لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اگر بلاول بھٹو پنجاب کو فتح کرنا چاہتے ہیں تو اپنے نانا اور والدہ کی طرح مینار پاکستان میں جلسہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ 2018ءکے انتخابات میں پنجاب میں پی پی اور (ن) لیگ کی آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو جائے لیکن اگر نہیں بھی ہوتی تو دونوں کے درمیان مفاہمت موجود ہے۔ پیپلزپارٹی سسٹم کو بچانے اور جمہوری طرز عمل کو آگے بڑھانے والی فورس ہے جبکہ تحریک انصاف موجودہ نظام کو جمہوریت تسلیم ہی نہیں کرتی۔ چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کبھی حکومت بھی رہے اور نہ ہی کبھی دھاندلی کی۔ اس لئے یہ سیاست میں زیادہ موزوں رہیں گے۔ البتہ پی پی کا ورکرز کنونشن مینار پاکستان یا ناصر باغ میں ہونا چاہئے تھا، بند کمروں یا محلوں میں جلسہ نہیں جلسیاں ہوتی ہیں۔ ذوالفقار بھٹو اور بے نظیر نے جب مینار پاکستان جلسہ کیا تو وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 1970 میں جب بھٹو نے پارٹی منشور بنایا تھا تو اس میں سب سے پہلے یہ تھا کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں لیکن آصف زرداری بہت دیر پہلے پی پی منشور سے اسلام ہمارا دین ہے اور سوشلزم ہماری معیشت کو داخل دفتر کر چکے ہیں۔ اب زرداری کا بیان آیا ہے کہ جمہوریت ہماری سیاست ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو اپنے منشور میں کن پرانی چیزوں کو شامل کرتے ہیں اور کس کو نکالتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اپنا نیا نعرہ کیا لاتی ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ عمومی طور پر ملک میں تحریک انصاف کو ووٹ لینے میں دوسرے نمبر پر دیکھا جاتا ہے لیکن خورشید شاہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ان کو کنٹینر پر بچایا ورنہ یہ ختم ہونے والے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میثاق جمہوریت کے تحت 2018ءتک پرسکون طریقے سے چلنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جوانی میں جب پیپلزپارٹی کو دیکھا تھا، پہلی دفعہ ذوالفقار بھٹو سے ملنے ان کے گھر گیا تو اس وقت وہ وزیر نہیں تھے لیکن ان کے گھر کے باہر لوگوں کا جم غفیر تھا۔ پی پی نے لاہور میں علامہ اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال کے خلاف امیدوار کھڑا کیا تھا جس میں فتح پیپلزپارٹی کی ہوئی تھی۔ پیپلزپارٹی ماضی کی شاندار جماعت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام سیاست میں نوجوانوں کو دیکھنا چاہتے ہیں، نہ کہ بوڑھوں کو بلاول کا سیاست میں آنا خوش آئند ہے۔ بے نظیر کو بھی انکل پسند نہیں تھے۔ ذوالفقار بھٹو نے ملک معراج خالد، معراج محمد خان اور مصطفی کھر کو جانشین مقرر کیا تھا لیکن محترمہ پسند نہیں کرتی تھیں۔ آصف زرداری کا ذاتی طور پر مداح ہوں وہ بڑے مزاحیہ آدمی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک اطلاع کے مطابق نوازشریف نے زرداری کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے مشورہ مانگا تھا۔ پانامہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ عدالتوں کا احترام کرتا ہوں، فیصلہ آنے تک کوئی رائے نہیں دوں گا اور عدالتوں کو چاہئے کہ وہ ان میڈیا کے خلاف ایکشن لیں جو آرمی چیف یا جج صاحبان کی تقرری، تبدیلی یا ریٹائرمنٹ کے حوالے سے خبریں دیتے ہیں۔ بعض ٹی وی چینلز کے بارے میں سنا ہے کہ ان کے خلاف ایسی خبریں چلانے پر ایکشن ہوا لیکن طاقتور میڈیا ہاﺅسز ابھی بھی خبریں چلا رہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی ایکشن بھی نہیں ہوتا۔ یہ انتہائی قابل اعتراض بات ہے، سب کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے۔ صدر سپریم کورٹ بار رشید رضوی نے کہا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کو ضرورت سے زیادہ آزادی مل گئی ہے۔ بغیر تصدیق عدالتی خبریں دیتے رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی سینئر وکیل حامد خان کے حوالے سے میڈیا پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ایسی خبریں دینے والے میڈیا ہاﺅسز پر توہین عدالت لگنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جج کسی ایک ریمارکس پر فیصلے کا دارومدار نہیں ہوتا۔ لیکن میڈیا فیصلہ آنے سے پہلے ہی فیصلہ اخذ کر لیتا ہے۔ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے بھی سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ جو بات کریں گے عدالت میں کریں گے اور ہونا بھی اسی طرح چاہئے۔ پرنٹ میڈیا ایسا نہیں کرتا تھا لیکن الیکٹرانک میڈیا آﺅٹ آف کنٹرول ہو چکا ہے۔ 80,70 چینلز کھل گئے ہیں، بغیر تصدیق کے جج صاحبان بارے میں خبریں دیتے رہتے ہیں۔ نمائندہ چینل ۵ عطیہ زیدی نے کہا ہے کہ بلاول ہاﺅس میں پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر جنوبی پنجاب اور سندھ کے عوام زیادہ جبکہ لاہور سے بہت کم تھے۔ پہلا یوم تاسیس ہے جس پر سب سے زیادہ خرچہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت بلاول بھٹو کو پنجاب میں فول پروف سکیورٹی نہیں دے رہی تھی لیکن آصف زرداری نے نوازشریف کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے میں کہا کہ وہ یوم تاسیس پر بلاول ہاﺅس میں کنونشن کرنا چاہتے ہیں شاید اس وجہ سے فول پروف سکیورٹی فراہم کی گئی۔ ہو سکتا ہے کہ 2018ءکے انتخابات میں پنجاب میں پی پی اور نون لیگ کی آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ہو جائے۔