لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو پانامہ کیس کی ابتک کی کارروائی کو بند کرنے اور دوبارہ نئے سرے سے سننے کے بجائے یہ کہنا چاہیے تھا کہ معاملہ بہت پیچیدہ ہے لہٰذا اس میں جلدی کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ قوم سمیت پوری دنیا کی نظریں سپریم کورٹ پر تھیں کہ کیا فیصلہ آتا ہے لیکن آج ہم پھر پہلے والی جگہ پر کھڑے ہیں۔ کیا اب شیخ رشید دوبارہ عدالت میں پیش ہونگے اور کہیں گے کہ میرے ساتھ کوئی وکیل تو نہیں ہے لیکن یہ دلائل موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے بھی وہی کیا جو سابق آرمی چیف جنرل راحیل نے کیا تھا۔ کام ادھورا چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔ جنرل راحیل کے بارے متنازعہ خبر پر اخبارات میں یہ بھی پڑھا تھا کہ انہوں نے حکومت سے کہا تھا کہ فوری نیوز لیک کا مجرم پکڑ کر دو ورنہ ہم اٹھا لیں گے۔ لیکن وہ کچھ کہے بغیر ہی شاندار طریقے سے رخصت ہو گئے۔ جنرل(ر) راحیل شریف نیوز لیک کا مجرم اٹھانے سمیت دیگر کاموں کو ادھورا چھوڑ گئے، جن کے مکمل کرنے کی انہوں نے یقین دہانی کرائی تھی۔ گزشتہ روز کچھ ایسا ہی چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کیا۔ انہیں اپنی ریٹائرمنٹ کے بارے پہلے سے معلوم تھا اگر کمیشن ہی بنانا تھا تو پہلے ہی روز کیوں نہیں بنایا؟ اب نیا بنچ نئے سرے سے شروعات کرے گا۔ جو ابتک ہوا اس چیپٹر کو بند کر دیا۔ اس سے کیا سمجھنا چاہیے کہ یہ فلم کا پہلا حصہ تھا اور جو اب شروع ہوگا وہ دوسرا حصہ ہوگا۔ ضیاشاہد نے کہا کہ عدالتوں کا بہت احترام کرتا ہوں، ہمیشہ کہا کہ فیصلہ آنے تک خاموشی اختیار کرو لیکن اب چیف جسٹس آف پاکستان نے چیپٹر بند کر دیا ہے۔ پانامہ کیس کی اب نئے سرے سے دوبارہ سماعت ہو گی لہٰذا اس لئے تجزیہ دے رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم نے اسمبلی فلور پر جو تقریر کی وہ سیاسی تھی۔ میری معلومات کے مطابق قانون میں وہ شخص مجرم ہوتا ہے جس کے بارے یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے اسمبلی فلور پر غلط بیانی کی۔ یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرکاری بیان کسی بھی وقت بدلا جا سکتا ہے۔ اسے کوئی بھی رنگ دیا جا سکتا ہے۔ ملکی آئین میں ترمیم کر کے ایسا کوئی قانون بننا چاہیے کہ کوئی بھی سیاستدان جب بیان دینے لگے تو اس کے سر پر مقدس کتاب ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنی بات سے مکر نہ سکے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل کےلئے لائق ہونا ضروری نہیں بلکہ حکومتی پارٹی کا وفادار ہونا لازمی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جتنے میجر جنرل کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے اتنی تو فوج میں جگہ بھی نہیں ہے۔ حالیہ ترقیوں سے اب کسی نہ کسی کو تو جانا ہی ہوگا۔ ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ جب کسی جونیئر افسر کو ترقی دیکر فوج کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے تو سینئر استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی بار اپنے نام سے خبر دی تھی کہ ملتان کے کور کمانڈر اشفاق ندیم سینئر ہیں وہ استعفیٰ دے دینگے، بہاولپور کے جنرل رمدے کو شاید منا لیا جائے، بہرحال نئے آرمی چیف کے آنے سے تبدیلیاں تو آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی لیفٹیننٹ جنرل آئی ایس پی آر کا سربراہ ہو لیکن راحیل شریف نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کو آئی ایس پی آر کے عہدے پر رکھا اور انہوں نے آئی ایس پی آر سے زیادہ آرمی چیف کو وقت دیا ہے یعنی محسوس اس طرح ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ میجر جنرل بلال اکبر کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدہ پر ترقی کے بعد کراچی کا ہی کور کمانڈر بنا دیا جائے کیونکہ کراچی کے حالیہ کور کمانڈر آئی ایس پی آر کے سربراہ کے طور پر جا رہے ہیں۔ میجر جنرل بلال اکبر کی کراچی میں امن قائم کرنے میں بہت خدمات ہیں۔ بھارت میں ”را“ کے نئے چیف تعیناتی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1985-86ءمیں اشوک رائنا ”را“ کے چیف ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ جب انہوں نے یہ منصب سنبھالا اور فنانس معاملات ان کے سامنے رکھے گئے تو انہوں نے پوچھا کہ پاکستان میں اتنے پیسے کہاں جا رہے ہیں، کیا سرچ ہو رہا ہے۔ جواب ملا کہ یہ رقم پاکستان کے صوبہ سرحد میں خان عبدالولی خان کے پاس بھارت تعاون کی مد میں جاتی ہے۔ میں نے یہ سٹوری اس وقت ڈپٹی چیف ایڈیٹر نوائے وقت کی حیثیت سے اپنے اخبار کے فرنٹ صفحے پر شائع کی تھی۔ اس کے باوجود ہم ایسے بدقسمت ملک میں ہیں کہ وہی پارٹی 2 صوبوں میں حکمران رہی، اسے بین کرنے کا کیس چلا، انہوں نے دوسرے نام سے پارٹی بنا لی اور ضیاءالحق نے ان کو رہا کر دیا۔ ہمارا ایسا شاندار ملک ہے کہ یہاں جومرضی کر لیں، یہاں 11افراد کا قاتل بھی وزیراعظم بن سکتا ہے۔ سرتاج عزیز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ کلبھوشن کے حوالے سے مشیر خارجہ کے پاس معلومات نہ ہوں، ایک ہفتے کے دوران جتنی تضاد بیانی انہوں نے کی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب بجلی کے بڑے کریک ڈاﺅن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں بارش کا بہانہ بنا کر بجلی میں کوئی بڑا فالٹ بتا دیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے رشوت خور ٹیکنیکل ماہرین کو بجلی اور واپڈا اداروں کے وفد بنا کر بیرون ملک بھیجا جائے۔ میں بے شمار دفعہ برطانیہ گیا وہاں صبح گھر سے نکلتے وقت چھتری اس لئے تھام لیتے تھے کہ کیا معلوم کب بارش شروع ہو جائے۔ وہاں اتنی زیادہ بارش ہونے کے باوجود میں نے وہاں کبھی بارش کی وجہ سے بجلی بند ہوتے نہیں دیکھی۔
