تازہ تر ین

حوا کی بیٹی ” انصاف “ مانگ رہی ہے

عورتوں کیلئے خطرناک ممالک میں وطن عزیز سرفہرست ،تیسر نمبر پر آچکا۔ ایسا کیوں؟ابھی چند دن پہلے کی خبر ہے کہ بیوٹیشن کو دلہن تیار کرنے کیلئے گھر بلایاگیا اور دلہن کے تین بھائیوں نے اسے نہ صرف زیادتی کا نشانہ بنایا بلکہ بعدازاں اس کا گلا کاٹنے کی کوشش بھی کی۔ اس کی معاشی حالت کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ چند پیسوں کے لئے دربدر پھرتی تھی۔ہاں اس واقعے کے بعد یہ ضرور ہوا ہے کہ اب وہ یہ کام کرنے کی بھی اہل نہیں رہی۔نام نہاد عزت والے اس کا اپنی بہو بیٹیوں کے قریب بیٹھنا پسند کریں ،ایسا ممکن نہیں، رہی بات انصاف کی تو وہ تب تک نہیں ملے گا جب تک وہ کسی سرکاری ادارے کے سامنے تیل چھڑک کر خود سوزی کی کوشش نہ کر لے۔ یہاں تو غیرت کے نام پر ،جننے والی ماں ، جان نچھاور کرنے والا بھائی اور لاڈ اٹھانے والا باپ بھی جلاد بننے سے نہیں کتراتے۔حال ہی میں ایک نجی ادارے کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق صرف پنجاب میں ہر روز چھ میں سے ایک عورت کو قتل کردیا جاتا ہے یا پھر قاتلانہ حملہ کیا جاتا ہے،روزانہ آٹھ عورتوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،گیارہ خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے اور بتیس کو کسی نہ کسی وجہ سے حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے۔قصہ مختصر یہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں روزانہ تقریباً 60خواتین تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔جبکہ دیگر صوبوں میں حالات یکسر مختلف نہیں ہوں گے۔ان اعداد وشمار میں وہ کیسز شامل ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ سینکڑوںکیسزرپورٹ میں نہیںہوتے۔عورت فاﺅنڈیشن کے مطابق سال بھر میں ساڑھے آٹھ ہزار خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ خواتین پر تشدد ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ ہر معاشرے میں خواتین پر ہونے والے تشدد کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔اس پر کسی حد تک ثقافتی عوامل بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ تشدد کی بنیادی طور پر تین اقسام ہیں۔ جنسی نفسیاتی اور ذہنی ۔غیرت کے نام پر قتل کردینا، شوہر اور سسرال کیجانب سے تشدد‘ تیزاب پھینکنا‘ آگ سے جلا دینا جیسے تشدد کے واقعات ہمارے ہاں روزانہ کی بنیاد پر اخباروں کی زینت بنتے ہیں۔ بعض اوقات روزمرہ کا تشدد خواتین اس قدر ذہنی اذیت میں مبتلا کرنا ہے کہ وہ یا تو ذہنی طور پر مفلوج ہوکر دنیا و مافیا سے بے خبر ہوجاتی ہیں یا پھر وہ خودکشی کا راستہ چن کر ابدی نیندسونے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ کاروکاری بھی ملک کے کئی حصوں میں ایک عام روایت ہے جسے علاقے کی انتظامیہ اور پنچایتوں کی تائید بھی حاصل ہوتی ہے البتہ سکول سکول کالج‘ فاتر اور بازاروں میں خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق بدقسمتی سے کوئی اعدادوشمار دستیاب ہی نہیں۔ ہمارے معاشرے میں جب اتنے بڑے پیمانے پر عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو اس کا حل یہی ہے کہ حکومت اس کے خلاف ایکشن لے اور قانون سازی کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں ایسے قوانین پاس ہوئے جو مکمل طور پر خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہیں۔ لیکن قانون سازی بھی اس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہوسکتی جب تک اس پر عمل درآمد نہ ہوسکے۔ قانون کا اطلاق جہاں حکومت کی ذمہ داری ہے وہیں معاشرے کا رویہ بھی اس میں بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ کاش ہمارے معاشرے کے مرد کبھی اپنے گھر کام کرنے والی ملازمہ‘ اپنے دفتر کے استقبالیہ پر بیٹھنے والی ریسپشنسٹ و کسی ایئرہوسٹس‘ کسی کارخانے میں دس گھنٹے کام کرکے بارہ ہزار روپیہ ماہوار کمانے والی لڑکی یا بھٹے پر مزدوری کرنے والی کسی عورت کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ انہیں علم ہوگا کہ ان کی زندگی کس طرح گزر رہی ہے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ تسلیم ہی نہیں کیا جاتا کہ خواتین کی بہت بڑی تعداد اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے جس کے ساتھ جو چاہے کیا جاسکتا ہے۔ لاہور فیکٹری ایریا کی زینت یاد آرہی ہے جس کی ماں نے اسے پسند کی شادی پر اپنے ہاتھوں سے زندہ جلا ڈالا تھا اور رشتے سے انکار پر ماریہ کو اس کے گھر گھس کر آگ لگا دی گئی تھی۔ خواتین کے خلاف مختلف جرائم کے سدباب کے لئے ہر سطح پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے چندتجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔
٭ مو¿ثر قانون کے اطلاق‘ فعال اور غیرجانبدار عدالتوں کے کردار کو لازمی بنایا جائے۔ محض قانون سازی سے ثمرات حاصل نہیں کئے جا سکتے جب تک ان کے اطلاق کو ممکن نہ بنایا جائے۔
٭ خواتین کے تحفظ کے حوالے سے متعلقہ قوانین کی لڑکیوں کو بھی تعلیم دی جائے تاکہ انہیں پتہ ہو کہ کسی جرم کے نتیجے میں مجرم کو کیا سزا ہو سکتی ہے۔ یوںان میں اعتماد پیدا ہو گا۔
٭ خواتین کی خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کی جائے۔
٭ تعلیمی نصاب میں ترمیم کر کے ایسے اسباق ختم کئے جائیں جن سے جنسی تفریق کا تصور ملتا ہے۔
٭ تعلیمی اداروں میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کا سبق ضرور دیاجائے۔ ہمارا تو مذہب ہمارے لئے ایک روشن راہ ہے۔ مردوزن کے معاشرتی و اخلاقی معیارات‘ حقوق و فرائض طے کر دیئے گئے ہیں۔
٭ دارالامان جیسے اداروں میں جو صورتحال ہے اور خواتین کا وہاں کس طرح سے استحصال کیاجاتا ہے‘ یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایسے شیلٹر ہومز اور دارالامانوں میں بھی زمانے کی ستائی ہوئی عورتیں محفوظ نہیں ہوتیں۔ ترجیحی بنیادوں پر ان کے ماحول کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ ملک میں ایسی پرائیویٹ آرگنائزیشن موجود ہیں جو استحصال کی شکار خواتین کی امداد کرتی ہیں مگر حکومتی سطح پر ایسی تنظیموں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ ان تنظیموں کو بھی چاہئے کہ وہ مظلوموں کے حق میں تو آواز بلند کریں لیکن بلاوجہ کا واویلا مچا کر معاشرے کی ساکھ کو نقصان نہ پہنچائیں۔ حکومت کو بھی چاہئے وہ ان کے مثبت اقدام کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کرے۔
٭گھریلو سطح پر بھی ضروری ہے کہ والدین خصوصاً مائیں اولاد کے درمیان تفریق کو ختم کریں۔ بیٹا اور بیٹی کو یکساں تعلیمی‘ تفریحی اور کیریئر کے مواقع دیں۔ بیٹیوں میں اپنی زندگی کے حوالے سے فیصلے کرنے کا اعتماد پیدا کریں اور بیٹوں کو صنف نازک کا احترام اور ان کی مساوی حیثیت تسلیم کرنے کی تربیت دیں۔ یاد رکھیں کہ ایک خاندان ہی معاشرے کی اکائی ہے۔ اگر یہ اکائی اپنا مثبت کردار ادا نہیں کرے گی تو معاشرہ تباہی کے گڑھے میں مزید گرتا چلا جائے گا۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain