لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ 27 دسمبر ملکی تاریخ کا بہت بڑا دن تھا، بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے بڑے برے اعلانات پر کچھ نہیں ہوا۔ اسمبلی اور سینٹ تو پہلے ہی پی پی کے رہنماﺅں سے بھری پڑی ہے، یہ خود بھی بیٹھ جائیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلاول زرداری، فریال تالپور کی کامیابی کیلئے دُعا گو ہوں۔ لیکن یہ جواب دیں کہ پی پی سے غریبوں کو روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ وفا کیا؟ موجودہ حکومت نے بھی بڑے بڑے دعوے کئے، کچھ وفا کئے کچھ نہیں کئے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ میں سابق اور موجودہ حکمرانوں سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ آپس میں باریاں باندھ لو، مک مکا کر لو لیکن قوم کے مسائل کی طرف دیکھو۔ 2 فیصد طبقے میں سے 2 فیصد لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں ساری گیم ہے، باقی سارے بھوکے مر رہے ہیں۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ اگر غریب کیلئے روٹی، چھت، انصاف نہیں ہو گا تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے۔ سیاستدانوں کو 2018ءبہت پسند ہے، تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جواب دیں کہ 2018ءمیں کیا بہتری آئے گی؟ 43 فیصد لوگ خطِ غربت کے نیچے جا رہے ہیں۔ لوگوں کے پاس روٹی، کپڑا، مکان، انصاف،علاج، پینے کا صاف پانی کی سہولیات میسر نہیں۔ زمین پر بسنے والے بھی انسان ہوتے ہیں۔ مدو گئے بھی تو ٹیکس کیلئے پیسے نہیں۔ وزیراعظم نیوکلیئر پاور پلانٹ کا افتتاح کر کے معلوم نہیں کون سی خوشخبری سنا رہے ہیں۔ یہ بھی بتا دیں کہ اس پاور پلانٹ سے سپلائی کب شروع ہو گی، اگر ہو چکی ہے تو مبارکباد دیتا ہوں۔ 40 برس پہلے پانی سے بجلی بنتی تھی، اس وقت بجلی کی لاگت اور پیداوار دیکھ لیں اور اب تل سے، سولر سے، نیوکلیئر سے بجلی کی پیداوار اور لاگت دیکھ لیں۔ وزیراعظم بتائیں کہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کا افتتاح تو کر دیا اس پر جو ریٹ بڑھیں گے وہ کون دے گا؟ 340 میگا واٹ کے پلانٹ سے بجلی کی پیداوار میں کتنی کمی ممکن ہو سکی؟ بجلی کے بڑھنے والے بل حکمرانوں نے نہیں، عوام نے بھرنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں چار حکومتیں تبدیل ہو چکی لیکن کچرا نہیں اٹھایا جا سکا۔ کراچی کے شہری کہتے ہیں کہ 10 سے 12 سال سے کچرا صاف نہیں ہوا، میں خود بھی دیکھ کر آیا ہوں۔ یہاں جمہوریت کے نام پر فراڈ ہے۔ ضیا شاہد نے برسوںپہلے کا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک بار انتخابات کا دور تھا، جاوید ہاشمی سے پوچھا کہ کوئی غریب آدمی تو الیکشن نہیں جیت سکتا، انہوں نے جواب دیا کہ ہاں بالکل نہیں۔ پھر انہوں نے بتایا کہ میری جو 11 سے 12 گاڑیاں انتخابی مہم میں استعمال ہوئیں تھیں، ان کے 28 لاکھ روپے پٹرول پمپوں کو ابھی ادا کرنے ہیں۔ ہمارا دیہاتی علاقہ ہے، یہاں روٹی پانی کا بندوبست کئے بغیر لوگ تقریر سننے نہیں آگے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ یہاں انتخابات جیتنے کے دو ہی طریقے ہیں، پیسہ خرچ کرو یا پھر ایم کیو ایم کی طرح بندوق کا استعمال ہو۔ متحدہ نے مافیا بنایا، لوگوں کو یرغمال بنایا، پانی، بجلی، بیماری اور ملازمت سمیت تمام مسائل کا حل اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ لیکن اب وہ جواب دیں کہ ان کے لاکھوں ووٹ کدھر گئے؟اب ہر محلے میں ان کے مسلح لوگ نہیں بیٹھے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ تبدیلیاں انقلابی طور پر لانا پڑتی ہیں۔ میرے اخبار نویسی کے زمانے میں کسی ادارے کے خلاف ایک خبر بھی چھپ جاتی تھی تو کھلبلی مچ جاتی تھی، اگلے ہی روز اس کے 3,2 بڑے افسروں کی چھٹی ہو جاتی تھی لیکن آج تمام اداروں کے افسروں کو معلوم ہے کہ کرسی میرٹ پر نہیں ملی، کرسی کیلئے جس کو رشوت دی وہی اس کی کرسی کی حفاظت بھی کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی نسبت آج کا میڈیا بہت تیز ہونے کے باوجود بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ صحافت کا معیار دن بدن گرتا جا رہا ہے پٹواری سے لے کر چھوٹے ملازم تک کو معلوم ہےکہ اسے کسی بڑے افسر کی آشیرباد حاصل ہے۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف کے دورہ سعودی عرب پر انہوں نے کہا کہ یہ خبر 28 دسمبر کو صرف ”روزنامہ خبریں“ میں شائع ہوئی۔ 24 نومبر2016ءکو چینل ۵ کے اسی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پیش گوئی کی تھی کہ راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے بعد 35 اسلامی ممالک کی مشترکہ افواج کی سربراہی اور سعودی فوج کی رہنمائی کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں، البتہ یہ مذاکرات ابھی حتمی مراحل میں پہنچے ہیں کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن راحیل شریف سعودی عرب ضرور پہنچ چکے ہیں لہٰذا فیصلہ جاننے کیلئے ابھی تھوڑا انتظار باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو کوئی بھی سرکاری ملازم ریٹائرمنٹ کے فوری بعد اپنی کی ہوئی ملازمت سے ملتے جلتے کام کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ انہوں نے کہا کہ راحیل شریف سے ان کی کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی، ان کے دوستوں و عزیزوں سے بھی کوئی تعلق نہیں البتہ ایک دفعہ ان کو ایک کتاب بھیجی تھی جس کے جواب میں ان کا شکریہ کا خط موصول ہوا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے فضل الرحمان کو حریف پارٹیوں سے ملنے کا مقصد روٹھوں کو منانے کا نہیں بلکہ آئندہ انتخابات کیلئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔