے تیار ہوں۔ بالخصوص جب سیاسی جماعتوں کی اکثریت ان پر نا ن سٹیٹ ایکٹر کی حمایت بارے دباﺅ ڈال رہی ہے ۔پاک فوج پر جتنے پریشر آج ہیں شاید ماضی میں کبھی نہیں رہے ۔مقبوضہ کشمیر میں عوامی خواہشات پر بھارت کی ننگی چڑھائی ،نریندر مودی کی بھارتی وزیر اعظم کی حیثیت سے پاکستان میں نان اسٹیٹ ایکٹر کی بھر پور مخالفت ،سیاسی حکمرانوں سے براہ راست اچھے تعلقات بنانے کی سوچ اور پاک فوج کے متعلق اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لئے الزام تراشی کی بین الاقوامی مہم ،دہشت گردی کے خلاف لڑتی ہوئی پاک فوج کے مقابلے میں ”را“کے جاسوسی نیٹ ورک کے علاوہ پاکستان میں سیاسی انتشار کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی کی کوشش‘ پنجاب کو چھوڑ کر باقی تینوں صوبوں میں زبان اور نسل کی بنیاد پر دو قومی نظریے کی نفی اور کہیں زیادہ صوبائی حقوق اور کہیں اس سے آگے بڑھ کر علیحدہ اور آزاد ریاست کی تمنا۔ میں نے متعدد مارشل لاﺅں کو آتے دیکھا ہے لیکن شاید آئندہ بین الا قوامی حالات ہوںیا سیاستدانوں کا اندرونی مک مکا جمہوری دور کو خرابیوں کے باوجود مارشل لاءپر ترجیح دینے کا رُجحان، آپ فوج کی آمد کے لئے جتنی جی چاہے فضا ہموار کر لیں، شاید چند فوجی گاڑیوں کے ساتھ وزیراعظم ہاﺅس کا گھیراﺅ کرنے کا دور گزر چکا ہے، پھر فوجی قیادت بھی جو کبھی سول حکومت کی اطاعت کا اعلان کرتی ہے، اور کبھی ہر قسم کی تحریک کے باوجود آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہنے کا فیصلہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ اُس کے اپنے مسائل ہی اُس کے لئے کافی ہیں، لہٰذا ایوب خان، یحییٰ خاں، ضیاءالحق اور پرویز مشرف کی کہانی اَب شاید نہ دُہرائی جا سکے۔
(جاری ہے)


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain