اسلام آباد ( نامہ نگار خصوصی) وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر بھارتی جارحیت کے باوجود ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان کی شرکت افغانستان میں دیرپا امن کیلئے پاکستان کے عزم کا اظہار ہے۔ افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے۔ یہ مسئلہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق بات چیت سے حل کیا جائے، پاکستان کی حکومت اور عوام افغانستان میں امن و استحکام کیلئے افغان عوام اور حکومت کے ساتھ ہیں۔ سارک سربراہ کانفرنس کا ملتوی کیاجانا علاقائی تعاون کی کوششوں کیلئے دھچکا ہے ، اتوار کو افعانستان میں امن اور ترقی کے حوالے سے چھٹی ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس میں شرکت باعث اعزاز ہے ، کشید گی کے باوجود شرکت خطے اور افغانستان میں امن و استحکام کیلئے پاکستان کے عزم کا اظہار ہے ۔ افغانستان کو براستہ پاکستان تجارتی سہولیات دینے کیلئے ہم پرعزم ہےں ، پاکستان نے گزشتہ تین دہائیوں سے لاکھوں مہاجرین کی مہمان نوازی کی ہے ، اقوام متحدہ کے ساتھ ملکر افغان مہاجرین کی باعزت اپنے ملک واپسی کیلئے کام کر رہے ہیں ، افغان مہاجرین کی رضاکارانہ وطن واپسی کے عمل کو 31دسمبر 2017ءتک بڑھایا جا سکتا ہے، افغانستان کی ہر ممکن مدد کرینگے ۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام افغانستان میں امن و استحکام کیلئے افغان عوام اور حکومت کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی روابط معاشی ترقی میں اضافے کی بنیاد ہیں ، سیاسی استحکام اور معاشی ترقی علاقائی استحکام سے وابستہ ہے ۔ افغانستان میں امن و استحکام ہماری مشترکہ ضرورت ہے ، انہوں نے کہا کہ الزام تراشی کے بجائے ہمیں مثبت اقدامات پر توجہ دینا ہوگی۔ دہشتگردی میں انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کیلئے ملکر کوششیں کرنا ہونگی۔ تنازعات کے پرامن حل سے علاقائی تعاون کو فروغ ملے گا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ ساتویں ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کا آذربائیجان میں انعقاد خوش آئند ہے۔ ہارٹ ایشیاءکانفرنس کا فورم افغانستان میں امن و استحکام کیلئے اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان استنبول مذاکراتی عمل کو اہمیت دیتا ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان ہارٹ آف ایشیاءکے مقاصد کے حصول کیلئے تعاون کرے گا اور اس سلسلہ میں سٹیک ہولڈرز کی طرف سے اب تک کی گئی کوششوں کو بامقصد بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال بہت پیچیدہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کسی ایک ملک پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کا الزام عائد کر دینا بہت آسان ہے، ہمیں نیک نیتی کے ساتھ مقاصد پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت اور حزب اسلامی افغانستان کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ اور عمل درآمد دیگر مزاحمت کار گروپوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے رول ماڈل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردی اور تشدد جس کے نتیجہ میں انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، پر قابو پانے کیلئے موثر اور اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ مشیر خارجہ نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کے عمل کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں، پاکستان چار فریقی رابطہ گروپ کے ذریعہ امن مذاکرات میں سہولت کیلئے سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔ انہوں نے چار فریقی رابطہ گروپ کے تمام اراکین پر زور دیا کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھےں۔ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے کشمیرکوپاکستان اوربھارت کے درمیان تناو¿کی اہم وجہ قراردیتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کی بات کی ہے ،ہمسایہ ملک مذاکرات کی ہماری پیشکش کو کمزوری نہ سمجھے ہم برابری کی سطح پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں،خطے میں امن کےلئے جامع اور مربوط کوششیں کرنی چاہئیں ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی قیادت افغانستان میں ہے اس لئے الزام تراشی کے بجائے دہشت گردی پر فوکس ہونا چاہیے۔ امرتسر میں میڈیا سے گفتگو کرتے کرتے ہوئے عبدالباس نے کہا کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ مثبت پیش رفت ہے اور اس میں کالعدم تنظیموں کا نام بھی آیا ہے، پاکستان بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مربوط کوششیں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان ہمارے لئے بہت اہم ملک ہے، پچھلے 35 سال سے ہم افغانستان کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں، خاص طور پر نائن الیون کے بعد ہم نے افغانستان کے لئے بہت قربانیاں دیں جس کی وجہ سے ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا جب کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی قیادت افغانستان میں ہے اس لئے الزام تراشی کے بجائے دہشت گردی پر فوکس ہونا چاہیے۔ عبدالباسط نے کہا کہ افغان قیادت مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام ممالک کو مل کرکام کرنا ہو گا، افغانستان اور دیگر ممالک مل کرکالعدم تحریک طالبان کی کارروائیوں کوروکیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں امن کے لئے جامع اور مربوط کوششیں کرنی چاہئیں اور تمام ممالک اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے واضح کیا کہ افغانستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کسی ایک ملک پر الزام تراشی سے حل نہیں ہو سکتا جب کہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات مفید رہی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی وجہ سے تعلقات میں تناو¿ ہے اور اس مسئلے کو کشمیری عوام کی امنگوں کے عین مطابق حل ہونا چاہیے۔ عبدالباسط کہ مسئلہ کشمیرکے حل کے بغیرجنوبی ایشیا میں پائیدارامن ممکن نہیں، پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کی بات کی اور پاکستان کی مذاکرات کی پیش کش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، ہم بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات چاہتے ہیں۔ سرتاج عزیز کی بھارت کے مشیر سلامتی امور اجیت دوول سے ملاقات نہیں ہوئی بلکہ غیررسمی بات چیت ہوئی تھی۔بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کے مراکز اور قیادت افغانستان میں ہیں امید ہے کہ افغانستان اور دیگر ممالک ان کا خاتمہ کریں گے۔ ہم مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارا بنیادی مسئلہ جموں و کشمیر ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوجاتا تب تک جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ان خیالات کا اظہار نہوں نے بھارت کے شہر امرتسر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا اعلامیہ اچھا ہے جس میں کالعدم تنظیموں کا بھی ذکر آیا ہے۔ پچھلے 35 سال سے افغانستان کیلئے ہم نے بہت سی قربانیاں دی ہیں جبکہ افغانستان کی وجہ سے پاکستان بھی بہت متاثر ہو رہا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان کے مراکز اور قیادت افغانستان میں ہیں امید ہے کہ افغانستان اور دیگر ممالک ان کا خاتمہ کریں گے۔ہم پر الزام تراشی کی بجائے جامع کوششیں کی جائیں اگر پاکستان کو صرف الزام دینا ہے تو اس سے بات نہیں بنے گی الزام تراشی کی بجائے دہشتگردی کے خاتمے پر فوکس کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی وہ ویسے ہی اچانک مل گئے اور تھوڑی بہت بات چیت ہوئی لیکن باقاعدہ طور پر کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔بھارت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ہم جب بھی مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو اسے کمزوری نہ سمجھا جائے۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ بھارتی میڈیا نے ہم پر پریشر ڈالنے کیلئے دہشتگردی کا معاملہ زیادہ اچھالا ، ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ انتہائی متوازن ہے۔ افغان صدر کا پاکستان کے حوالے سے بیان انتہائی قابل مذمت ہے۔ پاکستان دہشتگرد تنظیموں کے خلاف بھرپور اور موثر انداز میں کارروائی کر رہا ہے۔ بھارت میں سکیورٹی کا عجیب معاملہ تھا کیونکہ جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا وہاں کسی کو آنے کی اجازت نہیں تھی جبکہ ہوٹل میں کسی سے بات چیت کرنے نہیں دی گئی۔ بھارت میں سکیورٹی کا عجیب معاملہ تھا کیونکہ جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا وہاں کسی کو آنے کی اجازت نہیں تھی جبکہ ہوٹل میں کسی سے بات چیت کرنے نہیں دی گئی۔بھارتی میڈیا نے ہم پر پریشر ڈالنے کیلئے دہشتگردی کا معاملہ زیادہ اچھالا۔ بھارت جانتا ہے کہ ہم نے دہشتگردی کےخلاف بہت اقدامات کیے لیکن بار بار دہشتگردی کا ذکر کرکے وہ کشمیر سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔انہوں نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے کو انتہائی متوازن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران ہم نے ٹی ٹی پی ، جماعت الاحرار اور دیگر علاقائی جماعتوں کا بھی ذکر کیا جبکہ داعش اور طالبان کی بھی بات کی۔ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی ہمارے نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے اس لیے ہم نے دیگر ملکوں کو بھی ان کے خلاف ایکشن کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم نے گزشتہ تین سالوں میں دہشتگردی کے خلاف بھرپو کارروائی کی ہے اور اس معاملے میں ہم کسی قسم کا پریشر نہیں لیں گے۔سرتاج عزیز کا مزید کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی نے بھارت کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کے خلاف بیان دیا جو قابل مذمت ہے،افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال بہت کشیدہ ہے۔وہاں امن اوراستحکام دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ مسائل کا پر امن حل ہی علاقائی تعاون کو بہتر بنائے گا۔ افغانستان میں امن کسی ملک پر الزام تراشی سے نہیں آ سکتا اور اس مقصد کیلئے الزامات نہیںبلکہ بامقصد اور متفقہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔
مشیر خارجہ