اسلام آباد(خصوصی رپورٹ)نواز شریف کو حکومت کو دو ایسے قوانین تیار کرکے قومی اسمبلی میں پیش کرنے میں ساڑھے تین سال لگ گئے اور اگر یہ دونوں قانون منظور کر لیے گئے تو ان سے مقدمات میں تاخیر اور جعلی اور جھوٹے مقدمات کو روکا اور شہریوں کو سستا انصاف فراہم کیا جاسکے گا جس سے ملک کے نظام انصاف میں انقلابی تبدیلی آئے گی۔ قومی اسمبلی میں گزشتہ ماہ دو قانون، تنازعات طے کرنے کے متبادل نظام کا ایکٹ 2016 اور مقدمہ کی لاگت کا ایکٹ 2016 ، منظوری کیلئے پیش کیے گئے اور اب یہ دیکھنا ہے کہ ان کی منظوری میں کتنا وقت لگتا ہے۔ دونوں قوانین کے مسودے پر کام 2013 میں مسلم لیگ (ن)کی جانب سے حکومت سنبھالنے کے چند ہی ماہ بعد شروع ہوا تھا لیکن حکومت نے عوامی مفاد کے معاملات میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وزارت قانون نے 2014-15 میں ان قوانین کا مسودہ تجویز کیا لیکن کابینہ نے کچھ ہی ہفتے قبل انہیں منظور کیا جس کے بعد انہیں پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش کیا گیا۔ ماتحت اور اعلی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی ایک بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے، تنازعات طے کرنے کے متبادل قانون (آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولیوشن اے ڈی آر ایکٹ)2016 انصاف کے حصول میں ایک سادہ اور تیز متبادل فراہم کرے گا جو روایتی نظام قانون میں معاونت فراہم کرے گا۔ امید ہے کہ یہ نظام موثر انداز سے تنازعات نمٹانے کیلئے استعمال کیاجا سکے گا تاکہ مقدمات میں التوا، تاخیر میں کمی لائے گا اور مہنگے انصاف کے اخراجات اور عدالتوں پر موجود بے پناہ دباﺅ کم کرے گا۔ مقدمہ بازی کی لاگت کے قانون 2016 کا مقصد غیر ضروری اور غیر سنجیدہ مقدمہ بازی کی حوصلہ شکنی ہے، ہمارے عدالتی نظام کو اسی مسئلے کا سامنا ہے۔ مجوزہ قانون کے تحت جھوٹے مقدمے کے اخراجات مقدمہ ہارنے والی پارٹی ادا کرے گی۔ اس قانون کے تحت عدالت کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کون، کس طرح سے، کس جائیداد سے اور کس حد تک مقدمہ کے اخراجات ادا کرے گا۔ قانون میں بتایا گیا ہے کہ عدالت فیصلے میں مقدمہ کے اخراجات فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر ہی کیس میں کامیاب ہونے والی پارٹی کو دے گی۔ قانون کے مسودے کے مطابق، اخراجات کا فیصلہ سول کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان، محتسب، صوبائی / وفاقی ٹریبونلز، جوڈیشل ٹریبونل جیسے ادارے اور ریگولیٹری اتھارٹیز جیسے ادارے یا جیسے وفاقی حکومت اپنے سرکاری گزیٹ میں اعلان کرے، کر سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جھوٹے اور غیر سنجیدہ نوعیت کے مقدمات اور ناقابل سماعت کیسز کا بوجھ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس رجحان کی وجہ سے شیطان صفت انسان معصوم افراد کو مقدمات میں پھنسا کر انہیں مالی اور ذہنی نقصانات سے دوچار کرتے ہیں اور عدالتوں کا قیمتی وقت ضایع کرتے ہیں۔ اے ڈی آر ایکٹ کے تحت پورے پاکستان میں دیوانی اور فوجداری مقدمات 30 سے 45 روز میں نمٹانے کیلئے پنچائت اور تنازعات طے کرنے کا متبادل نظام متعارف کرانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ قانون کے تحت دیوانی مقدمات اور ساتھ ہی قابل مصالحت جرائم سے جڑے مقدمات کے حل کا راستہ بتایا گیا ہے۔ مجوزہ قانون میں کہا گیا ہے کہ اس نظام پر عملدرآمد کیلئے اعلی عدالتوں کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ مجوزہ قانون کے تحت، تمام دیوانی مقدمات بشمول کمرشل، فیملی، ٹریڈ، انشورنس اور ریونیو سے جڑے مقدمات اے ڈی آر یا پنچایت میں ثالثی کیلئے غیر جانبدار افراد کو بھجوائے جائیں گے۔ حکومت ہائی کورٹ کے مشورے کے ساتھ ہر صوبے اور ہر ضلعے کیلئے غیر جانبدار افراد کا پینل تشکیل دے گی جن کا تعلق وکلا برادری، ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، سوشل ورکرز، علما، ماہرین قانون، ٹیکنوکریٹس اور دیگر ماہرین سے ہوگا جن کی ساکھ اچھی اور تجربہ و قابلیت بہتر ہوگی۔ قانون کے تحت، ایک مرتبہ غیر جانبدار افراد کا تقرر ہو جانے کے بعد حکومت دونوں فریقوں کی اجازت اور رضامندی کے بغیر اسے فارغ اور اس کی جگہ کسی اور کا تقرر نہیں کر سکے گی اور اس مقصد کیلئے بھی تمام معاملات تحریری ہوں گے۔ عدالت میں کیس پیش ہوتے ہی، فریقوں سے کہا جائے گا کہ وہ عدالت کی طے شدہ تاریخ پر غیر جانبدار افراد یا پنچایت کے روبرو پیش ہوں۔ اگر کوئی پارٹی عدالت یا اے ڈی آر سے متبادل ذرائع سے تنازع طے کرنے کی درخواست کرے گی تو عدالت مدعی یا مدعا علیہ کو نوٹس جاری کرے گی اور اس کی پیشی پر یہ معاملہ پینل کے غیر جانبدار شخص کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد کیس کے فریق اے ڈی آر کی کارروائی میں بذات خود یا اپنے نامزد کردہ شخص کے توسط سے شامل ہوں گے جس کی منظوری اوتھ کمشنر تصدیق کا سرٹیفکیٹ جاری کرکے دے گا۔ عدالت یا اے ڈی آر کا مقرر کردہ غیر جانبدار شخص 30 روز میں مقدمہ نمٹانے کی کوشش کرے گا۔ اس دورانیہ میں عدالت 15 روز کا اضافہ کر سکتی ہے۔ ثالث کے پاس بھیجے گئے مسائل کے حوالے سے کارروائی 60 روز میں مکمل کی جائے گی۔ اس دورانیہ میں عدالت کی اجازت سے 30 روز کا اضافہ ہو سکے گا۔ مسئلے کا حل تلاش کیے جانے کے بعد ثالث فیصلے کی تحریری سند پر دونوں فریقوں سے دستخط لے گا اور ان پر خود بھی دستخط کرے گا اور یہ دستاویز عدالت میں جمع کرا دیا جائے گا جس کے بعد عدالت اپنے فیصلے کا اعلان کرے گی۔ اگر ثالث کی کوششیں ناکام ہوجائیں تو ثالث اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے گا جس کے بعد عدالت اس کیس پر اس وقت سے کارروائی شروع کرے گی جس وقت یہ کیس اے ڈی آر کے سپرد کیا گیا تھا۔ قابل مصالحت جرائم کے معاملے میں عدالت فریقین کی رضامندی کے ساتھ پینل سے ایک ثالث کا تقرر کرے گی اور اگر فریقین یا ان میں سے کوئی مقررہ کردہ ثالث کے نام پر اتفاق نہیں کرتے تو ایسی صورت میں پینل سے باہر کے کسی شخص کو ثالث مقرر کیا جا سکتا ہے تاکہ فریقین کے درمیان سمجھوتا ہو سکے۔ یہ ثالث 30 روز میں معاملہ حل کرنے کی کوشش کرے گا اور گواہوں، اپنے اور فریقین کے دستخط کے ساتھ رپورٹ عدالت میں پیش کرے گا۔ پنچائت سسٹم قائم کرنے کے ساتھ ہی حکومت اے ڈی آر سینٹرز بھی قائم کرے گی۔ پنچائت کو دیوانی اور قابل مصالحت جرائم کے حل کیلئے اختیارات دیئے جائیں گے۔ قانون کے مطابق، اے ڈی آر کی فیس اور دیگر اخراجات فریقین عدالت کے طے کردہ تناسب کے تحت ادا کریں گے۔ عدالت کے مقرر کر دہ غیر جانبدار شخص کے روبرو ہونے والی کارروائی کو فریقین کی رضامندی کے بغیر کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا اور غیر جانبدار شخص اس بات کا پابند نہیں ہوگا کہ وہ اس کیس کے حوالے سے کسی عدالت میں بطور گواہ پیش ہو۔ اسی طرح نیک نیتی یا فرائض کی انجام دہی پر اے ڈی آر کے حوالے سے غیر جانبدار شخص کیخلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ مجوزہ ایکٹ کے تحت عدالت کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کیخلاف کوئی اپیل دائر ہو سکے گی اور نہ ہی نظرثانی کی جائے گی۔
پارلیمنٹ میں پیش
