لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ آئین کو دل سے تسلیم کرتا ہوں۔ آئین کے مطابق آرمی چیف کا چناﺅ وزیراعظم کا صوابدیدی حق ہے۔ پاکستان میں روایت موجود ہے کہ وزیراعظم بھجوائی گئی لسٹ میں سے نیچے سے بھی کوئی نام چن کر آرمی چیف بنا دیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ضیاءالحق کو ساتویں نمبر سے ا ٹھا کر آرمی چیف بنایا۔ بینظیر بھٹو نے دو بار سینئر ترین کو ہی آرمی چیف چنا، وزیراعظم نواز شریف نے عام طور پر پسند و ناپسند کے تحت ہی دوسرے تیسرے نمبر سے چناﺅ کیا۔ اس بار وزیراعظم کو چار نام بھجوائے گئے جن میں سے دو کو چن لیا گیا۔ جنرل زبیر سینئر ترین افسر تھے لیکن فوجی ڈسپلن کے تحت ان کا چناﺅ نہ ہوا چونکہ ان کے دو بھائی اس وقت بھی فوج میں لیفٹیننٹ جنرل اور میجر جنرل ہیں۔ صدر ممنون حسین کا نیاز مند ہوں لیکن ان کا جنرل راحیل جو ایک دو دنوں میں گھر جانے والے ہیں سے کراچی آپریشن بارے سوال پوچھنا عجیب تھا۔ جنرل قمر باجوہ تمام حالات سے بخوبی واقف ہیں کور کمانڈر راولپنڈی تھے جو سب سے اہم کور سمجھی جاتی ہے۔ نئے آرمی چیف بڑی عمدگی کے ساتھ جمہوری نظام کے ساتھ چلیں گے ان کے سول حکومت کے ساتھ بہترین تعلقات رہیں گے اور وہ ٹھیک چناﺅ ثابت ہونگے۔ حکومت اور فوج میں اکثر اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں جو کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان اختلافات کو بات چیت کے ذریعے دور کیا جائے۔ موجودہ حکومت اور فوج فی الحال ایک ہی پیج پر دکھائی دیتے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ کراچی میں رینجرز آپریشن بڑی حد تک روک دیا گیا ہے۔ رینجرز نے سنگین الزامات کے تحت جو لوگ پکڑے تھے ان میں سے اکثر رہا ہو کر عہدوں پر دوبارہ براجمان ہو چکے ہیں۔ اب اگر تو رینجرز یا جے آئی ٹیز نے غلط رپورٹ دی تو انہیں فارغ کیا جانا چاہیے اور اگر ان کی رپورٹس ٹھیک ہیں تو متحدہ رہنما وسیم اختر جن پر بیشمار الزامات تھے آج میئر کراچی کیوں ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کا کیس بھی ایسا ہی ہے۔ رینجرز کراچی کا سربراہ اور کور کمانڈر کراچی مجھے جوابدہ نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اور عوام کو تو جوابدہ ہیں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ مکسڈ پالیسی کیوں چل رہی ہے ایک شخص پر ڈیڑھ سو مقدمات ہیں اور اسے کراچی کا میئر بنا دیا جاتا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ سکھ کمیونٹی بھارتی فوج کا سب سے اہم جزو ہے۔ کشمیر میں مظالم ڈھانے والی فوج کے سربراہ سکھ ہیں۔ پاکستان کےخلاف جتنی جنگیں ہوئی ہیں ان میں سب سے زیادہ سخت مقابلہ سکھوں نے کیا۔ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جنرل نیازی سے ہتھیار رکھوانے والے بھی سکھ جنرل تھے۔ اب کون یہ فیصلہ کرے گا کہ کون سے سکھ آزادی چاہتے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ پنجاب کابینہ میں نئے وزیروں کو شامل کیا جانا خوش آئند ہے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو اسی اقدام پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ پنجاب کی آبادی باقی تینوں صوبوں سے زیادہ ہے اور اسی حوالے سے اختیارات سے چھوٹے صوبوں کو تحفظات بھی ہیں۔ ساری دنیا میں انتظامی حوالے سے چھوٹے یونٹ بنائے جاتے ہیں ہمارے یہاں کوئی صحیفہ تو نہیں اترا کہ نئے صوبے نہیں بنائے جائینگے۔ مشرف دور میں اس حوالے سے اڑھائی گھنٹے پرویز مشرف سے بحث کی کہ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کرنا پاکستان کے حق میں بہتر ہوگا۔ مشرف نے میری بات سے اتفاق کیا اور مجھے چودھری شجاعت کے پاس بھجوا دیا کہ انہیں تجویز پیش کریں۔ چودھری شجاعت سے ملا تو انہوں نے سختی سے مخالفت کی پرویز الٰہی نے بھی میری تجویز کو مسترد کر دیا۔ یہی چودھری برادران ہیں کہ جب ان کی حکومت نہ رہی تو جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے حق میں بیان دینے لگے۔ میں صرف پنجاب کو تقسیم کی بات نہیں کرتا بلکہ سمجھتا ہوں کہ بلوچستان سندھ اور کے پی کے کو بھی دو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے اس سے انتظام بہتر ہوگا۔ افغانستان جیسے ملک میں 11 صوبے ہیں تو پاکستان میں نئے صوبے بنانے سے قیامت نہیں آ جائیگی۔ اصل میں ہمارے سیاستدان نئے صوبوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں کوئی اپنے علاقہ اور دائرہ کار میں کمی نہیں چاہتا۔ تجزیہ کار مکرم خان نے کہا کہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ آرمی چیف کی شخصیت کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ جنرل کیانی کے 6 سالہ دور میں سوات میں آپریشن ہوا جنوبی وزیرستان میں آپریشن ہوا لیکن شمالی وزیرستان آپریشن نہ کیا گیا۔ جنرل کیانی اس معاملہ پر ہچکچاہٹ کا شکار تھے اور حکومت بھی مذاکرات چاہتی تھی۔ جنرل راحیل شریف کا اپنا نکتہ نظر تھا۔ میڈیا پر فوج کے حوالے سے قیاس آرائیاں اور افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں جو درست عمل نہیں ہے۔ فوج میں تمام معاملات پر جتنی مشاورت ہوتی ہے کسی اور ادارے میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ سعودی عرب فوج نہ بھیجنے اور مردم شماری کےلئے ےفوج فراہم نہ کرنا اس کی واضح مثال ہیں کہ دونوں بار آرمی چیف تو حکومت سے متفق تھے لیکن کور کمانڈر کانفرنسز میں مخالفت کی گئی اور مانی گئی۔ فوج کا اپنا ایک مضبوط نظام ہے۔ سی پیک پر عملدرآمد فوج نے ہی کرنا ہے۔ کراچی آپریشن کے طریقہ کار میں تبدیلی تو ہو سکتی ہے لیکن آپریشن جاری رہے گا۔ جنرل قمر باجوہ دہشتگردی کےخلاف جنگ میں بھرپور کمانڈ کرینگے۔ فوج بھارت کو شرانگیزی پر اسی طرح منہ توڑ جواب دیتی رہے گی۔ کراچی میں آپریشن سے فضا تو کچھ بہتر ہوئی لیکن عملی طور پر کچھ نہ ہوسکا۔ اربوں کی کرپشن اور دہشتگردی کے الزامات میں گرفتار افراد کی دھڑا دھڑ ضمانتیں ہو رہی ہیں۔