اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی نے قرار دیا ہے کہ حکومت پاکستان نقل مکانی کرنے والے پرندوں بشمول تلور کے تحفظ کی بجائے ان کے شکاری ”شیخوں“ کی چوکیدار بن گئی ہے۔ تلور کے شکار کی کوئی حد نہیں ہے۔ پنجاب اور بلوچستان کی تمام شکارگاہیں عرب ممالک سے آنے والے شکاریوں کے سپرد کر دی گئی ہیں جس پر قائمہ کمیٹی نے اظہار برہمی بھی کیا ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی کے دوران مشاہد حسین سید نے بتایا کہ بھارت نے امریکہ پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کو فنڈز نہ دینے کا دباﺅ ڈالنا شروع کردیا ہے اور یہ آگاہی اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے انہیں حالیہ دورہ نیویارک کے موقع پر دی ہے۔ قائمہ کمیٹی نے پنجاب حکومت سے ”سموگ“ کے مسئلے سے نمٹنے کے عملی اقدامات کے بارے میں دس روز میں رپورٹ مانگ لی ہے۔ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ ہے پائیدار ترقی کے سابقہ عالمی اہداف میں سے پاکستان صرف دو ہدف حاصل کرسکا تھا۔ نئے اہداف کی منظوری کو ایک سال گزرنے کے باوجود حکومت پاکستان ابھی تک پالیسی کی تیاری کے مرحلے میں ہے۔ پاکستان ہم خیال ممالک بشمول بھارت کو ملا کر گروپ کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی اور ان کی تباہی کی ذمہ داریاں بڑے ممالک پر برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ پیر کو قائمہ کمیٹی کا اجلاس سنیٹر محمد یوسف بادینی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاﺅس میں ہوا۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی کے متعلقہ حکام نے بتایا کہ پنجاب میں چاول کے تیس میٹرک ٹن بھوسے کو جلایا جانا بھی سموگ کا سبب بنا۔ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی زاہد حامد نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کو بتایا کہ نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے شکار پر کوئی حد مقرر نہیں کر سکتے، کیونکہ اس قسم کے اقدامات سے برادر اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ کمیٹی نے پنجاب میں حالیہ سموگ کے حوالے سے پنجاب حکام سے کئے گئے اقدامات اور سموگ کی وجوہات جارے رپورٹ طلب کر لی، رپورٹ آئندہ دس روز مٰیں جمع کروانی ہوگی، جبکہ موسمیاتی تبدیلی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سموگ کی بڑی وجہ فیکٹریوں کا دھواں ہے30میٹرک ٹن چاول کے پھوگ کے بڑھنے کی وجہ سے لاہور اور گردونواح میں سموگ جیسی صورتحال پیدا ہوئی۔ چیئرمین کمیٹی نے نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے حوالے سے حکومتی پالیسی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ان پرندوں کی حفاظت کیلئے25کروڑ روپے فنڈز بھی جاری کر دیئے ہیں لیکن شکار پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ ابھی بھی چند غیرملکی شہزادے ملک کے دیگر حصوں میں شکار کر رہے ہیں، ہم سب پرندوں کا تحفظ ہی نہیں کر رہے تو پھر ہمیں ایسے فنڈز رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا حکومت یہ فنڈز مقامی لوگوں کے شکار کرنے کی پابندی اور ان پرندوں کو مقامی لوگوں سے بجانے کیلئے خرچ کر رہی ہے۔ ملک کے تمام صوبوں میں دھڑے سے شکار جاری ہے اور ان خلاف کوئی اقدامات نہیں ہو رہے۔ ان ممالک کی ان کے قوانین کو فالو کرنا تمام افراد پر لازم ہے لیکن ہمارے ملک میں ہمارے قوانین کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں، ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں اگر کسی بااثر شخصیت کو 10فلور بھی تھے ہیں تو وہ ان شہزادوں کو بچانے چلا جاتا ہے اگر آپ ان کو شفارتی اجازت دیتے بھی ہیں تو کم از کم مقامی لوگوں کو ان سے فائدہ پہنچایا جانا چاہئے وہاں سکولز بنائے جائیں ڈسپینسریاں بنائی جائیں صرف ان علاقوں کو نوازا جاتا ہے جہاں ان کے سب قریبی لوگ موجود ہوتے ہیں۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے ڈوپلمنٹ کے حوالے سے رحیم یار خان کی بات کی تو اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آپ رہنے دیں اگر ان نام لیا گیا تو پھر بات دور تک چلی جائے گی۔ موسمیاتی تبدیلی حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ لاہور مین حالیہ سموگ کی صورتحال سے متعلق پنجاب حکومت سے بریفنگ مانگی تھی لیکن ابھی تک وہاں سے کوئی جواب بھی موصول نہیں ہوا اور سموگ سے متعلق ملک کے پاس کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے لیکن ناسائی ایک ویب سائٹ پر پوری دنیا میں سموگ کے حوالے سے ڈیٹا موجود ہے کہ دنیا میں موسم کے حوالے سے کیا ہورہا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وہ ممالک صرف ڈیٹا اکٹھا نہیں کرتے بلکہ کام بھی کرتے ہیں کہ اگر موسم تبدیلی ہوگی تو اس کا ملک پر کیا اثر پڑے گا اور یہاں پر تو کیا ہی نہیں جاتا سموگ کا معاملہ کوئی عام نہیں ہے بلکہ یہ بڑا مسئلہ ہے اس کی وجہ سے عوام میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کو اس بارے خط لکھیں گے اور جواب بھی طلب کریں گے کہ کیا اقدامات کر رہے ہیں، وفاقی وزیر زاہد حامد نے کمیٹی کو یہ20بار بتایا کہ وہاں پر ہونے والے کانفرنس میں پیرس کانفرنس میں کئے گئے وعدوں کے عمل درآمد کو دیکھا گیا کہ آپ ان پر عمل درآمد ہو رہا ہے یا نہیں اگر ہم نے اقدامات پر عمل کریں تو ہمیں40ارب ڈالر کی امداد ملے گی کیونکہ کانفرنس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ گرین ہا¶س گیسز کے اخراج میں زیادہ کردار ڈوپلمینٹ ممالک کا ہے اور یہ ملک اب انڈر ڈوپلمنٹ ممالک کو امداد فراہم کریں کچھ بھی ہو جائے این این بی اور کول کے منصوبے ملک میں کام کرنے دیں گے ملک میں اب گرین ہا¶س گیسز کے اخراج 402میٹرک ٹن ہے جبکہ 2030ءمیں1608میٹرک ٹن102کا اخراج ہو گا اور اس کے بعد ہم اس کو 20فیصد کم کریں گے جس کے بعد ہمیں امدادی رقم ملے گی ورنہ ہم اسی رقم سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ کمیٹی نے ایجنڈے میں موجود تمام اہم قومی مسائل پر صرف کاغذی کارروائی تک محدود ہونے پر بھی وزارت کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آخر کب تک ایسا چلے گا آپ کے تمام کام ابھی تک شروع ہی نہیں ہوئے نہ کوئی ریسرچ نہ کوئی کام صرف آپ کاغذی کارروائی تک ہی محدود ہیں کچھ عمل کام بھی شروع کریں کیونکہ موسمیاتی تبدیل ایک بڑا مسئلہ ہے اور دنیا میں اس جانب بڑی تحقیق ہو رہی ہے کام ہو رہے ہے لیکن آپ تو ابھی بھی کاغذی کارروائی تک محدود ہیں جبکہ اگر پرندوں کے شکار کو دیکھا جائے تو وہاں بھی آپ کی کوئی رٹ دیکھنے کو نہیں ملتی۔