ناصر نقوی …. جمع تفریق
سیاست کو خدمت کہنے والے ذمہ دار رہنما بھی اکثر اوقات جذبات،پارٹی اور اپنے قائدین کی وفاداری میں پٹری سے اتر کر غیر سنجیدہ گفتگو میں الجھ جاتے ہیں جس کی قومی سیاست میں ہر گز گنجائش نہیں کیونکہ ”سیاست اور جمہوریت“کا پہلا سبق برداشت اور رواداری ہے لیکن صاحب اقتدار ہوں یا حزب اختلاف کوئی کسی سے کم نہیں،صرف موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں اور اگر اس موقع پرستی میں ”میڈیا“ہاتھ لگ جائے اور کیمرے کی آنکھ سے آنکھ لڑ جائے تو یہ لڑائی بسا اوقات اخلاق،جمہوریت اور سیاست میںتمام حدیں عبور ہوتے چند سیکنڈ ز لگتے ہیں یوں تو میدان سیاست میں ایسی سینکڑوں مثالیں ہیںلیکن تازہ ترین ملاحظہ فرمائیں۔ حکومت سندھ کے مشیر اطلاعات،پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما مولا بخش چانڈیو اپنے پرانے ساتھی ”جہانگیربدر “ کے جنازے میں آئے تو سید خورشید شاہ اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جیب کٹ گئی اس سنجیدہ ترین حالات میں بھی چانڈیو صاحب نے پنجاب حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور میڈیا کے سامنے بیان داغ دیا۔پنجاب کے بچے بچے سے ہمیں پیار ہے لیکن حکمرانوں سے نہیں،انہوں نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیاتاہم پنجاب آنے والے اپنی جیبوںکی خود حفاظت کریں ورنہ لٹ جائیں گے میں تو اپنا بٹوہ بھی کسی کے پاس رکھوا کر آیا ہوں۔ایسے میں پنجاب کے ترجمان زعیم قادری بھلا کیسے خاموش رہ سکتے تھے انہوں نے جواب شکوہ میں کہہ دیا ‘عوام جان جائے کہ جو لوگ اپنی جیبوں کی حفاظت نہیں کر سکتے بھلا وہ ”قومی خزانے“کو کیسے بچا سکیں گے،ابھی ان دو بیانات کا چرچا میڈیا پر جاری تھا کہ اگلے روز رسم قل کے موقع پر سینیٹر سعید غنی اور شوکت بسرا(سابق ایم پی اے) کے جوتے چوری ہو گئے، یہ دونوں واقعات نئے ہر گز نہیں،ہمارے معاشرے میں ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں جب بھی کسی بڑی شخصیت کا انتقال ہوتا ہے یا جن جنازوں میں تاجر برادری اور مخیر حضرات کی بھاری تعداد متوقع ہوتی ہے وہاں ایسی وارداتیں لازمی ہوتی ہیں اور اگر کسی واردات میں ملزم پکڑا جائے تو ان میں مقامی جیب کتروں کی بجائے اخبارات اور میڈیا سے آگاہی حاصل کرنے والے قریبی شہروں کے ”جیب کترے“ پکڑے جاتے ہیں اس لئے کہ لاہور جیسے بڑے شہروں میں اب چھوٹی چھوٹی وارداتوں سے کو ئی ”منہ کالا“ نہیں کرتا بلکہ بڑے شہر دار ایسی واردات پر شور بھی نہیں مچاتے اور شوکت بسرا،سعید غنی کی طرح اپنے ڈرائیوروں اور ملازمین کی جوتی پہن کے چلے جاتے ہیں، اَب دیکھئے ایم کیو ایم کے اندرونی جھگڑے،مصطفی کمال کی پاک سر زمین سمیت ہر دھڑے میں گھر کے ”بھیدی“ موجود ہیں اس لئے سب اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ ”لنکا“ڈھا سکتے ہیں لیکن فرزند کراچی مصطفی کمال کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ14سالہ قید باعشرت پر کمال کی چٹکی کاٹ کر ڈاکٹر عشرت العباد خاں جیسی ”لنکا“ڈھا چکے ہیں اَب ایم کیو ایم لندن کے ندیم نصرت فر ما رہے ہیں کہ ہم نے ایم کیوایم کا بھاری ٹرک چلانے کی خواہش میں ”فاروق ستار“کو ڈرائیور رکھا تھا لیکن ان کا ارادہ ”ٹرک“پر قبضے کا ہے جو نیک ارادہ ہر گز نہیں،ابھی تو یہ بھی پتہ نہیں ان کے پاس ”HTV“ لائسنس ہے بھی یا نہیں۔موجودہ صورتحال میں محسوس تو ہو رہا ہے کہ ان ہی کے پاس”HTV“لائسنس ہے ”اصلی ہے کہ نقلی“اس بحث کا بھی کوئی فائدہ نہیں اس لئے کہ میدان سیاست میں جعلی ڈگریاں بھی چلتیں ہیں بلکہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کی مشہور زمانہ رولنگ بھی موجود ہے کہ ڈگری ڈگری ہوتی اس لئے جعلی اور اصلی کی بحث بےکار ہے،ایم کیوایم پاکستان کو فاروق ستار کی قیادت میں کراچی کا میئر وسیم اختر بھی مل چکا ہے اختیارات کی کمی بھی کسی نہ کسی توڑ جوڑ سے پوری ہو جائے گی لیکن ایم کیوایم لندن اور پاکستان کے کارکن واضح تقسیم ہو چکے ہیں اور ایسا صرف بانی قائد تحریک الطاف حسین کی غیر سنجیدہ تقریر کا کرشمہ ہے جسے ہر محب وطن پاکستانی نے ”سنجیدہ ترین“جانا ہے اور وہ کسی صورت بھی معافی تلافی کیلئے تیار نہیں۔ اب ہمارے کہنہ مشق مبصرین اور تجزیہ کار اس بات پر اتفاق کررہے ہیں کہ ایم کیوایم پر قائد تحریک کی گرفت کمزور ہو گئی ہے اور ان کا ”پٹاخہ خیز“خطاب ایسا آتش بازی کا گولہ ثابت ہوا ہے جو اپنے ہی گھر میں آ گرا اور ردعمل میں پیدا ہونے والی بھگدڑ میں کوئی کسی کو پہنچاننے کی بجائے اپنے اپنے چہروں کی خوبصورتی کی فکر میں ہیں تا کہ مستقبل میں وہ بھی اختیارات کے مزے لوٹ سکیں لیکن اس ”سہ رخی“سیاسی لڑائی میں چوتھی پارٹی ایم کیوایم حقیقی کو مکمل نظر انداز کیا جارہا ہے حالانکہ آفاق احمد اور ان کے ہمنوا بھی ایک حقیقت ہیں جبکہ حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ ”مہاجر“کے نام پر سیاست اور اختیارات کے تمنائی آفاق احمد کی بھی جامع تلاشی لیتے تا کہ صورتحال کھل کر سامنے آتی کہ ان کی جیب میں کیا ہے ان کا گروپ الطاف حسین سے اختلافات کے باعث بنا تھا اور اَب وہ ”مائنس ون“ فارمولا کی بھینٹ نہ صرف چڑھ چکے ہیں بلکہ بیماریوں کے نرغے میں ہوتے ہوئے ایم کیوایم کے ماسٹر مائنڈ سلیم شہزاد سے بھی دور ہیں لیکن پیر الطاف حسین کے وجود سے انکاری ممکن نہیں،وہ چاہے فصلی بٹیروں کے چنگل میں ہیں پھر بھی ان کے چاہنے والوں کی تعداد ہر گز کم نہیں اور بہت سے سنجیدہ لوگ بھی ان کی غیر سنجیدگی کو در گزر کرنے کیلئے رضا مند ہیں۔
ماضی کے کامیاب مفاہمتی صدر آصف علی زرداری اپنی بھرپور سیاسی تربیت کے بعد منفرد عوامی لیڈر قائد عوام کے نواسے بلاول بھٹو زرداری کو چیئرمین پیپلز پارٹی کے روپ میں میدان سیاست میں لائے حالانکہ ایک خاص طبقہ فکر مرتضی بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو کو ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی وارث سمجھتا تھا لیکن زرداری صاحب نے انتہائی سنجیدگی سے پارٹی قیادت بلاول بھٹو زرداری کے حوالے کر دی،یہی نہیں ان کی کم عمری کے باعث پھوپھی فریال تالپور،شیریں رحمان اور دوسرے سینئرز کو تربیت کی ذمہ داری بھی سونپ دی لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے لوگ میدان سیاست میں سنہری خواب دکھا کر عوام کو ”ماموں“بناتے ہیں پھر بھی بلاول بھٹو زرداری نے عمران خاں کو ”چاچا،چاچا“کہہ کر خوب بڑھکیں ماریں جبکہ ان کے استادوں کو یہ راز بھی معلوم تھا کہ عمران خاں کی ”اوئے طوئے“زبردست تنقید کا باعث بنی ہوئی ہے،ان کی سیاسی بصیرت اور تربیت یہ ہے کہ ”نیوز لیکس“پر پہلے ”گو نثار گو“کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور پھر ”دما دم مست قلندر“کی دھمکی کے ساتھ 27دسمبر سے ”گو نواز گو“کا نعرہ لگانے اور پنجاب فتح کرنے کا اعلان کردیتے ہیں۔
اسی طرح حکومتی روئیے ہیں پہلے سنجیدہ معاملات پر غیر سنجیدگی اختیار کر کے اسے ”بات کا بتنگڑ“بنایا جاتا ہے پھر نادان دوستوں کے مشورے سے ایسے خطابات سامنے آ جاتے ہیں کہ مسائل سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جاتے ہیں ”پانا مہ لیکس“اس سے پہلے الیکشن کے چار حلقے اور اَب نیوز لیکس کی حقیقت قوم کے سامنے ہے کوئی سنجیدہ انداز نہیں اپنایا گیا جب تک پھندا گردن کے نزدیک آتا دکھائی نہیں دیا،اَب ”عدالتی جنگ“ جاری ہے۔دونوں جانب سے ”غیر سنجیدگی“کا عنصر پایا جا رہا ہے عمران خاں انتہائی مطمئن ہیں اس لئے لندن یاترا ضرروی تھی نواز شریف اور ان کے خاندان کے لوگ بھی پریشان نہیں کیونکہ ان کی ہر مشکل میں شہزادے بچانے آجاتے ہیں اس گھمبیر حالات میں قطری شہزادہ خود نہیں آیا لیکن اس کا خط آ گیا،ممتاز ماہر قانون اعتزاز احسن جانتے ہیں کہ قطری شہزادے پر پاکستانی قوانین لاگو نہیں ہوتے اور نہ ہی سپریم کورٹ اسے طلب کر سکتی ہے پھر بھی وہ اپنی فنکاری دکھانے کیلئے ”شہزادے“کی سپریم کورٹ میں آمد کے خواہشمند ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ اگر ”شہزادہ“قابو آ گیا تو وہ سوالات کی بوچھاڑ سے ایسی ”مت“ماریں گے کہ وہ دوبارہ خط لکھنے کی غلطی نہیں کرے گا۔
عام لوگ کیسے سنجیدگی کو اپنا شعار بنائیں گے؟یہی وجہ ہے کہ ہم ہر قومی نوعیت کے مقدمے میں جلد از جلد انصاف کے متمنی ہوتے ہیں لیکن ہر دوجانب سے ”الف لیلویٰ“داستان کا انداز اپنا کر معاملات بگاڑ دئیے جاتے ہیں اور کوئی اپنی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا،اگر مثبت نتائج درکار ہیں تو پھر اپنے رویوں میں تبدیلی کے بارے میں سوچیں ورنہ کچھ نہیں ہو سکے گا۔٭٭