ثمن عروج….یادرفتگاں
آج میَں نے صحافت کے میدان کی اس ہمہ جہت شخصیت کے بارے میں قلم اٹھایا ہے۔جنہیںنہ صرف پاکستان بلکہ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی سینئر صحافی کی حیثیت سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔جی ہاں !میری مراد نامورصحافی ،معروف کالم نگار ، فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے رہنما سید انور قدوائی مرحوم سے ہے۔جو جمعہ المبارک کی شام 23دسمبر 2016کو ہم سے جدا ہوگئے۔سید انور قدوائی مرحوم1937ءجون میں پیداہوئے تھے ۔لیکن انہی کے بقول کاغذی ریکارڈ کے مطابق جون 1941ءلکھا ہوا ہے۔اس حساب سے جب پاکستان بنا تو اس وقت حقیقاً دس سال کے تھے جبکہ کاغذی اعتبار سے چھ سال کے تھے۔
یوں تومیری ان سے چند ایک سرسری سی ملاقاتیں رہی تھیں ۔مگر ان ملاقاتوں کے دوران مجھ کم فہم کو ان کی قدا ٓور شخصیت کا بالکل اندازہ نہ ہوسکا۔اتفاقاً مجھے اپنے ادارہ کی طرف سے سید انور قدوائی صاحب کاانٹرویو کرنے کو کہا گیا۔یہ بات اگست2015ءکی ہے۔
اس تفصیلی انٹرویو کے دوران مجھے سید انور قدوائی صاحب جیسی گہری شخصیت کے جو ہر دیکھنے کو ملے۔یہ صرف انٹرویو ہی نہیں تھا ۔بلکہ مجھ جیسی جونیئر اور صحافت کی طالبہ کے لئے پوری تاریخ کی حیثیت رکھتا ہے۔اس انٹرویو کے دوران نہ صرف سید انور قدوائی مرحوم کی ذاتی زندگی بلکہ صحافتی کردار کے حوالہ سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔
سید انور قدوائی کے جد امجد ہندوستان میں قاضی القضاة تھے۔عام طورپر انہیں قاضی قدوا کہا جاتا تھا۔“
سید انور قدوائی مرحوم کے خاندان کی ممتاز شخصیات میں ان کے دادا وزیر الدین قدوائی کے علاوہ مولانا عبدالماجد دریا آبادی،مشہور شاعر شوق قدوائی ،معروف کانگریسی لیڈر رفیع احمد قدوائی اور بالشویک موومنٹ اینڈ اسلام “ کے مصنف مشیر حسین قدوائی شامل ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان کے قومی پرچم کو ڈیزائن کرنے کا اعزاز بھی سید انور قدوائی صاحب کے والد محترم پروفیسر امیر الدین قدوائی (ایڈووکیٹ) صاحب کو حاصل ہے۔اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اس ڈیزائن کو منظور کیا۔
سید انور قدوائی صحافت کی تاریخ میں درخشاں باب ہیں۔انہیں ان کی بہترین صحافتی خدمات کے سلسلہ میں مختلف حکومتی ادوار میں مختلف سرکاری ایوارڈز اور گولڈ میڈل سے بھی نواز ا گیا۔
سیدانور قدوائی صاحب بے شمار کتابوں کے مصنف بھی تھے۔موصوف نے جو کتابیں تحریر کیں ۔ان میں سے چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔
1۔شاہ بازِ پاکستان
2۔علامہ شاہ احمد نورانیؒ
3۔درویش سیاست دان
4۔ڈپٹی برکت علی خان
اور ایک کتاب معروف کالم نگار محمدساجد خان کے ساتھ مل کر ترتیب دی جس کا نام ” انتخابات“ ہے۔
یوں اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے صحافت کے میدان ایک بھرپور زندگی گزاری ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔انہوں نے اپنی صحافتی سرگرمیاں صرف ملکی سطح پر ہی انجام نہیں دیں بلکہ انہیں دنیا کے بیشترممالک میں جانے اور کام کرنے کے مواقع بھی میسر آئے تھے۔جس میں ہمسایہ ملک بھارت کی ماضی کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے ساتھ قریبی ملاقاتوں اور ان سے انٹرویو کرنے کا بھی موقع ملا۔اور انہوں نے بھارتی سیاسی جماعت شیوسینا کے سربراہ ”بال ٹھاکرے “کا بھی انٹرویو کیا۔اس کے علاوہ ملیشیاءکے وزیراعظم مہاتیر محمد سے ملاقات کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔
اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کی بات کی جائے تو اس میںبھی ایوب خان،یحییٰ خان،ذوالفقار علی بھٹوضیاءالحق،سابق وزیراعظم جونیجو،نوابزادہ نصراللہ، مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری پرویز الٰہی،سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری،مرحوم غلام حیدر وائیں،سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی، سابق صدر ِ پاکستان غلام اسحاق خان،سابق نگران وزیراعظم معین قریشی ، غلام مصطفیٰ کھر،بے نظیر بھٹو صاحبہ ،اورموجودہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے علاوہ بیشتر سیاست دانوں کے ساتھ وقت گزارنے کے مواقع انہیں کثر ت سے اپنی حیات میں ملتے رہے۔اس کے ساتھ مذہبی جماعتوں کے رہنماﺅں کے ساتھ بھی ان کا تعلق رہا جن میں سرفہرست مولانا عبدالستار خان نیازی مرحوم اور علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم کے نامِ نامی شامل ہیں۔
”کاوش “ کے ایڈیٹر اسلم قاضی صاحب ،فیڈریشن آف چیمبر کے صدر افتخار ملک،رحمت اللہ جاوید کے ساتھ بھی خاصی قربت رہی ،کمرشل ٹائمز،حریت میں بھی کچھ عرصہ کام کیا۔پھر لاہور آگئے ۔وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں محکمہ بحالیات کے شعبہ اکاﺅنٹ میں ملازمت دلوادی۔انور قدوائی صاحب کا کہنا ہے کہ اس محکمہ میں کچھ ہی عرصہ انہوں نے ملازمت کی مگر اس دوران بھی ان کے آرٹیکل نوائے وقت میں شائع ہوتے رہے۔ انہوںنے روزنامہ ندائے ملت میں بھی کام کیاپھر 1971ءمیں نوائے وقت اور ندائے ملت اکٹھے ہوگئے۔
سید انور قدوائی صاحب نے روزنامہ نوائے وقت میں طویل عرصہ صحافتی خدمات انجام دیں۔اس مناسبت سے مرحوم مجید نظامی صاحب سے بہت قریب رہے۔انہیں مجید نظامی صاحب نے خود رپورٹر تعینات کیا ۔وہ نوائے وقت میں کالم اور مضامین بھی لکھتے رہے۔ رپورٹنگ میں ان کی بیٹ صدر ،وزیراعظم ،اور سیاسی لیڈرز رہے ۔نوائے وقت کے نمائندہ کی حیثیت سے ہی انہوں نے مختلف ممالک کے صحافتی دورے بھی کئے۔اور تقریباً 26سال کا عرصہ نوائے وقت سے وابستگی رہی۔
پاکستان بنتے وقت کی یادداشتیں شیئر کرتے ہوئے سید انور قدوائی صاحب نے بتایا تھا:
”میَں نے وہ جلوس دیکھا جو وائسرائے ہاﺅس دہلی میں تقسیمِ ہندوستان کے اعلان کے بعد نکالا گیا تھا۔میرے خالو انصارحسین ہمدرد مطب کے جنرل مینجر تھے۔اس جلوس میں گاندھی اپنی مخصوص دھوتی چادر میں ملبوس تھے۔ان کے پیچھے جواہر لال نہروراور قائداعظم محمد علی جناحؒ تھے۔مجھے یاد ہے کہ جب قائداعظمؒ محمد علی جناح وہا ں سے گزرے تو بہت فلک شگاف نعرہ گونجا ” قائداعظمؒ زندہ باد“یہ جون 1947ءکی بات ہے۔
سید انور قدوائی آج ہم میں نہیں ہیں۔ان کا خلا کبھی پر نہیں ہوسکے گا۔جب بھی صحافت کے درخشاں ستاروں کا ذکر آئے گا ۔ان میں سید انور قدوائی صاحب کا نامِ نامی سرفہرست ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شعبہ میں نئے آنے والوں کو ایسی عظیم شخصیات کے کام اور کارناموںکو مد نظر رکھ کر صحافت میں اپنا لوہا منوانا چاہئے۔
ایسی عالی شان ہستی کے ساتھ میری آخری ملاقات 10دسمبر 2016ءکی شام ایمبسڈر ہوٹل میں منعقدہ ایک صحافی تقریب میں ہوئی۔وہ ہمیشہ چہرے پر شفیق مسکراہٹ لئے ملتے تھے۔ان کی گہری نظریں انسان کو اپنے حصار میں قید کرلیتی تھیں۔اُس آخری ملاقات میں چائے کے دوران سید انور قدوائی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے تھپکی بھی دی۔اور وہ جاتے جاتے ایک لطیف سا اپنائیت بھرا احساس بھی میری یادداشتوں میں چھوڑ گئے۔میَں سمجھتی ہوں کہ وہ صحافت کی دنیا میں ایک شجر سایہ دار تھے۔اللہ پاک انہیں اگلے جہان میں بھی اعلیٰ وارفع مقام سے نوازے۔(آمین ثمہ آمین)
٭….٭….٭