تازہ تر ین

انور قدوائی ،رفعت قادر صحافت ،ادب کے روشن ستارے ،ہمیشہ یاد رہیں گے

لاہور (فورم رپورٹ) ممتاز صحافی، کالم نگار اور معروف دانشور سید انور قدوائی اور صاحب طرز ناول نگار اور صحافی محترمہ رفعت قادر حسن کی یاد میں گزشتہ روز ”خبریں“ آفس کے عدنان شاہد ہال میں منعقدہ ایک تعزیتی ریفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے مرحوم کے صاحبزادے حفیظ انور قدوائی نے کہا کہ میرے عظیم والد شعائر اسلام پر مکمل طور پر کاربندرہتے وہ ایک پکے اور سچے مسلمان تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ گھر میں ہمارے ساتھ سیاست یا صحافت پر ہرگز گفتگو نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ دین اور اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ ان کے دوسرے صاحبزادے امان انور قدوائی نے کہا کہ میرے والد نے دنیا میں جس قدر شان سے زندگی گزاری امید ہے کہ عالم برزخ میں بھی وہ اسی شان میں ہوں گے، امان حفیظ نے کہا کہ قدوائی صاحب ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ اگر انسان نے اپنی آخرت سنوارنی ہے تو آل رسول سے محبت کرے۔ ممتاز ماہر تعلیم اور صحافی سید تاثیر مصطفی نے کہا کہ مرحوم خبر کے بین السطور چھپی ہوئی چیز کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں ان کا کالم ”مال روڈ سے مال روڈ“ بہت مشہور ہوا بعد ازاں انہوں نے قلم برداشتہ کے زیر عنوان کالم لکھنا شروع کیا۔ خبریں گروپ آف نیوز پیپرز کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد نے کہا کہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم دنیا سے چلے جانے والوں کو بہت جلد فراموش کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انور قدوائی کا حافظہ بلا کا تھا اور وہ چلتے پھرتے ایک ڈکشنری بلکہ انسائیکلوپیڈیا تھے جن کے سینے میں ماضی حال کے بہت سے راز ہائے درونِ پردہ تھے، ضیا شاہد نے مزید کہا کہ سید انور قدوائی کا حسن یہ تھا کہ وہ بالکل دو متضاد نظریات اور مختلف الخیال لوگوں سے بھی نہ صرف رابطہ رکھتے بلکہ جب جی چاہتا ایسے باہم مخالف عناصر کو ایک ہی میز پر بٹھا سکتے تھے جن میں بعد المشرقین ہوتا۔ معروف دانشور اور ممتاز کالم نگار عبدالقادر حسن کے صاحبزادے اطہر حسن نے کہا کہ سید انور قدوائی سے ہمارا تعلق 25/30 برس پر محیط ہے اور ہمیشہ انہیں خوش لباس اور وضعدار اور محبت کرنے والا انسان پایا۔ مرحوم کے برادر نسبتی ضیاءالدین صدیقی نے کہا کہ سید انور قدوائی میں تکبر نام کی کوئی شے نہ تھی ہمیشہ دوسروں کے کام کرتے وقت انہیں یک گونہ اطمینان اور سکون ملتا تھا۔ سید انور قدوائی کے ایک اور برادر نسبتی نجم الدین صدیقی نے کہا کہ کسی خبر کے حصول کے بعد وہ کنجوسی اور بخل سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ دوستوں میں حاصل شدہ خبر کو شیئر کرتے تھے یہاں تک کہ اس کی پلیسنگ تک کے بارے میں بات کرتے، محترم عبدالقادر حسن کی اہلیہ محترمہ رفعت قادر حسن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ میرا مرحومہ کے ساتھ رشتہ ایک دوست کی بیوی اور بھابھی کا نہیں بلکہ وہ میری بہن تھیں۔ انہوں نے کہا کہ رفعت بہن سے ملاقات نوائے وقت میں ہوئی تھی جب ابھی ان کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ ضیا شاہد نے کہا کہ میرا پیغام یہی ہے کہ دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے نشستوں اور ملاقاتوں کا اہتمام کرتے رہنا چاہئے۔ سیدتاثیر مصطفی نے کہا کہ محترمہ رفعت حسن نے جماعت اسلامی کے امیر مولانا طفیل محمد مرحوم کی اہلیہ کی وفات پر جو کالم لکھا اس سے خود اس بات کا اندازہ ہوا کہ رفعت بہن خود بھی کس قدر دیندار خاتون تھیں۔ اطہرحسن نے اپنی والدہ کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بابا جب کالم لکھنے بیٹھتے تو وہ ان کے پروف اور ہجے وغیرہ درست کرتیں جس پر میرے والد کہتے کہ مجھے تنگ نہ کرو ابھی لکھنے دو۔ رفعت حسن کی صاحبزادی محترمہ اسما حسن نے کہا زمانے کے ساتھ ساتھ صحافت کے انداز بھی بدل چکے ہیں لیکن میں خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اسلامی اقدار کو فراموش نہیں کیا اور بچھڑ جانے والوں کی یادوں کو ہمیشہ تازہ کرنے کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ اسماءحسن نے کہا کہ میری والدہ نے میرے بابا کے ساتھ اٹوٹ محبت کو خوب نبھایا انہوں نے کہا کہ میرے بابا کا تعلق دیہات سے تھا چنانچہ میری والدہ نے خود کو ایک ایسے سانچے میں ڈھالا کہ میرے بابا کے قریبی اعزاءمیرے اور اطہرحسن کے سسرال سب کے ساتھ ان کی خواہشوں کے مطابق خدمت کی۔ سید حفیظ انور اور سید امان انور قدوائی نے کہا کہ مرحومہ ہمیشہ ہمارے ساتھ اپنے بچوں کا سا سلوک کرتیں سیدانور قدوائی کے دونوں صاحبزادوں نے کہا کہ جب ہمارے والد کی شادی ہوئی تو آنٹی رفعت حسن ہماری والدہ کو دیکھنے ہمارے ہاں تشریف لائی تھیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain