اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جو حکومت کے اتحادی بھی ہیں‘ مسلم لیگ ن اور پی پی میں اختلافات کو کیش کرانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ حکومت کی طرف سے سردمہری کا مظاہرہ کیا گیا۔ انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو پیشکش کی تھی کہ وہ پی پی کو منانے کے لئے تیار ہیں لیکن مسلم لیگی قیادت کی اکثریت نے انہیں یہ مشن سونپنے سے صاف انکار کردیا۔ اخبار نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسلم لیگ ن کو علم تھا کہ مولانا فضل الرحمن اس مشن کے بدلے حکومت سے بے شمار مراعات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ ایسی مراعات ہیں جو حکومت کے لئے قابل قبول نہیں۔ یہ کے پی کے میں مولانا کی پارٹی کے مفادات کے بارے میں تھیں۔ مولانا فضل الرحمن قبائلی علاقوں میں ملازمتوں پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ترقیاتی سرگرمیوں کے نام پر بھاری فنڈز بھی مانگ رہے ہیں۔ سرکاری محکموں بشمول وزارتوں کے اہم عہدوں پر اپنے لوگوں کو رکھوانا چاہتے ہیں۔ وزارت مذہبی امور میں عمرہ آپریٹروں کے لئے لمبا چوڑا کوٹہ حاصل کرنے کے چکر میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں‘ حکومت کی حمایت کرتے ہیں لیکن حکومت بھرپور طریقے سے ہماری حمایت نہیں کرتی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک وفاقی وزیر نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ مولانا اپنے حصہ سے زیادہ مانگ رہے ہیں۔ ان کی توقعات سب سے زیادہ ہیں۔ حکومت کے اندرونی ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے 27 دسمبر سے قبل آصف زرداری اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے ملاقات کی اور یقین دلایا کہ وہ کراچی کی صورتحال کے تناظر میں پی پی کے لئے مراعات حاصل کرنے میں مدد کرنے کو تیار ہیں۔ یہ معاملہ بعدازاں وزیراعظم کے ساتھ ان کی ملاقات میں زیربحث آیا اور مولانا نے وزیراعظم کو زرداری کی طرف سے مفاہمتی پیغام پہنچایا۔ ان کا خیال تھا کہ دونوں پارٹیوں میں بیک ڈور رابطوں کا سلسلہ چل نکلے مگر اس کے برعکس حکومت کی طرف سے انہیں یہ جواب ملا کہ جہاں تک کراچی کے حالات کا تعلق ہے اس ضمن میں کسی قسم کی رورعایت نہیں برتی جاسکتی اور یہ کہ حکومت اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کراچی میں دہشت گردی سے نمٹنے کے مسئلہ پر ایک پیج پر ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ثالث بننا چاہتے تھے مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ بعدازاں انہوں نے تمام باتوں کی تردید کی۔