لاہور (سیاسی رپورٹر) بھارتی حکومت نے بری اور فضائی افواج کے نئے سربراہوں کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارتی وزارت دفاع کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل بپن راوت بری فوج کے نئے سربراہ ہوں گے جو جنرل دلبیر سنگھ سہاگ کی جگہ یکم جنوری 2017ءکو بھارت کی 13 لاکھ افرادی قوت پر مشتمل فوج کی کمان سنبھالیں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل بپن راوت نے گزشتہ ستمبر میں وائس چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ سنبھالا تھا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق آرمی چیف کے تقرر میں حکومت نے انہیں دو سینئر افسران پر ترجیح دی ہے یعنی دو لیفٹیننٹ جرنیلوں کو سپر سیڈ کیا ہے ان میں مشرقی کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل پی پراوین بخشی اور جنوبی کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل پی ایم حارز شامل ہیں۔ یاد رہے کہ پی ایم حارز جنوبی بھارت کے مسلمان ہیں۔ تاہم فضائیہ کے سربراہ کے طور پر سینئر ترین افسر ایئرمارشل بریندر سنگھ ٹاواں کے نامکا اعلان کیا گیا ہے جو موجودہ ایئر چیف مارشل اروپ راہا کی جگہ یہ منصب سنبھالیں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل بپن راوت نے دسمبر 1978ءمیں گیارھویں گورکھا رائفلز کی پانچویں بٹالین میں شمولیت سے اپنے فوجی پیشہ ورانہ سفر کا آغاز کیا تھا۔ بھارت میں مسلح افواج کے سربراہان کا تقرر حکومت کی صوابدید ہے جس میں عموماً سنیارٹی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس سے قبل 1983ءمیں اس وقت کی وزیراعظم اندراگاندھی نے سینئر لیفٹیننٹ جنرل ایس کے سنہا کی جگہ ان سے جونیئر جنرل اے ایس واڈیا کو فوج کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے دور اقتدار میں افواج کے اعلیٰ ترین عہدوں کے لئے پہلی بار تقرریاں کی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل بپن راوت بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں بھی خدمات انجام دینے کے علاوہ شورش زدہ شمالی ریاستوں میں سپاہ کی کمان کر چکے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل بپن راوت کے والد لیفٹیننٹ جنرل ایل ایس راوت ماضی میں بھارتی فوج میں طویل عرصہ خدمات انجام دے چکے ہیں۔ بیرون ملک اقوام متحدہ کی امن فورس میں کانگو میں بھی تعینات رہے وہ انتر اکھنڈ کے علاقے پاری کُھروال کے گھڈوالی راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے کورس میں اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون سے اعزازی شمشیر بھی حاصل کی۔ ملٹری میڈیا سٹریٹجک سٹڈیز میں چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ سے پی ایچ ڈی کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیفنس مینجمنٹ سٹڈیز میں مدراس یونیورسٹی سےایم فل کر چکے ہیں ان کی اہلیہ کا نام مدھو لیکا ہے۔ بھارتی اپوزیشن پارٹی کانگرس نے وزیراعظم نریندرامودی کے دو سینئر فوجی افسروں کو سپر سیڈ کرنے یعنی دوسروں کو ان پر ترجیح دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیونکہ بی جے پی کی حکومت نے سینئر ترین جنرل کی آرمی چیف مقرر کئے جانے کی روایت صرف اس لئے توڑی ہے کہ مسلمان جنرل پی ایم حارز اس دوڑ میں شامل تھے حالانکہ اندرا گاندھی خود 1983ءمیں بھارت کی عسکری تاریخ میں پہلی مرتبہ کی روایت توڑنے کی مثال قائم کر کے خود متنازعہ ہو چکی ہیں۔ جنرل حارز کا نام پی ایم حارز ہے اور یہ مسلمان ہونے کے سبب آرمی چیف نہیں بنائے گئے۔ یہ سوال بھارت کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں اٹھایا جا رہا ہے۔ سابق یونین منسٹر اور کانگرس کے رہنما منیش تیواڑی نے اس کی سوشل میڈیا پر شدید مذمت کی ہے کہ صرف معافی ہونے کے باعث جنرل پی ایم حارز سینئر تھے مگرآرمی چیف نہیں بنائے گئے۔ اگرچہ بھارتی وزارت دفاع نے دو جرنیلوں کے سپر سیڈ ہونے کی اطلاع فراہم کی ہے مگر منیش تیواڑی کانگرس ممبر کے مطابق تیسرے لیفٹیننٹ جنرل بی ایس ناگی بھی نامزد آرمی چف سے سینئر ہیں۔ منیش تیواڑی نے مزید خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس طرح کے واقعات کا اثر کہیں دیگر اداروں جیسا کہ سپریم کورٹ تک نہ پہنچ جائے اور وہاں بھی مسلمان ہونے کے باعث سینئر جج کو پیچھے نہ دھکیل جائے۔ عام طور پر بھارت میں سیاسی پارٹیاں اس طرح کے مسائل کو سیاسی وجود کی بنیاد پر سامنے نہیں لاتیں لیکن کانگرس نے بی جے پی کی مسلمان دشمنی اور وزیراعظم مودی کے اس آمرانہ فیصلے کو ہدف تنقید بنایا ہے۔