لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی وتجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کا ایک الگ صوبے کا دلی مطالبہ ہے لیکن نئے صوبے آئین میں ترمیم سے بنتے ہیں، نعرے لگانے سے نہیں۔ سرائیکیوں کو قومی اسمبلی میں اپنی تعداد بڑھا کر آئین میں ترمیم پر زور دینا چاہیے۔ چینل فائیو کے تجزیوں وتبصروں پر مشمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ گزشتہ روز ملتان میں روزنامہ خبریں کی 24 ویں سالگرہ کی تقریب منعقد کی گئی جس میںسابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سابق سپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام اور جاوید ہاشمی سمیت 50 مختلف شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا تمام مہمانوں سے انکی نظر میں ملک کے سب سے اہم مسئلہ پر روشنی ڈالنے کو کہا گیا۔ سیاسی جماعتوں کے مطابق سب میں شدت کے ساتھ احساس موجود ہے کہ ملک میں نئے سرے سے صوبوں کو تقسیم ہونی چاہیے۔ تقریب میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے اپنے دور میں سینٹ اور پنجاب اسمبلی سے قرارداد منظور کروا لی تھی لیکن قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باعث آئین میں ترمیم نہیں کروا سکے۔ انہوں نے کہا کہ خبریں کی سالگرہ تقریب میں 18 سرائیکی جماعتوں نے شرکت کی جنہوں نے متحد ہونے کے بجائے اپنی پارٹی کو الگ الگ نام دے رکھے تھے یہاں ایک دوسرے کو بنانے، گرانے اور اپنی لیڈرشپ بنانے پر پوائنٹ سکورنگ کی جا رہی ہے۔ ایسے نئے صوبے نہیں بنتے شرکت کرنے والی 18 سرائیکی پارٹیوں میں سے صرف ایک پارٹی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سرائیکی صوبے کے خلاف کسی کا مضمون شائع کرنے پر مجھ پر متعدد لیگ نوٹس اور 2 فوجداری مقدمات کیے گئے لیکن میں ناراض نہیں ہوں بلکہ ان کو نیا صوبہ بنانے کیلئے درست راستہ بتاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق سپیشل سٹیٹس میں گلگت وبلتستان کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے صوبہ بنایا گیا ہے حالانکہ وہاں سے کوئی نمائندہ سینٹ میں موجود نہیں۔ آئین میں ترمیم وضح کردہ طریقہ کار ہے جس سے نئے صوبے بن سکتے ہیں، شور مچانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اسلام آباد میں گھریلو ملازمہ تشدد واقعہ کے نیا موڑ لینے پر انہوں نے کہا کہ یہ بچی نہیں ملے گی اور سامنے آنے والے جعلی خاندانوں کا بھی کچھ نہیں بنے گا ہم جنگل کے قانون میں رہتے ہیں ہمارے ارد گرد بھیڑیے، شیر، سانپ وبچھو ہیں جو ہمیں اس وقت تک کاٹتے رہیں گے جب تک موجودہ عدل وانصاف کا نظام موجود ہے۔ مظلوم بچی کو عدالت میں پیش کر بھی دیا گیا تو وہ دباﺅ میں آ کر غیرجابندارانہ بیان نہیں دے سکے گی۔ وہ غریب خاندان ہے انہیں تھوڑے پیسے مل جائیں گے تو وہ عدالت میں آ کر راضی نامہ کر لیں گے۔ جج کی اہلیہ کو کوئی نہیں پکڑے گا۔ میرے پاس 12 شواہد ہیں کہ ہائیکورٹ کے ججوں نے اہلیہ کی ناراضی پر دکانداروں پر توہین عدالت کے کیس کر دیئے۔ موجودہ عدل وانصاف کے نظام میں غریب کچھ نہیں کر سکتا۔ قانون صرف کتابوں میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ برسوں پہلے ایک کیس میں مجھے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو ریلیف لے کر لاہور چلے جاﺅ گے۔ میں نے یہیں رہنا ہے یہاں سے وزیراعظم کا گھر کتنا دور ہو گا۔ انہوں نے مجھ سے زبردستی درخواست لکھوائی کہ ہماری تیاری نہیں تھی لہٰذا اگلی تاریخ دی جائے اور مجھ سے پوچھا کہ کتنے لوگ جیل میں ہیں تو میں نے کہا کہ 2 ایڈیٹر سمیت 11 لوگ جیل میں ہیں صرف میں باہر ہوں تو چیف جسٹس آف پاکستان نے مجھ سے کہا کہ تم بھی پرسوں جیل چلے جاﺅ گے اور میں اگلے ہی روز جیل میں تھا۔ 9 مہینے جیل میں رہا جہاں ایسا جنگل کا قانون ہو وہاں غریب کی شنوائی کیسے ہو سکتی ہے؟ لودھراں میں ٹرین حادثے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ایسے واقعات پر استعفیٰ دینے کا رواج نہیں ہے۔ طیارہ حادثے پر چیئرمین اعظم سہگل نے استعفیٰ دیا تھا تو ان کو مبارکباد دی تھی۔ کشمیری رہنما سید علی گیلانی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ انتہائی بہادر اور نڈر انسان ہیں ہمیشہ فون پر بات رہتی ہے۔ ریلی میں 2 دفعہ ملاقات بھی ہوئی انکی صحت یابی کیلئے دعا گو ہوں اور ان سے کہوں گا کہ شاید پاکستان کی حکومت کچھ بھی نہ کر سکے کشمیر کمیٹی کا سربراہ دل سے دو قومی نظریے پر بھی یقین نہیں رکھتا مولانا فضل الرحمان صرف مسجد کیلئے چندہ مانگ سکتے ہیں مسئلہ کشمیر پر بات نہیں کر سکتے انگریزی تو ان کو آتی نہیں۔