لاہور (سیاسی رپورٹر) جیساکہ روزنامہ خبریں کی بیشتر اشاعتوں میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے جانے کے بعد کون نیا آرمی چیف ہو گا پر بحث جاری ہے۔ گزشتہ 4روز کے واقعات میں صورتحال کو مزید واضح کر دیا ہے۔ یہ تقریبات تو کم وبیش یقینی ہو گئی ہے کہ جنرل راحیل بہرحال 29 نومبر سے پہلے گھر چلے جائیں گے اور ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم ان کی جگہ کون نیا آرمی چیف بنے گا اس بارے میں کہا جارہا تھا کہ سنیارٹی میں پہلے نمبر پر آنے والے جنرل زبیر محمود حیات چیئرمین جوائنٹ کمیٹنی بنیں گے کیونکہ پاک فوج میں ایک ایک لیفٹیننٹ جنرل اور ایک میجر جنرل دو سگے بھائیوں کی موجودگی میں شاید انہیں روایت کے مطابق آرمی چیف مقرر نہ کیا جا سکے۔ ان کے بعد آنے والے سنیارٹی کے حساب سے نمبر 2 ملتان کے کور کمانڈر جنرل اشفاق ندیم کے متعلق ان کی انتہائی سخت گیری اور ڈسپلن کی سو فیصد پابندی کے باعث نمبر 3 پر آنے والے جنرل جاوید اقبال رمدے اور چوتھے نمبر پر آنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہارٹ فیورٹ سمجھا جا رہا تھا لیکن جنرل راحیل شریف نے جاتے جاتے جس انداز سے بڑے پیمانے پر خیرپور ٹامیوالی نزد بہاولپور میں فل فوجی مشقیں کروائیں اور وزیر اعظم نواز شریف کو بطور خان ان میں مدعو کیا۔ اس سے لگتا ہے کہ جنرل راحیل شریف انہیں موزوں اور متبادل امیدوار کے طور پر سامنے لانا چاہتے ہیں۔ فوجی ریٹائرڈ سینئر لوگوں کا کہنا ہے کہ جنرل اشفاق ندیم جنہیں خبریں کے گزشتہ تبصرہ وار جائزوں میں اپنے سخت گیری کے باوجود چھپے رستم کے طور پر کسی بھی وقت نیا آرمی چیف بنائے جانے کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں اب ان کا نام زیادہ واضح طو پر سامنے آنے لگا ہے۔ اگرچہ سول حکومت میں شامل بعض لوگ مُصر ہیں بھارت کی طرف سے کسی بڑی جنگ کا کوئی خطرہ موجود نہیں لیکن بھارتی لیڈروں کی طرف سے مسلسل اشتعال انگیزی اور کنٹرول لائن پر مسلسل جارحیت اور وقتاً فوقتاً سامنے آنے والے حملوں کے نتیجے میں پاک فوج کے لیے ایسے آرمی چیف بہتر ثابت ہوسکتے ہیں جس کا امیج انتہائی پروفیشنل سخت گیر اور مخصوص فوجی ڈسپلن پر مکمل عملدرآمد کرانے والے کا ہو لہٰذا جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل جاوید اقبال رمدے کی نسبت یہ خیال تقویت پکڑتا جارہا ہے کہ جنرل راحیل کے پسندیدہ جنرل اشفاق ندیم ہی وزیراعظم کی فائنل سلیکشن ہوگی جنہیں سامنے لانے کیلئے جنرل راحیل شریف نے آخری فوجی مشقوں کا اہتمام کیا اور ان میں وزیراعظم کو دعوت دی۔ یوں بھی گزشتہ چند مہینوں میں جنرل راحیل شریف نے یکے بعد دیگرے ایسے طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے جس سے یہ تاثر زائل ہو وزیراعظم نوازشریف اور فوجی قیادت ایک پیج پر نہیں ہے انہیں قریب لانے میں وزیراعظم نوازشریف کے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کے علاوہ چودھری نثار علی کی کاوشوں کا بھی بڑا دخل ہے۔ یاد رہے کہ دونوں سیاستدانوں نے مسلسل آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقاتیں جاری رکھیں۔ بالخصوص نیوز لیک کے مسئلے پر جنرل راحیل شریف ہارڈ لائنر سمجھے جاتے تھے۔ پہلے پانچ دن اور پھر 14دن میں ملزموں کے نام سامنے لانے پر غور کررہے تھے ایسی کیفیت میں ریٹائرمنٹ لیکر گھر جارہے ہیں کہ یہ معاملہ جس کمیٹی کے سپرد ہے وہ ان کے جانے کی تاریخ سے 15دن بعد اپنی رپورٹ فراہم کرے گی۔ لگتا ہے نہ صرف فوجی قیادت سے قبل جنرل راحیل شریف وزیراعظم نوازشریف سے اپنے تعلقات بہترین سطح پر لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں بلکہ اگر بعض ہماری ٹی وی چینلز کی خبریں صحیح ثابت ہوئیں کہ جنرل راحیل شریف جنہوں نے آخری وقت تک خاموش رہنے کا تہیہ کررکھا ہے۔ سول حکومت شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ماضی کی روایات کو توڑتے ہوئے وزیر اعظم ہاﺅس میں رخصت ہونے والے جنرل راحیل شریف کے اعزاز میں الوداعی کھانے کا اہتمام کر رہی ہے اور گمان غالب ہے کہ 27۔28 نومبر ایسی کسی الوداعی دعوت کا انتظام کیا جائے اور دہشت گردی کے خلاف کامیاب مہم چلانے والے پاکستان کے بہترین جرنیل کو جو عوام میں بھی مقبول ہے اور دنیا بھر میں انہیں پہلے نمبر پر تسلیم کیا جاتا ہے وہ بڑے اعزاز سے رخصت کرنے کی نئی روایت عمل میں آ سکتی ہے حالانکہ فوجی روایات کے مطابق جنرل راحیل شریف نے آخری ایک ماہ کے اندر رسمی الوداعی ملاقاتیں نہیں کیں اور اب تک بعض لوگوں کے خیال میں آخری دن بھی ڈرامائی طور پر مدت ملازمت میں یکطرفہ طور پر توسیع کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔